سیرین ایئرلائنز سے سفر کا پہلا تجربہ تھا۔ یہ ان سستی ایئرلائنوں میں سے ہے جو میرے جیسے سفید پوش مسافروں کی کئی کمزوریاں ڈھانپ لیتی ہیں۔ چھ جون کو صبح پانچ بجے کراچی سے سوار ہوا اور دہران، دمشق اور میونخ کے ہوائی اڈوں پر دو دو تین تین گھنٹے سٹاپ کرتا ہوا شام سات بجے (پاکستانی گیارہ بجے) ہیتھرو ایئر پورٹ سے امیگریشن کے مراحل سے گزر کر لندن میں داخل ہو گیا۔ گکھڑ سے تعلق رکھنے والے عابد رانا میرے اولین میزبان تھے جو ایئر پورٹ سے دو تین میل کے فاصلے پر ہیسٹن کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے مجھے ایئر پورٹ سے وصول کیا، گھر پہنچے، عصر کی نماز ادا کی ، کھانا کھایا اور میں نے عابد رانا سے کہا کہ اٹھارہ گھنٹے کے مسلسل سفر کے باعث سخت تھکاوٹ ہے، اس لیے کل کا دن صرف آرام کروں گا اور وہ کسی دوست کو ابھی میری آمد کی اطلاع نہ دیں۔
مگر مغرب اور عشاء کی نماز تو بہرحال پڑھنا تھی جو ان دنوں لندن میں سوا نو بجے اور پونے گیارہ بجے کے لگ بھگ ہو رہی ہیں۔ مغرب کی نماز پڑھنے کے لیے ساؤتھ آل براڈوے پر ابوبکر اسلامک سنٹر میں گئے تو پرانے دوست محمد اشرف خان اور عبد الستار شاہد سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے خبر دی کہ لکھنؤ سے ندوۃ العلماء کے استاد حدیث مولانا سید سلمان حسن صبح چھ بجے ہیتھرو ایئر پورٹ پر آ رہے ہیں اور ساتھ ہی ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا یہ پیغام سنا دیا جو میرے لیے تھا کہ وہ خود صبح ایک ہفتہ کے لیے مصر جا رہے ہیں اس لیے مولانا سید سلمان حسن کے ساتھ دو چار دن مجھے رہنا ہو گا۔ منصوری صاحب کا یہ پیغام نہ ہوتا تو بھی میرے لیے سلمان صاحب کی آمد کی خبر بے حد خوشی کا باعث تھی اور میں ایک عرصہ سے ان کی ملاقات کا خواہشمند تھا جس کا کوئی موقع ہی نہیں بن رہا تھا، اس لیے آرام و آرام کا سارا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا اور میں صبح چھ بجے مولانا سید سلمان حسن ندوی کو خوش آمدید کہنے کے لیے پھر ہیتھرو ایئرپورٹ پر تھا۔
مولانا سید سلمان حسن ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سربراہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے نواسے لگتے ہیں اور ندوہ میں ان کے دستِ راست ہیں۔ حدیثِ نبویؐ کے متخصص استاد ہیں، محقق عالم ہیں، متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، اور سب سے بڑھ کر ندوہ کی مخصوص علمی اور متوازن سوچ اور فکر کے ترجمان ہیں، اردو اور عربی تو ان کے گھر کی زبان ہے اور انگلش پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ ان سے غائبانہ تعارف ایک عرصہ سے تھا، خط و کتابت بھی رہی ہے، مگر ملاقات کا کوئی موقع پیدا نہیں ہو رہا تھا۔ اب جو ملاقات ہوئی تو فکری ہم آہنگی کے ساتھ مزاج کی ہم آہنگی کے احساس نے مزہ دو آتشہ کر دیا۔ انہیں لینے کے لیے جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم کے پرنسپل مولانا رضا الحق سیاکھوی اپنے ایک رفیق مولانا محمد لقمان کے ہمراہ آئے ہوئے تھے، جبکہ سلمان صاحب کے ساتھ ان کے رفیقِ سفر ندوہ کے ایک اور استاد مولانا نذیر احمد تھے۔ ان کے ساتھ میرا پروگرام بھی نوٹنگھم جانے کا بن گیا اور ہم ایک دوسرے کا حال پوچھتے اور گپ شپ کرتے ہوئے دو گھنٹے میں جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم جا پہنچے۔
برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ملتِ اسلامیہ کو سنبھالا دینے اور مسلمانوں کے تشخص کو برقرار رکھنے نیز اسلامی علوم و روایات اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دارالعلوم دیوبند کے ساتھ جو تیسرا بڑا نام تاریخ کے ایک مستقل باب کا عنوان ہے وہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کا ہے جو محض ادارہ نہیں، بلکہ ایک علمی اور فکری تحریک تھی جس نے ایک طرف ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کے بہت بڑے ذخیرے کو اردو میں منتقل کر کے مسلمانوں کا تعلق اپنے شاندار ماضی کے ساتھ قائم رکھا، اور دوسری طرف عربی ادب و زبان کے اعلیٰ معیار کو سنبھالتے ہوئے برصغیر کے دینی حلقوں کا رشتہ عرب دنیا کی علمی تحریکات کے ساتھ جوڑے رکھا۔ مولانا سید محمد علی مونگیریؒ، مولانا شبلی نعمانیؒ، ڈاکٹر عبد العلی حسنیؒ اور مولانا سید سلمان ندویؒ کی سربراہی میں اس علمی و فکری تحریک نے عروج حاصل کیا، اور ان کے بعد مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے علم و فکر اور جہد و عمل نے اسے برصغیر کے دائرے سے نکال کر عالمی تحریک کی شکل دے دی۔ ان کے قریبی رفقاء میں مولانا سید محمد رابع ندوی اور مولانا سید سلمان حسن ان کے دست و بازو سمجھے جاتے ہیں اور ندوہ کی تحریک کو آگے بڑھانے میں شب و روز مصروفِ عمل ہیں۔
ندوۃ العلماء لکھنؤ کے موجودہ حالات کے بارے میں سلمان صاحب نے بتایا کہ اس وقت اس کے مختلف شعبوں میں بائیس سو کے لگ بھگ طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو ندوہ میں مقیم ہیں اور ان کے اخراجات ندوہ کے ذمہ ہیں۔ ندوہ کے نصاب کی بنیاد درسِ نظامی پر ہے لیکن اس میں عربی ادب و زبان کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، اور ماضی کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ملتِ اسلامیہ کی موجودہ عالمی صورتحال اور علمی و فکری تحریکات سے بھی طلبہ کو روشناس کرایا جاتا ہے۔ انگلش بھی نصاب میں شامل ہے اور دعوت و ارشاد، فقہ اور اصولِ دین میں تخصص کے شعبے قائم ہیں۔ ندوہ کی آخری سند کو ملک کی دیگر یونیورسٹیوں میں ایم اے کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے اور جامعہ الازہر اور مدینہ یونیورسٹی بھی اس سند کو تسلیم کرتی ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں ندوہ کی بہت سی شاخیں اور اس سے منسلک ادارے کام کر رہے ہیں، جن سے استفادہ کرنے والوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ کیا جائے تو گراف تیس چالیس ہزار کے درمیان تک جا پہنچتا ہے۔
مولانا سید سلمان حسن ندوہ کے کاموں میں شریک ہونے کے علاوہ ’’جمعیت الشباب الاسلامی‘‘ کے نام سے نوجوانوں میں ایک الگ تحریک بھی قائم کیے ہوئے ہیں جس کے تحت ’’جامعہ سید احمد شہید‘‘ کے عنوان سے ایک بڑا تعلیمی ادارہ کام کا آغاز کر چکا ہے اور مختلف سکول خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جن میں مروجہ سرکاری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم اور ٹیکنیکل تعلیم کو بھی شامل کیا گیا ہے، طلبہ الیکٹریشن، ویلڈنگ اور کمپیوٹنگ کے شعبوں میں تربیت حاصل کرتے ہیں اور اسی نظم کے تحت انہوں نے ندوۃ العلماء میں بھی ’’کمپیوٹر سنٹر‘‘ قائم کیا ہوا ہے جہاں ندوہ کے طلبہ کمپیوٹنگ کی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف علاقوں میں وقتاً فوقتاً نوجوانوں کے کیمپ لگاتے ہیں جو عموماً چوبیس گھنٹے کے ہوتے ہیں۔ ان کیمپوں میں قرآن و حدیث کے درس اور دینی ضروریات پر مشتمل لیکچروں کے ساتھ ساتھ کھیل اور تفریح کے پروگرام بھی ہوتے ہیں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان میں شریک ہوتی ہے۔
سلمان صاحب کا جو ذوق مجھے سب سے زیادہ بھلا لگا وہ مختلف مکاتبِ فکر کی شخصیات اور اداروں کے ساتھ روابط استوار رکھنے اور ان کے فکر و تجربہ سے استفادہ کرنے کا ہے۔ چنانچہ جب ہم نوٹنگھم پہنچے تو انہوں نے سب سے پہلے علاقہ میں مختلف مکاتبِ فکر کے دینی اداروں کی فہرست طلب کی اور وہاں جانے کے پروگرام کی فرمائش کی، جو ترتیب دے دیا گیا۔ اور اب تک دو روز میں جن اداروں میں ہم جا چکے ہیں ان میں بریلوی مکتبِ فکر کا جامعۃ الکرم اور مسلم ہینڈز، اور دیوبندی مکتبِ فکر کا جامعہ اسلامیہ شامل ہیں، جبکہ آج برمنگھم میں جمعیت اہلحدیث کے مرکز میں جانے کا پروگرام ہے اور اس کے بعد جماعتِ اسلامی کی اسلامک فاؤنڈیشن میں جانے کا ارادہ ہے۔
جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم تو سلمان صاحب کا اپنا گھر ہے جو ندوہ کی طرز پر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی سرپرستی میں مولانا سید سلمان حسن کی مشاورت کے ساتھ تعلیمی کام کا آغاز کر چکا ہے اور اسی رخ پر آگے بڑھنے کا عزم رکھتا ہے۔ خدا کرے کہ علم و فکر اور توازن و اعتدال کا ذوق ہر مسلمان کا ذوق بنے کیونکہ ملتِ اسلامیہ کے بہتر مستقبل اور عظمت رفتہ کی واپسی کی شاہراہ کا سنگِ میل یہی ہے۔