یادش بخیر مولانا فضل الرحمان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ
’’اصل مسئلہ عورت کی سربراہی کا نہیں ہے بلکہ موجودہ جمہوری نظام ایک غلاظت ہے جس پر خودبخود مکھی آکر بیٹھے گی۔ اگر تم کہو کہ یہ مکھی غلاظت پر کیوں بیٹھتی ہے تو مکھی نے غلاظت پر بیٹھنا ہے چاہے وہ کسی شکل میں ہو۔‘‘ (روزنامہ جسارت کراچی ۔ ۹ اپریل ۱۹۸۹ء)
جہاں تک عورت کی سربراہی کا مسئلہ ہے اس مسئلہ کی اہمیت کو کم کرنا اور اس سلسلہ میں تمام علماء کرام کی مشترکہ جدوجہد کو سبوتاژ کرنا مولانا فضل الرحمان کا مشن بن چکا ہے۔ اور اس مشن کے مقاصد بیگم بے نظیر بھٹو کے ساتھ مولانا موصوف کے تازہ ترین مذاکرات اور آٹھویں ترمیم کے خاتمہ پر سمجھوتہ کے بعد اب کچھ زیادہ مخفی نہیں رہے۔ لیکن جس ’’جمہوری نظام‘‘ کو غلاظت قرار دے کر انہوں نے اس پر مکھی کے بیٹھنے کو ناگزیر قرار دیا ہے ہم بڑے ادب کے ساتھ گزارش کریں گے کہ اس جمہوری نظام ہی کی خاطر مولانا موصوف گزشتہ دس سال سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر مولانا فضل الرحمان کی جدوجہد کو سامنے رکھا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ اسی جمہوری نظام کی پرستش کے شوق میں انہوں نے ہر دینی و قومی تقاضے کو نظر انداز کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کو بروقت آگاہ کر دیا گیا تھا کہ جس جمہوری عمل کو وہ اپنی معراج قرار دے رہے ہیں اس کے نتیجہ میں اس ملک پر خاتون کی حکمرانی مسلط ہوگی مگر انہوں نے اسے جمہوری عمل کے لیے ناگزیر قرار دے کر اس سے آنکھیں بند کیے رکھیں۔ اس لیے آج انہیں عورت کی حکمرانی کا باعث یہی جمہوری نظام نظر آرہا ہے تو اس میں خود ان کی اپنی جدوجہد کا بھی حصہ ہے اور ہم اس موقع پر اس کے سوا اور کیا عرض کر سکتے ہیں کہ