قرآن کریم کے حقوق

   
۲۷ ستمبر ۲۰۰۷ء

۱۷ ستمبر سے ۲۲ ستمبر ۲۰۰۷ء تک مکی مسجد بروک لین، نیویارک میں نماز تراویح کے بعد نمازیوں کے سامنے ”قرآن کریم کے حقوق“ اور ” قرآن فہمی کے ضروری تقاضے“ کے عنوان پر مسلسل گفتگو کا موقع ملا، جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو قیامت تک نسلِ انسانی کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور اس وقت ان آسمانی کتابوں میں سے صرف وہی محفوظ حالت میں موجود ہے جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل ہوئیں۔ قرآن کریم نہ صرف پوری طرح محفوظ حالت میں موجود ہے، بلکہ سب سے زیادہ پڑھا جا رہا ہے اور سب سے زیادہ سنا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ اعزاز اور اعجاز عطا فرمایا ہے کہ دن بدن اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ دنیا میں جوں جوں مسلمانوں کی حالت پتلی ہو رہی ہے قرآن کریم کا دائرہ پھیل رہا ہے۔ اس وقت بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں ایک کروڑ سے زیادہ حافظ قرآن کریم موجود ہیں، جو دن رات قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور رمضان المبارک چونکہ قرآن کریم کے نزول کا مہینہ ہے، اس لیے اس مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

قرآن کریم کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو ”ذکر“ کے لیے آسان کر دیا ہے۔ اس ”ذکر“ کا معنی یہ بھی ہے کہ یاد کرنے کے لیے قرآن کریم کو آسان کر دیا گیا ہے، جس کا ہم گزشتہ چودہ سو برس سے مسلسل مشاہدہ کر رہے ہیں کہ یہ بڑی آسانی سے یاد ہو جاتا ہے، بچوں کو بھی یاد ہوتا ہے اور بوڑھے بھی اسے یاد کر لیتے ہیں، مرد بھی یاد کرتے ہیں اور عورتوں کو بھی حفظ ہو جاتا ہے۔ میں نے سات سال کی بچی بھی قرآن کریم کی حافظہ دیکھی ہے اور ساٹھ سال کی خاتون کو بھی قرآن کریم یاد کرتے اور مکمل کرتے دیکھا ہے۔ یہ قرآن کریم کی صداقت کی دلیل اور اس کا اعجاز ہے، جو ہمارے زوال کے دور میں بھی پوری قوت کے ساتھ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔

اسی طرح ”ذکر“ کا یہ معنی بھی ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں عام انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے عام فہم زبان اور عام فہم اسلوب اختیار کیا ہے۔ انسانوں میں ذہنی، علمی اور فکری حوالے سے جتنے درجات بھی ہیں، ان سب کے لیے قرآن کریم میں ان کی ذہنی سطح پر گفتگو کا سامان موجود ہے، لیکن عام لوگوں کے لیے ان کی ذہنی سطح پر بات کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مشکل سے مشکل مسئلے میں ایک عام انسان کو سمجھانے کے لیے اس کی نفسیات اور ذہنی سطح کا لحاظ رکھا ہے۔

ایک مثال سے اس بات کا جائزہ لے لیجئے کہ ہم جب چار پانچ سال کے بچے کی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں تو اسے سب سے پہلے اس کے اردگرد ماحول میں موجود اور اس کے مشاہدے میں آنے والی چیزوں کے نام بتائے جاتے ہیں۔ الف انار اور اے ایپل اسی کی عملی صورت ہے۔ یہ تعلیم کا بالکل ابتدائی لیول ہوتا ہے اور نسلِ انسانی کی تعلیم کا جب آغاز ہوا تھا تو آدم علیہ السلام کو بھی سب سے پہلے چیزوں کے نام ہی بتائے گئے تھے۔ اسے مشاہدات کی زبان کہتے ہیں کہ اردگرد مشاہدے میں آنے والی چیزوں کے نام اور فائدے بتا کر ایک بچے کی تعلیم شروع کی جاتی ہے۔

میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ہمیں بہت سی باتیں سمجھانے کے لیے یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وجود، اس کی قدرت اور اس کی توحید کو اگر فلسفہ کی زبان میں بیان کیا جائے تو یہ مشکل ترین مسائل شمار ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ مسائل سمجھانے کے لیے اردگرد کے مشاہدے کی دعوت دی ہے اور جابجا فرمایا ہے کہ زمین کو دیکھو، آسمان کو دیکھو، سورج اور چاند کے نظام کو دیکھو، درخت اور پودے دیکھو، ہوا اور پانی کے سسٹم کو دیکھو، بادل برستے دیکھو اور خود اپنے وجود اور جسم کے اندر کی صلاحیتوں کو دیکھو کہ یہ کس نے بنائی ہیں، ان کا خالق کون ہے اور ان کو ایک سسٹم کے مطابق کون چلا رہا ہے؟ تمہیں خودبخود خدا کے وجود کا پتہ چل جائے گا، اس کی قدرت کا اندازہ ہو گا اور اس کی توحید پر تمہارا یقین پختہ ہو گا۔

ایک جگہ فرمایا کہ یہ زمین، آسمان، چاند اور ستاروں کا جو نظام پورے ضبط اور یکسانیت کے ساتھ چل رہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلیل ہے۔ اس لیے کہ اگر اس معاملے میں کسی اور کے پاس بھی کچھ اختیار ہوتا تو یہ سارا نظام اتھل پتھل ہو جاتا، پھر ہر خدا اپنی پیدا کردہ چیزیں لے کر الگ کھڑا ہوتا اور سب ایک دوسرے پر برتری اور غلبے کی کوشش میں لگ جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں توحید کا فلسفہ مکھی اور مکڑی کی مثالوں سے سمجھایا ہے اور ایسے عام فہم انداز میں بات کی ہے کہ ایک سیدھا سادا دیہاتی اور ان پڑھ آدمی بھی توحید کے فلسفے کو آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔

قرآن کریم جہاں یاد کرنے کے لیے آسان ہے، وہاں سمجھنے کے لیے بھی آسان ہے، لیکن سمجھنے کے لیے آسان ہونے کے مختلف درجات ہیں اور ان کا فرق نہ کرنے کی وجہ سے فکری الجھنیں اور گمراہیاں جنم لے رہی ہیں۔ ایک ہے قرآن کریم کے پیغام اور نفسِ مفہوم کو سمجھنا اور کسی آیت کریمہ کو پڑھ کر یا سن کر اس کا مقصد سمجھ لینا، یہ تو ہر مسلمان کے لیے آسان ہے، ضروری ہے اور اس پر قرآن کریم کا حق ہے۔ لیکن کسی آیت پر علمی بحث کرنا، اس سے مسائل مستنبط کرنا اور اس کے اصول و احکام اخذ کرنا اس کا یہ لیول نہیں ہے، اس کے لیے بہت سے علوم کے ساتھ واقفیت ضروری ہے۔

اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ قانون سے واقف ہونا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے اور کسی ملک کی کوئی عدالت کسی قانون شکنی کرنے والے کا یہ عذر قبول نہیں کرتی کہ چونکہ اسے قانون کا علم نہیں تھا، اس لیے اس نے اس کی خلاف ورزی کی ہے، کیونکہ قانون سے واقف ہونا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف قانون کے عمومی مطالعہ کی بنیاد پر عدالت عالیہ میں کھڑا ہو کر دستور و قانون کی تشریح اور اس پر ”آرگو“ کرنے کا حق مانگے گا تو وہ اسے نہیں ملے گا، اس لیے کہ اس کا معیار بالکل مختلف ہے اور اس کا پراسیس قطعی طور پر الگ ہے۔ اس کے لیے لاء کی ڈگری، بار کا لائسنس اور وکالت کا تجربہ درکار ہے، اس کے بغیر کسی کو قانون کے عام مطالعہ کی بنیاد پر قانون کی تشریح و تعبیر کا حق نہیں ملتا۔

یہی صورت حال قرآن کریم کے حوالے سے ہے کہ اس کے عام امیج کو سمجھنا اور اس کے بنیادی احکام سے واقف ہونا ہر مسلمان کا حق اور اس کی ذمہ داری ہے، لیکن قرآن کریم کی کسی آیت کی تعبیر و تشریح کے لیے بحث کرنا ہر شخص کا حق نہیں ہے اور اس کے لیے اسی طرح علوم دینیہ کی ڈگری اور تدریس و تعلیم کا تجربہ شرط ہے، جیسے قانون کی تعبیر و تشریح میں حصہ لینے کے لیے شرائط موجود ہیں۔

اس حوالے سے ہم بہت افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف یہ ذہن پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے سرے سے کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ جب تک پورا عالم دین نہیں ہو گا وہ قرآن کریم کو نہیں سمجھ پائے گا اور دوسری طرف یہ رجحان عام ہوتا جا رہا ہے کہ جو شخص قرآن کریم کی چند آیات کا ترجمہ کرنے کی اہلیت حاصل کر لیتا ہے، وہ دین کے ہر معاملے میں خود کو اتھارٹی تصور کرنے لگتا ہے اور ہر مسئلے میں ٹانگ اڑا کر اپنی تعبیر و تشریح کو دوسروں پر نافذ کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔

یہ دونوں انتہا پسندانہ رجحانات ہیں اور حق بات ان دونوں کے درمیان ہے، وہ یہ کہ قرآن کریم کے نفسِ مفہوم، پیغام اور احکام سے آگاہی حاصل کرنا ہر مسلمان کی ضرورت ہے، اس کی ذمہ داری ہے اور اس پر قرآن کریم کا حق ہے، جس سے کوئی مسلمان مرد یا عورت مستثنیٰ نہیں ہے، لیکن قرآنی آیات کی تعبیر و تشریح اور ان سے مسائل کا استنباط اور استخراج صرف اور صرف ان لوگوں کا حق ہے جو متعلقہ ضروری علوم پر دسترس رکھتے ہیں اور ان کے بغیر کی جانے والی تعبیر و تشریح ہمیشہ الجھنیں اور مسائل پیدا کرتی ہے۔ اس لیے قرآن کریم پر ایمان، اس کے ساتھ محبت و عقیدت اور اس کی تلاوت و سماع کے ساتھ ساتھ اسے سمجھنے کی کوشش کرنا بھی ہر مسلمان پر قرآن کریم کا حق ہے اور اس حق کی ادائیگی سے بے پروائی برتنا قرآن کریم کی حق تلفی ہے۔

امت مسلمہ کے معروف عالم اور محقق حافظ ابن القیمؒ نے قرآن کریم کے حقوق بیان کرتے ہوئے پانچ امور کا بطور خاص ذکر کیا ہے:

  1. قرآن کریم کی تلاوت اور اسے اہتمام کے ساتھ سننے کا معمول قرآن کریم کا حق اور جناب نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے۔ اگر کسی مسلمان کے معمولات میں قرآن کی تلاوت اور سننا شامل نہیں ہے تو وہ قرآن کریم کی حق تلفی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
  2. قرآن کریم کو سمجھنا اور اس کے پیغام اور احکام و ہدایات سے واقف ہونا ہر مسلمان پر قرآن کریم کا حق ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور اس کے لیے کسی بھی درجے میں کوشش نہیں کرتا تو وہ قرآن کریم کی حق تلفی کر رہا ہے۔
  3. قرآن کریم کے احکام و ہدایات پر عمل کرنا اور قرآن کریم کا کوئی حکم سامنے آنے پر رک جانا اور اپنا جائزہ لینا بھی قرآن کریم کا حق ہے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کر رہا تو یہ قرآن کریم کی حق تلفی ہے۔
  4. قرآن کریم کو اپنے معاملات اور تنازعات میں حکم اور فیصل تسلیم کرنا اور اس سے اپنے معاملات و تنازعات کا فیصلہ طلب کرنا بھی قرآن کریم کے حقوق میں سے ہے۔ اگر کوئی مسلمان فرد، خاندان، کمیونٹی یا قوم اس کا اہتمام نہیں کرتی تو یہ بھی قرآن کریم کی حق تلفی کی ایک صورت ہے۔
  5. قرآن کریم روحانی بیماریوں کا علاج ہونے کے ساتھ جسمانی بیماریوں اور دنیاوی مشکلات کے لیے بھی شفا کی حیثیت رکھتا ہے اور برکت اور شفا کے لیے اس کی تلاوت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ اس لیے اگر کوئی مسلمان اس سے بے پروائی برتتا ہے تو وہ بھی قرآن کریم کی حق تلفی کا مرتکب قرار پاتا ہے۔

حافظ ابن القیمؒ کا ارشاد ہے کہ یہ قرآن کریم کے وہ حقوق ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہو گا اور ان حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں درخواست گزار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کے حقوق صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter