خان عبد الولی خان ۹۰ برس کے لگ بھگ عمر پا کر پشاور میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی پاکستان کی قومی سیاست اور پختونوں کی قومیتی سیاست کا ایک باب مکمل ہوگیا۔ وہ پاکستان اور صوبہ سرحد کی سیاست میں نصف صدی سے زیادہ عرصے تک متحرک رہے اور مختلف تحریکوں میں انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا۔ ان کے والد محترم خان عبد الغفار خان مرحوم کو جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل تھا اور وہ اس خطے کی تحریک آزادی کے سرکردہ راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ خان عبد الغفار خان کی سیاست کا آغاز شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی اس تحریک سے ہوا جسے دنیا ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے اور جس کے نتیجے میں شیخ الہندؒ کو مالٹا کے جزیرے میں ساڑھے تین برس سے زیادہ عرصے تک بڑھاپے کے ایام گزارنا پڑے۔
یہ برصغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش کی برطانوی استعمار سے آزادی کی جدوجہد تھی جو مسلح بغاوت کی صورت میں منظم کی جا رہی تھی۔ اس میں جاپان اور جرمنی کے ساتھ روابط قائم کیے گئے تھے جو اس وقت (پہلی عالمی جنگ میں) برطانیہ کے حریف تھے اور ترکی کی خلافت عثمانیہ کو آمادہ کیا گیا تھا کہ اگر متحدہ ہندوستان کے اندر سے برطانوی تسلط کے خلاف مسلح بغاوت ہو تو وہ مجاہدین آزادی کی مدد کرے گی۔ عثمانی وزیر جنگ انور پاشا اور حجاز مقدس میں عثمانی خلافت کے نمائندے غالب پاشا کے ساتھ معاملات حتمی طور پر طے پا رہے تھے کہ خلافت عثمانیہ کے خلاف گورنر مکہ شریف حسین کی بغاوت اور اس کے ساتھ ہی ریشمی رومالوں کی صورت میں تحریر کیے گئے بغاوت کے منصوبے کے بعض حصوں کے انکشاف نے سارا معاملہ چوپٹ کر دیا۔ مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور ان کے رفقاء کو حجاز مقدس سے گرفتار کر کے مالٹا کے جزیرے میں محبوس کر دیا گیا۔ ادھر متحدہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں گرفتاریاں شروع ہوئیں اور تحریک کے خفیہ مراکز پولیس ایکشن کے زد میں آگئے۔ اس تحریک کے مراکز میں ایک ’’اتمان زئی‘‘ بھی تھا جو خان عبد الولی خان کی جائے پیدائش ہے۔ ان کے والد خان عبد الغفار خان اس مرکز کے ذمہ دار تھے اور نہ صرف یہ بلکہ وہ قبائلی مجاہدین کے ساتھ حضرت شیخ الہندؒ کے روابط کا ایک اہم ذریعہ بھی تھے۔
یہ برطانوی استعمار کے خلاف مسلح تحریکات کا آخری باب تھا جس کی ناکامی کے بعد تحریک آزادی کا رخ مکمل طور پر پر امن جدوجہد کی طرف مڑ گیا اور شیخ الہندؒ نے بھی مالٹا کی قید سے رہائی کے بعد ہندوستان واپس آنے پر اسی پر صاد کیا۔ اس پس منظر میں ’’جمعیۃ علمائے ہند‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے ۱۹۲۶ء میں کامل آزادی کے نعرے کے ساتھ برطانوی استعمار کے خلاف پر امن سیاسی جدوجہد کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ۱۹۳۰ء میں ’’آل انڈیا نیشنل کانگریس‘‘ نے آزادیٔ کامل کو اپنی سیاسی جدوجہد کی حقیقی منزل قرار دیا۔ خان عبد الغفار خان مرحوم کو شیخ الہندؒ کے ایک رفیق کار کی حیثیت سے جمعیۃ علمائے ہند کے ایک بزرگ راہنما کی حیثیت حاصل تھی۔ پھر جب وہ مہاتما گاندھی کی قیادت میں آل انڈیا نیشنل کانگریس میں شریک ہوئے تو گاندھی جی کے ’’فلسفہ عدم تشدد‘‘ اور آزادی کے لیے پر امن سیاسی جدوجہد میں آگے بڑھتے چلے گئے حتیٰ کہ ’’سرحدی گاندھی‘‘ کے لقب سے پکارے جانے لگے۔ صوبہ سرحد کے عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور انہیں آزادی کی جدوجہد کے لیے تیار کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی میدان میں بھی خان عبد الغفار خان کی ’’خدائی خدمت گار تحریک‘‘ کا ایک بڑا کردار ہے۔ صوبہ سرحد کے عوام کے سیاسی و سماجی ارتقاء کی تاریخ میں ان کی خدمات کو ایک مستقل باب کی حیثیت حاصل ہے۔
اس قدرے تفصیلی پس منظر کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ خان عبد الولی خان مرحوم نے اس ماحول میں شعور کی آنکھ کھولی تھی اور ان کی نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط جدوجہد پر اس ماحول اور پس منظر کی چھاپ ہر مرحلے میں نمایاں نظر آتی ہے۔ خان عبد الولی خان اپنے والد خان عبد الغفار خان مرحوم کی طرح کانگریسی تھے اور اس کے اظہار میں انہیں کبھی حجاب نہیں رہا تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ راوی ہیں کہ ۱۹۷۰ء کے عام الیکشن کے بعد جب شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو، اور جنرل یحییٰ خان کے درمیان سیاسی دھماچوکڑی کا آغاز ہوا تو قومی اسمبلی میں چھوٹی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے مل کر مفاہمت کے لیے کردارا دا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے جب ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ مولانا مفتی محمود اور خان عبد الولی خان کے مذاکرات ہو رہے تھے تو انہوں نے شیخ مجیب الرحمان سے یہ تاریخی جملے کہے کہ
’’شیخ صاحب ! آپ مسلم لیگی ہیں اور ہم کانگریسی ہیں۔ کل آپ برصغیر کی تقسیم کی بات کر رہے تھے تو ہم نے اس سے اختلاف کیا تھا کہ ایسا نہ کرو کہ اس سے مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔ اور آج جب پاکستان کو تقسیم کرنے کی بات ہو رہی ہے تو ہم آپ سے یہ کہنے آئے ہیں کہ پاکستان کو نہ ٹوٹنے دیں اس سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا‘‘۔
خان عبد الولی خان مرحوم کو میں نے پہلی بار اس وقت دیکھا جب وہ ۱۹۷۰ء کے الیکشن کے بعد جمعیۃ علمائے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کے سیاسی اتحاد کے دور میں گوجرانوالہ آئے اور مرکزی جامع مسجد شیرنوالہ باغ میں عوام کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ وہ دوٹوک لہجے میں بات کرنے کے عادی تھی، مجھے ان کے اس انداز نے بہت متاثر کیا۔ انہوں نے اس جلسے میں بھٹو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے دو لطیفے سنائے جو آج تک میرے ذہن میں تازہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو حکومت کو پنجاب اوپر لایا ہے اس لیے پنجاب ہی کو اسے اتارنے کے لیے بڑا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اس پر انہوں نے ایک لطیفہ سنایا کہ ایک دور دراز دیہات کا رہنے والا شہر میں آیا تو کوئی مؤذن مسجد کے مینارے پر چڑھ کر اذان دے رہا تھا۔ جس زمانے میں لاؤڈ اسپیکر نہیں ہوتے تھے، مؤذن اسی طرح بلند مینار پر چڑھ کر اذان دیا کرتے تھے تاکہ آواز زیادہ دور تک جا سکے۔ اس دیہاتی نے مؤذن کو بلند مینار پر اذان دیتے ہوئے دیکھا تو سمجھا کہ اس کو نیچے اترنے کے لیے راستہ نہیں مل رہا اور مدد کے لیے چیخ و پکار کر رہا ہے۔ وہ آگے بڑھا اور مینار کے چاروں طرف گھوم کر اس نے دیکھا کہ مدد کے لیے اس کے پاس پہنچنے کا کوئی راستہ ہے؟ جب کسی طرف سے کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو نیچے سے بلند آواز کے ساتھ مؤذن کو پکارا کہ ’’بھئی مجھے تو کوئی راستہ نظر نہیں آرہا، اس لیے جس نے تجھے اوپر چڑھایا ہے وہی تجھے نیچے بھی اتارے گا‘‘۔
دوسری بات ولی خان مرحوم نے یہ کہی کہ پاکستان ایک بار ٹوٹ چکا ہے اب باقی ماندہ پاکستان کو بچانے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہماری حرکتوں کی وجہ سے خدانخواستہ یہ بھی نہ ٹوٹ جائے۔ اس پر انہوں نے ایک اور لطیفہ سنایا کہ ایک شخص چوڑیوں کی ٹوکری زمین پر رکھے کھڑا تھا کہ پولیس کا ایک سپاہی آیا، اس نے ٹوکری کو ٹھوکر مار کر پوچھا کہ اس میں کیا ہے؟ ٹوکری والے نے جواب دیا کہ جناب ایک ٹھوکر اور مار دیں تو اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔
خان عبد الولی خان مرحوم اور مولانا مفتی محمودؒ کی سیاسی رفاقت پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اسی رفاقت کے باعث مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے اور پاکستان میں علمائے کرام کے لیے اقتدار کی سیاست کا دروازہ وا ہوا۔ اسی رفاقت کی وجہ سے ۱۹۷۳ء کا دستور اس صورت میں منظور ہوا کہ اس میں اسلامی نظام، جمہوریت، اور صوبوں کے حقوق کے معاملات ایسے توازن کے ساتھ ایڈجسٹ ہوگئے کہ بہت سے نازک مراحل سے گزرنے کے باوجود یہ دستور آج بھی پاکستان کے تمام صوبوں کا متفقہ دستور ہے اور اسے پاکستان کی بقاء و استحکام، اسلام و جمہوریت کی پاسداری، اور صوبوں کے حقوق کے تحفظ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کوئی سمجھدار مؤرخ اس دور میں ملکی سیاست اور پاکستان کے مستقبل پر جمعیۃ علمائے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کی سیاسی رفاقت کے اثرات کا جائزہ لینا چاہے تو یہ بڑی دلچسپی کا حامل موضوع ثابت ہوگا اور قومی سیاست کے بہت سے عقدے حل ہوتے نظر آئیں گے۔ خان عبد الولی خان مرحوم نے بہت سے معاملات میں مولانا مفتی محمودؒ پر اعتماد کیا بلکہ انہیں کھلے بندوں اپنا امام تک کہہ دیا۔ اسی طرح مولانا مفتی محمودؒ نے بھی مختلف مواقع پر خان عبد الولی خان مرحوم کو بھرپور اعتماد سے نوازا۔
۱۹۷۲ء میں صوبہ سرحد میں حکومت کی تشکیل کے لیے جمعیۃ علمائے اسلام کو دو بڑے باہمی سیاسی حریفوں خان عبد الولی خان مرحوم اور خان عبد القیوم خان مرحوم کی طرف سے یکساں طور پر پیشکش کی گئی تھی۔ دونوں جمعیۃ علمائے اسلام کی قیادت میں صوبائی حکومت بنانے کے لیے تیار تھے اور دونوں نے جمعیۃ علمائے اسلام کی طرف سے پیش کردہ تمام شرائط کو منظور کر لیا تھا۔ اب یہ فیصلہ جمعیۃ علمائے اسلام کے کورٹ میں تھا کہ وہ ان میں سے کس کو ترجیح دیتی ہے۔ جمعیۃ علمائے اسلام کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں جمعیۃ کے دو بڑے بزرگوں میں اس پر اختلاف ہوگیا۔ مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی رائے خان عبد القیوم خان مرحوم کے ساتھ کولیشن بنانے کی تھی جبکہ مولانا مفتی محمودؒ چاہتے تھے کہ خان عبد الولی خان مرحوم کے ساتھ کولیشن بنائی جائے۔ دونوں میں اس حوالے سے زبردست معرکہ آرائی ہوئی مگر بالآخر مولانا مفتی محمودؒ جمعیۃ کی مجلس شوریٰ سے اپنی رائے منوانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ خان عبد الولی خان اور ان کے ساتھی بھروسے کے لوگ ہیں، وہ جو بات طے کریں گے اس پر قائم بھی رہیں گے۔ جبکہ خان عبد القیوم خان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس وقت کون سا رخ اختیار کریں۔ یہ خان عبد الولی خان اور نیشنل عوامی پارٹی کی اصول پسندی اور وضعداری پر مولانا مفتی محمودؒ اور جمعیۃ علمائے اسلام کی طرف سے اعتماد کا اظہار تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جمعیۃ کو اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی کہ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کا راستہ بتدریج الگ ہوتا چلا گیا۔
خان عبد الولی خان مرحوم معروف معنوں میں ایک ’’قوم پرست پختون لیڈر‘‘ تھے اور اس حوالے سے انہیں ایک علاقائی سیاستدان سمجھا جاتا تھا۔ لیکن قومی سیاست میں انہوں نے پاکستان کو متحد رکھنے، ملک کے تمام لوگوں کے حقوق کے تحفظ، جمہوری اقدار کی بالادستی، اور ملکی وحدت و سالمیت کے استحکام کے لیے جو مسلسل کردار ادا کیا اسے کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں گزشتہ کسی کالم میں اپنے اس تاثر اور احساس کا تذکرہ کر چکا ہوں کہ ۱۹۷۲ء کی قومی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم، مولانا مفتی محمودؒ، اور خان عبد الولی خان مرحوم کے درمیان جو سہ فریقی اتحاد ہوا تھا، وہ اگر نہ ٹوٹتا تو ان حالات میں پاکستان کو اس سے بہتر سیاسی قیادت میسر نہیں آسکتی تھی۔ یہ ٹیم اگر مل کر ملک کی قیادت کرتی تو آج نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا اور عالم اسلام کی صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ مگر ملک و قوم کی بدقسمتی سے یہ ’’سہ فریقی معاہدہ‘‘ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور نادیدہ قوتوں نے ۱۹۷۲ء کے باقی ماندہ پاکستان کو اس کی صحیح قیادت سے محروم کر دیا۔
مجھے خان عبد الولی خان مرحوم کے ساتھ زیادہ ملاقاتوں کا موقع نہیں ملا لیکن میں ان کے مداحوں میں سے ہوں۔ بہت سے معاملات میں ان سے اختلاف بھی رہا اور رائے و موقف کی حد تک آج بھی وہ اختلاف قائم ہے، لیکن ان کی وضعداری اور اپنی بات پر قائم رہنے کی روایت میرے نزدیک ہمیشہ قابل تعریف رہی ہے۔ وہ ملک کے بزرگ سیاستدانوں میں سے تھے، انہوں نے اپنے بعض تحفظات کے باوجود ہمیشہ ملکی استحکام اور سالمیت کی بات کی اور ایک لبرل بلکہ سیکولر سیاستدان ہونے کے باوجود دستور میں اسلامی دفعات، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، اور دیگر بہت سے دینی معاملات میں دینی جماعتوں کا ساتھ دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور ان کے جانشین اسفند یار ولی خان کو اپنے باپ دادا کی روایات کو قائم رکھنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔