ملک کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ اور نفاذِ شریعت

   
دسمبر ۱۹۹۱ء

اسلامک کونسل برائے ایشیا نے ۱۰، ۱۱ نومبر کو ڈریم لینڈ ہوٹل اسلام آباد میں نفاذِ شریعت سے متعلقہ مسائل و مشکلات پر غور و خوض کے لیے سرکردہ علماء کرام اور دانشوروں کا ایک مشاورتی اجتماع منعقد کیا جس میں شرکت کی دعوت راقم الحروف کو بھی موصول ہوئی۔ پہلے سے طے شدہ کچھ پروگراموں کے باعث اجتماع میں شرکت تو نہ ہو سکی البتہ زیر بحث امور کے بارے میں تحریری گزارشات کونسل کے سیکرٹری جنرل جناب خالد خواجہ کو مندرجہ ذیل عریضہ کے ذریعہ بھجوا دی گئیں:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بگرامی خدمت جناب خالد خواجہ صاحب

سیکرٹری جنرل اسلامک کونسل برائے ایشیا، اسلام آباد

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی؟

پاکستان میں نفاذِ شریعت کے عمل کے جائزے اور مستقبل کی حکمتِ عملی پر غور و خوض کے سلسلہ میں ۱۰، ۱۱ نومبر ۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے علماء کرام اور دانشوروں کے مشاورتی اجتماع میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا، یاد آوری و کرم فرمائی کا تہہ دل سے شکریہ! پہلے سے طے شدہ کچھ ضروری پروگراموں کے باعث اجتماع میں حاضری مشکل ہے، البتہ زیر بحث امور کے بارے میں چند گزارشات تحریری طور پر ارسال کر رہا ہوں، آئندہ کبھی موقع ہوا تو مشاورت میں براہ راست شرکت کی سعادت بھی حاصل کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(۱) موجودہ قانون سازی / دستور سازی میں پائی جانے والی خامیاں اور ان کا تدارک

ملک میں اب تک نافذ ہونے والے دساتیر میں اسلامائزیشن کے حوالہ سے جو پیشرفت ہوئی ہے اور نفاذِ اسلام کے حوالہ سے اس وقت تک جو قانون سازی ہوئی ہے، اس سارے عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بات پورے شرح صدر کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ’’قرارداد مقاصد‘‘ سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات تک جتنی اسلامی شقیں مختلف دساتیر میں شامل ہوئی ہیں، کسی بھی دستور ساز اسمبلی کا اندرونی ماحول اور داخلی جذبہ ان دفعات کا محرک نہیں بنا، بلکہ ہمیشہ خارجی دباؤ کی بنا پر ہی انہیں شاملِ دستور کیا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی دفعات کبھی بھی عملی، مؤثر اور ثمر آور دستوری دفعات کی حیثیت حاصل نہیں کر سکیں۔ یہی حال قانون سازی کے مختلف مراحل کا بھی ہے۔

اس لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے ملک میں قائم ہونے والی دستور ساز اور قانون ساز اسمبلیوں کا اسلامائزیشن کے عملی تقاضوں کے پس منظر میں تجزیہ کرنا ہو گا۔ کیونکہ اسلامائزیشن کے لیے سازگار داخلی ماحول اور اندرونی جذبہ سے سرشار قانون ساز اسمبلی جب تک وجود میں نہیں آتی، خارجی دباؤ کے تحت کسی اسمبلی کی منظور کردہ کوئی بظاہر اچھی سے اچھی دفعہ بھی ملک میں نفاذِ اسلام کی محکم بنیاد نہیں بن سکتی۔

اس پس منظر میں اب تک تشکیل پانے والی دستور ساز اور قانون ساز اسمبلیوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں تین بنیادی خامیاں نظر آتی ہیں، جن کے باعث ایک صحیح اسلامی اسمبلی کا کردار حاصل کرنے میں ان میں سے کسی کو بھی کامیابی نہیں ہوئی۔

(۱) اسمبلی کی رکنیت کے لیے تعلیمی اہلیت کا کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔ اور پارلیمنٹ میں پہنچنے والے اس شخص کے لیے، جسے دستور میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے، جو قانون سازی کے اختیار سے بہرہ ور ہے، اور جس کے بارے میں یہ تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ شرعی قوانین میں اس کے لیے اجتہاد کا حق تسلیم کیا جائے، اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اردو عبارت لکھ پڑھ سکتا ہو، قرآن کریم سادہ ترجمہ کے ساتھ اس نے پڑھ رکھا ہو، اور قانون سازی کے مفہوم اور بنیادی تقاضوں سے اسے آگاہی حاصل ہو۔ یہ انتہائی ستم ظریفی اور قانون سازی کے عمل کے ساتھ کھلا مذاق ہے کہ اس اسمبلی کے عملہ میں ایک معمول چپراسی کے لیے تو تعلیم اور تجربہ کا ایک معیار مقرر ہے لیکن خود اسمبلی کے رکن کے لیے کسی سطح کی کوئی تعلیم ضروری نہیں ہے۔

(۲) موجودہ طریقِ انتخاب انتہائی غلط ہے اور اس کے ذریعہ کسی نظریاتی، باشعور اور مطلوبہ صلاحیتوں سے بہرہ ور شخص کے لیے اسمبلی تک پہنچنا سرے سے ناممکن ہے۔ برادری، دھڑے، دولت، اسلحہ، غنڈہ گردی اور دھاندلی کے ذریعے جو لوگ پارلیمنٹ تک پہنچ پاتے ہیں یا پہنچ سکتے ہیں ان سے بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ اور ہارس ٹریڈنگ کے سوا کسی اور عمل کی توقع ہی فضول ہے۔

(۳) اسلامائزیشن کے لیے دستور سازی اور قانون سازی کا اب تک کا عمل مسلسل تضادات کا شکار ہے اور ان تضادات پر پردہ ڈالنے کے لیے ہم نے منافقت کا نقاب اوڑھ رکھا ہے۔ ایک طرف ہم جمہوریت کے نام پر اس نوآبادیاتی نظام سے چمٹے ہوئے ہیں جو برطانوی استعمار سے ہمیں ورثہ میں ملا ہے۔ اس نظام کے عدالتی، قانونی، معاشرتی، معاشی اور انتظامی ڈھانچوں میں ہم سرِمو عملی تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور برطانوی استعمار کے چھوڑے ہوئے نظام پر شریعت کی خوشنما چادر ڈال کر ہم نفاذِ اسلام کا ثواب اور اعزاز بھی حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ اس دو عملی اور تضاد نے ہمیں فکری اور اخلاقی طور پر تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ آخر ہمارے پاس اس تضاد کا کیا جواز ہے کہ

  • اللہ تعالیٰ کی بلا شرکت غیرے حکمرانی کی ضمانت دینے والی قراردادِ مقاصد بھی آئین کا حصہ ہے، اور اللہ تعالیٰ سے جنگ کے مترادف سود کو بھی اسی آئین نے تحفظ دیا ہوا ہے۔
  • دستور میں یہ ضمانت دی گئی ہے کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں بنا سکے گی، لیکن اسی دستور میں عائلی قوانین جیسے قرآن و سنت کے صریح منافی قوانین کو بھی تحفظ حاصل ہے۔
  • پارلیمنٹ ایک بل منظور کرتی ہے کہ قرآن و سنت ملک کا سپریم لاء ہوں گے، لیکن اس کے ساتھ ملک کے سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچے کو اس سے مستثنیٰ کرنے کی شرط بھی عائد کر دیتی ہے۔

یہ اور ان جیسے دیگر تضادات اسلامائزیشن کے حوالہ سے دستور سازی اور قانون سازی کے عمل میں ہمارے اجتماعی تشخص اور علامت کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اور ان تضادات سے گلو خلاصی کرائے بغیر نفاذِ اسلام کی کوئی بھی کوشش خود فریبی کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ اس لیے ہمارے خیال میں یہ ضروری ہے کہ

  1. دینی حلقوں کا ایک مشترکہ بورڈ پورے دستور کا تفصیلی مطالعہ کر کے تضادات کی نشاندہی کرے۔ اور دستور کو مکمل اسلامی حیثیت دلوانے کے لیے واضح، دوٹوک اور مکمل آئینی ترامیم مرتب کر کے ان کی منظوری کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کی جائے۔
  2. موجودہ طریق انتخاب کی تبدیلی کی منظم جدوجہد کی جائے اور ارکان اسمبلی کی اہلیت کا تعلیمی و اخلاقی معیار مقرر کرنے کے ساتھ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا جائے اور اس کے لیے جدوجہد کی جائے۔

(۲) قانون سازی کے لیے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کا مؤثر استعمال

اس ضمن میں گزارش یہ ہے کہ یہ دونوں ادارے اس حد تک ضرور مفید ہیں کہ وہ کسی قانون کی غیر اسلامی حیثیت کا تعین کر دیں، یا کونسل کے فورم سے مطلوبہ اسلامی قوانین کے مسودات مرتب کر کے پیش کر دیے جائیں۔ اس کے علاوہ موجودہ حالات میں ان اداروں کی افادیت کا اور کوئی عملی پہلو نہیں ہے۔ اور اپنے دائرے میں یہ دونوں ادارے اب تک خاصا مؤثر کام کر چکے ہیں، اصل مرحلہ ان کے فیصلوں کو دائرۂ عمل میں لانے کا ہے جس میں ان کا کردار ایک خاموش اور بے بس تماشائی کا رہ جاتا ہے۔

(۳) علماء اور دینی اداروں کے درمیان مؤثر رابطے کی ضرورت اور طریق کار

اسلامائزیشن کے عمل کی اصل اور بنیادی ضرورت یہی ہے لیکن بدقسمتی سے اسی ضرورت کا احساس دینی حلقوں میں سب سے کم پایا جاتا ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے جو ادارے دینی و علمی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں ان کی ترجیحات کی فہرست میں نفاذِ شریعت کے عمل کو آخری نمبر کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے۔ اور جو دینی جماعتیں نفاذِ اسلام کے نعرہ پر قومی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی بجائے مسابقت کے جذبہ کا شکار ہیں۔ اور اس مسابقت میں وہ اس حد تک آگے بڑھ چکی ہیں کہ اب دینی سیاسی جماعتوں کا مصرف مختلف سیاسی اتحادوں کے سٹیجوں کو رونق بخشنے اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں کسی نہ کسی کے حق میں استعمال ہونے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

ان حالات میں ہماری تجویز یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے دینی مدارس کے جو وفاق کام کر رہے ہیں، وہ انتخابی سیاست سے الگ رہتے ہوئے نفاذِ اسلام کے فکری کام اور اس کے لیے رائے عامہ کی ہمواری کو اپنے مقاصد میں شامل کریں اور تمام وفاقوں کا ایک مشترکہ بورڈ قائم کر کے اس کے ذریعے اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔

(۴) موجودہ سیاسی نظام / ریاستی ڈھانچے کو نفاذِ اسلام کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟

ہمارے خیال میں ملک کے دینی حلقوں نے اسی خوش فہمی میں چوالیس سال کا عرصہ ضائع کر دیا کہ موجودہ ریاستی ڈھانچے سے اسلامائزیشن کا کوئی کام لیا جا سکتا ہے، ہم فریب خوردگی کے اس دائرہ سے جتنا جلدی نکل سکیں بہتر ہو گا۔

والسلام
ابوعمار زاہد الراشدی
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
   
2016ء سے
Flag Counter