متنازعہ اوقاف قوانین کا مسئلہ ابھی چل رہا ہے کہ گھریلو تشدد کی روک تھام کے نئے بل نے ملک بھر کے دینی اور تہذیبی حلقوں کو ایک نئی پریشانی سے دوچار کر دیا ہے اور ان دونوں حوالوں سے بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں دو اہم محافل میں شرکت کا موقع ملا جن کی روشنی میں اس بارے میں تازہ ترین صورتحال قارئین کے علم میں لانا چاہتا ہوں۔
۱۸ جولائی کو اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام سیمینار تھا جس میں سینٹ آف پاکستان میں ان موضوعات پر اہم کردار ادا کرنے والے سینیٹر مشتاق احمد اور دیگر سرکردہ حضرات نے ایوان کی صورتحال پر شرکاء کو بریف کیا۔ جبکہ ۱۹ جولائی کو لاہور میں ملی مجلس شرعی پاکستان کا ایک اہم اجلاس راقم الحروف کی صدارت میں ہوا جس میں مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا عبد المالک خان، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا مفتی شاہد عبید، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر علی اکبر الازہری، مفتی محمد عمران رضا طحاوی، مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی، حافظ غضنفر عزیز، مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر، مولانا حافظ نعمان حامد، اور دیگر سرکردہ حضرات نے شرکت کی اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد امین نے شرکاء اجلاس کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ ان اجلاسوں کی تفصیلات میں جائے بغیر ان میں زیر بحث آنے والے چند امور اور نکات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
متنازعہ اوقاف قوانین کا معاملہ جوں کا توں ہے، اس پر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور سینیٹر مشتاق احمد کی پیش کردہ ترامیم پر غور کے باضابطہ وعدہ کے باوجود کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی اور غالباً اس بات کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ دینی حلقوں کے اضطراب و احتجاج میں کچھ نرمی آئے تو ان قوانین کو جوں کا توں رکھتے ہوئے ان پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع کر دیا جائے۔
نئے اوقاف قوانین کے بارے میں ملک بھر کے تمام دینی حلقوں کا یہ متفقہ موقف مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ یہ قوانین صریح شرعی احکام کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمہ انسانی حقوق حتٰی کہ برطانوی راج کے دور میں مسلمانوں کو حاصل مذہبی آزادی سے بھی متصادم ہیں، اور دستور پاکستان کی بنیادی ہدایات کے خلاف ہیں۔
گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل گزشتہ سال قومی اسمبلی میں منظور ہوا تھا اور اس سال اسے سینٹ آف پاکستان میں پیش کر کے منظور کرا لیا گیا جس کے بعد صدر پاکستان کے دستخط ہو جانے پر اسے نافذ العمل ہو جانا تھا مگر سینٹ میں اس مسودہ قانون میں چند رسمی ترامیم سامنے آنے کی وجہ سے اسے دوبارہ قومی اسمبلی کو بھیج دیا گیا ہے جہاں سے اس کی منظوری کے بعد یہ باضابطہ قانون کی صورت اختیار کر لے گا۔ اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی اور دیگر حضرات کی طرف سے اسے اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کرنے کی بات بھی سامنے آئی مگر ابھی تک اسے اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد نہیں کیا گیا اور لگتا ہے کہ گومگو کی فضا میں اسے اسی صورت میں قومی اسمبلی سے منظور کرا لینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
اس بل کے بارے میں بھی دینی حلقوں کا متفقہ موقف یہ ہے کہ یہ شرعی احکام کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان اور مسلمہ انسانی حقوق کے بھی منافی ہے اور اس کے عملی نفاذ کی صورت میں ہمارے اس خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر سکتا ہے جس کی بنیاد اسلامی احکام و قوانین اور مسلم تہذیبی روایات پر ہے۔
یہ بات بھی اس دوران سامنے آئی کہ ہمارے ہاں بین الاقوامی اداروں کے مطالبات پر قانون سازی کا رجحان پختہ ہوتا جا رہا ہے جیسا کہ حدود آرڈیننس، اوقاف قوانین، گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل اور دیگر متعدد قوانین کی منظوری کی صورت میں اس کا مظاہرہ ہو چکا ہے۔ بلکہ یہاں تک سننے میں آ رہا ہے کہ قوانین کی ساخت اور تشکیل کے ساتھ ساتھ ان کے مسودات بھی باہر سے آئے ہیں اور این جی اوز کے ذریعے جوں کے توں منظور کروائے جا رہے ہیں جو کہ دستور کی بالادستی کے ساتھ ساتھ قومی خودمختاری کے بھی منافی ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد کا یہ کہنا بھی سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے کہ انہیں ان معاملات میں سینیٹر مولانا عطاء الرحمٰن، سینیٹر پروفیسر ساجد میر اور دینی جماعتوں کے دیگر ارکان سینٹ کا تعاون تو حاصل رہتا ہے مگر تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں تمام تر باہمی سیاسی محاذ آرائی کے باوجود ان درآمدی قوانین کو اتفاق رائے سے منظور کرتی جا رہی ہیں۔
دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری کو درپیش اس سنگین چیلنج پر سنجیدہ حلقوں میں سخت تشویش و اضطراب پایا جاتا ہے بلکہ بعض دوستوں نے تو اجلاسوں میں اسے غلامی کی ایک صورت قرار دیتے ہوئے نئی تحریک آزادی کی ضرورت کا بھی اظہار کیا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا نوٹس لینا بہرحال عدالتِ عظمٰی کی ذمہ داری ہے کیونکہ دستور پاکستان کا تحفظ اور پاسداری سب سے زیادہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فرائض کا حصہ ہے۔
اجلاس کے شرکاء کی رائے ہے کہ اول تو سپریم کورٹ کو خود اس کا نوٹس لینا چاہیے کہ پارلیمنٹ میں قوانین کی منظوری دستور کی بجائے بین الاقوامی اداروں کے مطالبات کے حوالہ سے کیوں ہو رہی ہے؟ اور اس کے لیے پارلیمانی قواعد و ضوابط اور روایات کو کیوں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ اور اگر عدالت عظمٰی خود نوٹس نہیں لیتی تو اس کے سامنے باضابطہ طور پر یہ صورتحال رِٹ کی صورت میں لانی چاہیے تاکہ وطن عزیز کو بیرونی دخل اندازی کے اس مخمصہ سے نجات دلائی جا سکے۔
اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ملی مجلس شرعی پاکستان نے عوامی بیداری اور تمام دینی و سیاسی حلقوں سے رابطہ کر کے مشترکہ عوامی جدوجہد کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اس سلسلہ میں وسیع تر مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے لیے ۶/اگست کو خاندانی نظام کے تحفظ کے دن کے طور پر منانے کا پروگرام بنایا گیا ہے جس کے تحت اس روز تمام مکاتب فکر کے علماء کرام خطباتِ جمعۃ المبارک میں اسلامی خاندانی نظام کی ضرورت و افادیت پر روشنی ڈالیں گے اور مختلف اجلاسوں اور ابلاغ عامہ کے دیگر ذرائع کی وساطت سے عوام کو متنازعہ اوقاف قوانین اور گھریلو تشدد کے بل کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔