روزنامہ خبریں لاہور نے ۴ جنوری ۱۹۹۸ء کو اپنے ایک ادارتی نوٹ میں بتایا ہے کہ
’’اخباری رپورٹ کے مطابق گورنمنٹ کالج لاہور کی بعض درسی کتابوں میں سے اسلام اور اس حوالے سے احادیث کو خارج کر دیا گیا ہے، قرآن و سنت کا مذاق اڑایا گیا ہے، اور برہنگی کی ترغیب دی گئی ہے، شادی کی بجائے مرد اور عورت کو ’’تین سالہ معاہدہ‘‘ کرنے کو کہا گیا ہے جس سے علیحدگی کے لیے طلاق کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘
یہ سب مغرب پرستی کا کرشمہ ہے، اور بیرونی سرمایہ پر چلنے والی بے شمار این جی اوز یہاں یہی ذہن پیدا کرنے میں مصروف ہیں کہ مذہب اور خاندان کی بندھنیں اب (نعوذ باللہ) فضول ہو چکی ہیں اس لیے ان سے جان چھڑائی جائے۔
وفاقی سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر صفدر محمود کی طرف سے ۱۰ جنوری ۱۹۹۸ء کے جنگ لاہور میں ایک اشتہار چھپا ہے جس میں ’’نئی قومی تعلیمی پالیسی‘‘ کے لیے مختلف حلقوں سے تجاویز مانگی گئی ہیں۔ ہم ڈاکٹر صاحب موصوف سے یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی کی تشکیل کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تعلیم گاہوں میں الحاد اور مغرب پرستی کی کمین گاہوں کو بھی تلاش کریں، اور ان فکری بارودی سرنگوں کو صاف کرنے کی فکر کریں جو برطانوی استعمار یہاں سے جاتے وقت قدم قدم پر بچھا گیا تھا۔ کیونکہ الحاد کی ان کمین گاہوں اور فکری بارودی سرنگوں کی موجودگی میں وہ جو تعلیمی پالیسی بھی قوم کو دیں گے وہ کسی نہ کسی موڑ پر اچانک بھک سے اڑ جائے گی۔