پروفیسر حافظ محمد سعید کی گمشدگی اور حکومتی ذمہ داری

   
۶ اگست ۲۰۰۲ء

مولانا اعظم طارق کی بھوک ہڑتال کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا کہ پروفیسر حافظ محمد سعید کی گمشدگی کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے اور اس کی پیچیدگی اور سنگینی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پروفیسر حافظ سعید کا تعلق اہل حدیث مکتب فکر سے ہے، انہوں نے ’’لشکر طیبہ‘‘ کے نام سے مجاہدین کی جماعت بنائی جس نے بہت جلد مجاہدین کی تنظیموں میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مجاہدین کی حمایت کے لیے شروع سے سرگرم عمل رہے جبکہ افغانستان میں طالبان حکومت کی حمایت اور امریکی عزائم کی مذمت و مخالفت میں پروفیسر حافظ محمد سعید ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ان کی جماعت کو نہ صرف امریکہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیا گیا بلکہ پاکستان میں بھی اس پر پابندی لگا دی گئی جس پر انہوں نے ’’جماعۃ الدعوۃ‘‘ کے نام سے ایک نئی دینی و سیاسی جماعت کی تشکیل کا اعلان کر دیا اور ’’لشکر طیبہ‘‘ کو کشمیر کے دائرہ میں محدود کر کے پاکستان میں اس کی سرگرمیاں ختم کر دیں۔ تب سے وہ جماعت الدعوۃ کے امیر ہیں اور ملک کی دینی سیاست میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔

حافظ محمد سعید کو افغانستان پر امریکی حملہ کے موقع پر ’’دفاع پاکستان و افغانستان کونسل‘‘ کے مشترکہ فورم سے احتجاجی مہم میں متحرک کردار ادا کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ کئی ماہ کے بعد وہ رہا ہوئے لیکن کچھ دنوں کے بعد دوبارہ گرفتار کر لیے گئے، ان کی گرفتاری کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں او رحکومتی حلقوں کی طرف سے ان خبروں پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ لیکن جب گزشتہ دنوں ان کی اہلیہ محترمہ نے لاہور ہائی کورٹ میں ان کی گرفتاری یا نظربندی کے خلاف رٹ دائر کی تو صوبائی حکومت نے عدالت عالیہ کے سامنے یہ موقف اختیار کر کے سب کو حیرت زدہ کر دیا کہ پروفیسر حافظ محمد سعید کو حکومت نے گرفتار نہیں کیا اور وہ حکومت کی تحویل میں نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں صوبائی حکومت کو علم ہے کہ وہ کہاں ہیں؟ اس کے بعد جب وفاقی حکومت سے دریافت کیا گیا تو حکومت پاکستان کے وکیل نے بھی لاہور ہائیکورٹ میں وہی موقف دہرایا جو صوبائی حکومت اس سے قبل پیش کر چکی تھی۔

اس طرح اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ پروفیسر حافظ محمد سعید غائب ہیں، ان کے گھر والوں کو ان کے بارے میں کوئی علم نہیں اور وہ معلومات حاصل کرنے کے لیے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے واضح طور پر ان کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کر دیا ہے کہ نہ انہیں گرفتار کیا گیا ہے او رنہ ہی حکومت ان کے بارے میں کچھ جانتی ہے۔

ہمارے خیال میں حکومت کا یہ کہنا قرین قیاس نہیں ہے اور پروفیسر حافظ محمد سعید کے بارے میں اس درجہ کی لاعلمی کا اظہار کر کے بہت کچھ چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ورنہ اگر حکومت کا یہ موقف درست ہے تو اس کا اظہار اس وقت ہونا چاہیے تھا جب حافظ سعید کی دوبارہ گرفتاری کی خبریں قومی اخبارات میں شائع ہوئیں اور مسلسل کئی روز تک اس گرفتاری پر احتجاج بھی ہوتا رہا۔ اگر حکومت نے انہیں گرفتار نہیں کیا تھا تو اس کا فرض بنتا تھا کہ اسی وقت حکومت کی طرف سے ان خبروں کی تردید جاری کی جاتی اور واضح طور پر قوم کو بتا دیا جاتا کہ یہ خبریں غلط ہیں اور حکومت نے انہیں حراست میں نہیں لیا۔ حافظ صاحب ملک کی معروف دینی شخصیت ہیں اور ایک دینی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ ان کی گرفتاری کی خبروں پر حکومت کا خاموش رہنا اور کئی ماہ گزر جانے کے بعد ہائیکورٹ میں اس سے بے خبری کا اظہار کرنا نہ تو قانون و ضابطہ کی زبان میں درست طرز عمل ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر اس کا کوئی جواز بنتا ہے۔

دوسری طرف ایک خبر کے مطابق حافظ محمد سعید کی اہلیہ نے اپنے شوہر کی گمشدگی یا گرفتاری کے کیس میں صوبائی وزیر مذہبی امور مفتی غلام سرور قادری کو فریق بنانے کی درخواست دے دی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حافظ محمد سعید حکومت کی حراست میں ہیں۔

ہمارے نزدیک اس کیس کی سنگینی میں اس بات سے کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے کہ پروفیسر حافظ محمد سعید ان حضرات میں سے ہیں جن کے بارے میں امریکہ اور بھارت دونوں ملکوں کی حکومتیں اس بات میں دلچسپی رکھتی ہیں اور اس کا کھلم کھلا مطالبہ کر چکی ہیں کہ انہیں آزاد نہ چھوڑا جائے، ان کی سرگرمیوں کو ختم کرایا جائے بلکہ انہیں ایک ’’دہشت گرد‘‘ کے طور پر امریکہ یا بھارت کے حوالے کر دیا جائے۔ اس لیے ان کی گرفتاری کی واضح خبروں کے کافی عرصہ بعد حکومت کی طرف سے ان کے بارے میں بے خبری کا اعلان ذہنوں میں یہ شک پیدا کرتا ہے کہ کہیں انہیں کسی ’’خفیہ ڈیل‘‘ کے ذریعے امریکہ یا بھارت کے حوالے تو نہیں کر دیا گیا؟ اور صدر جنرل پرویز مشرف نے امریکی وزیرخارجہ کولن پاول کی آمد کے موقع پر جو یہ اعلان فرمایا ہے کہ ہم نے کشمیر میں ’’دہشت گردی‘‘ کو ختم کرنے کے لیے بہت کچھ کر دیا ہے۔ کہیں اس بہت کچھ میں پروفیسر حافظ محمد سعید کی ’’گمشدگی‘‘ بھی تو شامل نہیں ہے؟

ہمارے ہاں اس طرح کی باتیں ہو جاتی ہیں اور ہضم بھی ہو جایا کرتی ہیں اس لیے ہمارا یہ خدشہ بے جا نہیں ہے۔ ہم نے ملا عبد السلام ضعیف کو افغانستان کا سفیر تسلیم کر رکھا تھا اور ان کے کاغذات سفارت باقاعدہ ایوان صدر میں قبول کیے گئے تھے لیکن افغانستان میں ان کو سفیر مقرر کرنے والی حکومت ختم ہوجانے کے بعد جب وہ سفیر نہ رہے تو ان کے ساتھ ڈیلنگ کے سفارتی تقاضے، ضوابط اور اخلاق کا ایک واضح نقشہ ہمارے سامنے موجود تھا، جبکہ انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست بھی دے رکھی تھی، جو ہمارے ہاں زیر غور تھی۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ کسی سفارت کار کی سیاسی پناہ کی درخواست زیرغور ہو اور اس کا فیصلہ کیے بغیر اسے اس کے دشمن کے حوالے کر دیا جائے جبکہ واضح طور پر اس کو جان کا خطرہ بھی نظر آرہا ہو۔ مگر ہم نے ایسا کیا اور ڈنکے کی چوٹ پر کیا۔ نہ سفارتی آداب نے ہمارا دامن پکڑا اور نہ ہی قانون و ضابطہ کی کوئی دفعہ ہمارا ہاتھ روک سکی۔ چنانچہ ایک مسلمہ سفارت کار ہمارے ہاتھوں جنگی مجرم کا درجہ پا کر دشمن کی حراست میں ہے جس کے بارے میں وحشیانہ تشدد کی خبریں بار بار عالمی پریس میں آرہی ہیں اور چند روز سے اسی تشدد کی وجہ سے ان کی موت اور شہادت کی خبریں بھی منظر عام پر آنا شروع ہوگئی ہیں۔

اس پس منظر میں جماعت الدعوۃ پاکستان کے امیر اور ملک کے معروف سیاسی و دینی رہنما پروفیسر حافظ محمد سعید کی گمشدگی ملک بھر کے دینی حلقوں اور محب وطن عناصر کے لیے سخت پریشانی اور اضطراب کا باعث بن گئی ہے اور پروفیسر صاحب محترم کی زندگی کے حوالے سے سنگین اور شدید خدشات ذہنوں میں ابھر رہے ہیں۔ اس لیے حکومت پاکستان یا پنجاب حکومت عدالت عالیہ میں یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے فارغ نہیں ہو جاتی کہ اسے پروفیسر حافظ محمد سعید کے بارے میں کچھ خبرنہیں ہے اور اس نے انہیں حراست میں نہیں لیا۔ بلکہ یہ حکومت کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی پوزیشن عوام کے سامنے واضح کرے اور ان کی رہائی یا بصورت دیگر بازیابی کے لیے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے فوری اور ٹھوس اقدامات کرے۔ ورنہ اگر حکومت نے اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو عوم کے ذہنوں سے اس شبہ کو نکالنا مشکل ہو جائے گا کہ پروفیسر حافظ محمد سعید کو ’’خفیہ ڈیل‘‘ کے ذریعے امریکہ یا بھارت کے حوالے کر دیا گیا ہے اور اب بے خبری کے اظہار کے ذریعے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter