الجزائر میں اہلِ دین کی آزمائش

   
مارچ ۱۹۹۶ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۲۴ جنوری ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں الجزائر کے وزیر مذہبی امور احمد میرانی کے حوالے سے یہ خبر دی ہے کہ الجزائر میں گزشتہ چار برسوں کے دوران انتہاپسند گروپوں کے ہاتھوں ۸۴ ائمہ مساجد مارے جا چکے ہیں۔

الجزائر ہمارا برادر مسلم ملک ہے جس نے فرانسیسی استعمار کے خلاف طویل جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی۔ اور اب الجزائر کے علماء اور اہل دین اسلام کی بالادستی اور نفاذ کے لیے ایک صبر آزما جنگ میں مصروف ہیں۔ فرانسیسی استعمار کے خلاف الجزائر کی جنگ آزادی کے قائدین میں احمد بن بیلا کے ساتھ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ اور الشیخ بشیر الابراہیمیؒ کے نام بھی نمایاں ہیں۔ یہ دونوں بزرگ علماء کے گروہ کے قائد تھے اور ان کی قیادت میں علماء اور دینی کارکنوں نے الجزائر کی جنگ آزادی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔

الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد ہیں۔ انہوں نے حضرت مدنیؒ کے قیامِ مدینہ منورہ کے دوران ان سے حدیث رسولؐ پڑھ کر سند حاصل کی، اور سندِ فراغت حاصل کرنے کے بعد ان سے اجازت چاہی کہ مدینہ منورہ میں ہی کسی جگہ بیٹھ کر حدیث رسولؐ کی خدمت کرتے رہیں۔ مگر حضرت مدنیؒ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ الجزائر واپس جائیں اور علماء کو منظم کر کے الجزائر کی آزادی کی جنگ میں شریک ہوں۔ چنانچہ الشیخ بن بادیسؒ اپنے عظیم المرتبت استاد کی ہدایت پر وطن واپس گئے، ’’جمعیۃ علماء الجزائر‘‘ قائم کی اور جنگِ آزادی میں کود پڑے، اور آج الجزائر کی جنگِ آزادی کی تاریخ میں ان کا نام صفِ اول کے قائدین میں شمار ہوتا ہے۔ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ اور الشیخ بشیر الابراہیمیؒ ایک عرصہ ہوا دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، لیکن ان کی دینی تحریک زندہ ہے اور ان کی قربانیوں کے اثرات دن بدن نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔

الجزائر کے موجودہ المیہ کا پس منظر یہ ہے کہ ’’اسلامک سالویشن فرنٹ‘‘ کے نام سے اہل دین کی ایک جماعت نے چار سال قبل الجزائر کے عام انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور الیکشن کے پہلے مرحلہ میں کم و بیش ۸۰ فیصد ووٹ حاصل کر لیے۔ اسلامک سالویشن فرنٹ ملک میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ اور مغربی تہذیب کے اثرات کے کُلّی خاتمہ کا علمبردار ہے۔ اس لیے اس کی یہ کامیابی ناقابل برداشت قرار پائی، مغربی ملکوں میں کھلبلی مچ گئی اور عرب ممالک میں مغرب کی ہمنوا حکومتوں کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی پریشانی کا باعث بن گئی، چنانچہ

  • الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے کی بجائے انتخابات کا دوسرا مرحلہ منسوخ کر دیا گیا،
  • فوج کے ذریعے حکومت تبدیل کر دی گئی،
  • اسلامک سالویشن فرنٹ کو خلافِ قانون قرار دے دیا گیا اور اس کے راہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف ملک گیر آپریشن کا آغاز ہوا جو چار سال سے مسلسل جاری ہے۔

اس دوران سینکڑوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور ہزاروں لوگ پسِ دیوارِ زنداں ہیں۔ دوسری طرف ریاستی جبر کے خلاف بعض گروہوں نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں اور ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ مگر جمہوریت، ووٹ کے تقدس، آزادئ رائے اور انسانی حقوق کے مغربی ٹھیکیدار یوں چپ سادھے بیٹھے ہیں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ اور وہ الجزائر کی آمرانہ حکومت کی پشت پناہی کر کے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان کا اصل مسئلہ جمہوریت یا انسانی حقوق کا نہیں، بلکہ اسلام اور دیندار مسلمانوں کو بہرحال دبا کر رکھنے کا ہے، اور اس کے لیے وہ اخلاق، اصول اور شرافت سمیت ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter