لاہور میں ”شاہ ولی اللہ سوسائٹی“ کا احیاء اور اس کی سرگرمیوں کا آغاز فکری و نظریاتی حلقوں کے لیے خوش آئند بات ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار و تعلیمات کے فروغ کے لیے ”شاہ ولی اللہ سوسائٹی“ مفکرِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے قائم کی تھی اور ایک عرصے تک ان کے تلامذہ اس فورم پر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و فلسفے کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سرگرم عمل رہے ہیں۔ اس کے بعد اب سے کم و بیش تین چار عشرے قبل حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کی سربراہی میں یہ سوسائٹی کافی عرصے کو متحرک رہی اور اس کے تحت مختلف عنوانات پر فکری نشستیں ہوتی رہی ہیں۔ اس دور میں شیرانوالہ لاہور ان سرگرمیوں کا مرکز ہوتا تھا اور راقم الحروف بھی ان میں شریک ہوا کرتا تھا۔ ہمارے مرحوم دوست محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ کی تگ و دو اور تحریک سے اب پھر کچھ اصحابِ فکر و نظر اس فورم پر کام کرنے کے لیے تیار ہوئے ہیں، مگر ظہیر میر مرحوم دوستوں کو جمع کر کے خود اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور ان کے اس مشن اور محنت کو تسلسل سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
”شاہ ولی اللہ سوسائٹی“ کی اس نئی تشکیل میں پنجاب یونیورسٹی کے دائرہ معارف اسلامیہ کے چیف ایڈیٹر اس کے صدر قرار پائے ہیں اور ظہیر الدین بابر ایڈووکیٹ سیکرٹری جنرل چنے گئے ہیں، جبکہ ان دوستوں نے راقم الحروف کو سرپرست کے عنوان کے ساتھ شریک کار ہونے کی سعادت بخشی ہے۔ سرکردہ شرکاء میں پروفیسر حافظ ظفر اللہ شفیق، پروفیسر امجد علی شاکر، میاں محمد عارف ایڈووکیٹ، پروفیسر ڈاکٹر سعد صدیقی اور پروفیسر حافظ عبد الخالق ندیم سرفہرست ہیں۔ ٹاؤن شپ میں ظہیر چوک کے قریب واقع جمعیت علمائے اسلام کے دفتر میں سوسائٹی کا رابطہ آفس بنایا گیا ہے اور سات مئی کو وہیں سوسائٹی کے تحت پہلی تقریب منعقد کر کے اس کی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلویؒ اورنگزیب عالمگیرؒ کی وفات کے بعد مغل حکومت کے دورِ زوال کے آغاز میں ابھرنے والی ایک ایسی علمی و فکری اور روحانی شخصیت ہیں، جنہوں نے اس زوال کی رفتار، اس کے تنوع اور اس کے نتائج کو بروقت محسوس کر کے جنوبی ایشیا میں امت مسلمہ کے مستقبل کی علمی و فکری شیرازہ بندی کا بیڑا اٹھایا اور تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اس خطے کے مسلمانوں کو ایک ایسی علمی، فکری، دینی اور روحانی قیادت فراہم کر دی جو نہ صرف گزشتہ تین صدیوں سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی علمی، فکری اور سیاسی رہنمائی کر رہی ہے، بلکہ اہلِ فکر و نظر نے مستقبل میں بھی اس خدمت کے لیے اسی سے توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔
”شاہ ولی اللہ سوسائٹی“ کی تشکیلِ نو کے بعد اس کی پہلی مذکورہ نشست ”اسلام میں مزدوروں کے حقوق: فکرِ شاہ ولی اللہؒ کی روشنی میں“ کے عنوان سے منعقد ہوئی، جس کی صدارت کی کرسی پر مجھے بٹھا دیا گیا، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف نے اس موضوع پر تفصیلی مقالہ پیش کیا، جو مزدوروں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی تعلیمات اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تعبیرات و تشریحات پر مشتمل تھا۔ اس میں ڈاکٹر موصوف کے ذوق کے ساتھ ساتھ ان کی محنت بھی جھلک رہی تھی، جس کی سب دوستوں نے داد دی۔ اس مقالے کی روشنی میں پروفیسر ظفر اللہ شفیق، پروفیسر امجد علی شاکر، پروفیسر ڈاکٹر سعد صدیقی، میاں محمد عارف ایڈووکیٹ اور ظہیر الدین بابر ایڈووکیٹ نے اظہارِ خیال کیا، جبکہ پروفیسر حافظ عبد الخالق ندیم نے نقابت کے فرائض سرانجام دیے۔ کم و بیش دو گھنٹے کی یہ نشست بہت پرلطف رہی۔
راقم الحروف نے اپنی صدارتی گفتگو میں سب سے پہلے اس تاثر کا اظہار کیا کہ کافی عرصے کے بعد کسی اہم علمی و فکری موضوع پر اہلِ علم کے مربوط خیالات سننے کا موقع ملا ہے۔ راقم الحروف نے اپنی گفتگو کو ”شاہ ولی اللہ سوسائٹی“ کے احیاء اور اس کی سرگرمیوں کے ازسرنو آغاز کی اہمیت و ضرورت تک مرکوز رکھا اور شرکائے محفل سے گزارش کی کہ جس کام کو وہ شروع کرنا چاہ رہے ہیں، آج کا دور خود اس کی ضرورت کا اظہار کر رہا ہے اور اس کی زندہ شہادت کے طور پر میں نے دو واقعات دوستوں کو سنائے۔
ایک اب سے کم و بیش ربع صدی قبل ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں امریکہ کی ایک نومسلم صاحبِ علم خاتون ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن تشریف لائیں، جو آج کل شکاگو یونیورسٹی میں اسلامی علوم پر کام کر رہی ہیں۔ محترمہ موصوفہ فلسفے کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں، انہوں نے قبولِ اسلام کے بعد اسلامی شخصیات میں سے اپنی رہنمائی اور سٹڈی کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا انتخاب کیا اور انہی کے علوم و افکار پر ڈاکٹریٹ کی۔
انہوں نے سان ڈیاگو یونیورسٹی میں اسی حوالے سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہیں ”شاہ ولی اللہ چیئر“ قائم کی اور حضرت شاہ صاحبؒ کے علوم و افکار کی خدمت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ انہوں نے شاہ صاحبؒ کی معروف تصنیف ”حجۃ اللہ البالغۃ“ کا انگلش میں ترجمہ بھی کیا ہے، جو شائع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن اس مناسبت سے ہمارے گھر تشریف لائی تھیں کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ پر تحقیقی کام کے دوران انہوں نے میرے چچا حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کی تصنیفات سے استفادہ کیا تھا، جو اس موضوع کے متخصصین میں شمار ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ولی اللہ / اللہی حکمت و فلسفے پر ان کی متعدد تصانیف موجود ہیں۔ ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن نے ان سے ملاقات و گفتگو کے لیے گوجرانوالہ کا سفر کیا تھا اور ملاقات کا ذریعہ راقم الحروف کو بنایا تھا۔ میں نے اس موقع پر محترمہ موصوفہ سے ایک انٹرویو بھی کیا تھا، جو ماہنامہ ”الشریعہ“ میں انہی دنوں شائع ہوا تھا۔
محترمہ ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان اہلِ علم مغرب کی دنیا میں اسلام کی بات کرنا چاہتے ہیں تو انہیں شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و فلسفے سے واقفیت حاصل کرنا ہو گی اور ان کے لہجے اور اسلوب میں مغرب کو اسلام کی دعوت دینا ہو گی۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ برطانیہ کے معروف نومسلم دانش ور یحییٰ برٹ کے اعزاز میں ہم نے ایک بار لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیرِ اہتمام تقریب منعقد کی۔ وہ بی بی سی کے سابق ڈائریکٹر جنرل جان برٹ کے فرزند اور معروف انگریز خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ میں بھی اس تقریب میں شریک تھا۔ ہم نے ان سے دو سوال کیے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد مغربی دنیا میں نومسلم حضرات کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہمیں مغربی دنیا میں اسلام کی دعوت اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے کیا طریق کار اختیار کرنا چاہیے؟ انہوں نے ان دونوں موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی اور کہا کہ مغربی دنیا میں اسلام کی دعوت و تعلیم کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و فلسفے اور اسلوب و لہجے کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو عقل و حکمت کے ساتھ روحانیت و وجدانیات کے ماحول میں پیش کیا ہے اور مغرب کو آج اسی کی تلاش ہے۔
یحییٰ برٹ کا کہنا ہے کہ آج کی عالمی دنیا، بالخصوص مغرب کی دنیا کی فریکوئنسی حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و اسلوب کے ساتھ ہی سیٹ ہوتی ہے، اس لیے مسلمان علماء اور اہلِ دانش کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے۔
ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن اور یحییٰ برٹ کے حوالے سے یہ گزارشات پیش کرنے کے ساتھ میں نے عرض کیا کہ یہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے خلوص اور ان کے فکر و فلسفے کی عظمت ہے کہ تین صدیاں گزر جانے کے باوجود وہ آج بھی علمی و فکری دنیا میں زندہ ہیں اور دنیا ان کی تعلیمات و افکار سے رہنمائی حاصل کرنے کی اب بھی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ اس پس منظر میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ اور مولانا عبید اللہ انورؒ جیسی شخصیات کا پس منظر رکھنے والی ”شاہ ولی اللہ سوسائٹی“ کا احیاء اور اس کا دوبارہ متحرک ہونا بہت خوش آئند ہے۔
تقریب کے اختتام پر سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر محمود الحسن عارف نے اعلان کیا کہ سوسائٹی کی ماہانہ فکری نشست باقاعدگی کے ساتھ منعقد ہوا کرے گی اور اگلی نشست ۹ جون ہفتہ کو ہو گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔