ان دنوں لندن سے شائع ہونے والے ایک اردو روزنامہ میں مساجد کی انتظامیہ کمیٹیوں اور آئمہ مساجد کے درمیان بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔ مساجد کی انتظامیہ کمیٹیوں کی ایک مشترکہ کونسل کی طرف سے بیان شائع ہوا کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے سپانسر پر جن آئمہ اور خطباء کو بلایا جاتا ہے وہ صرف اتنا وقت مساجد میں گزارتے ہیں جتنا مستقل ویزے کے حصول کے لیے ضروری ہوتا ہے اور جونہی ان کے پاسپورٹ پر مستقل ویزے کی مہر لگ جاتی ہے وہ مساجد و مکاتب کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اور اپنے لیے دیگر مصروفیات تلاش کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے مساجد و مکاتب میں خطباء، آئمہ اور مدرسین کی ضرورت کا مسئلہ مستقل طور پر درپیش رہتا ہے۔ اس کے جواب میں آئمہ مساجد کی بعض تنظیموں کی طرف سے بیان آیا ہے کہ سپانسر پر آئمہ اور خطباء کو بلانے والی مساجد کمیٹیاں ان آئمہ کے ساتھ چار پانچ سال تک جو سلوک روا رکھتی ہیں وہ غلاموں سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ معاوضہ انتہائی قلیل ہوتا ہے بلکہ پابندیاں اور طرزعمل بھی اس قدر اہانت آمیز ہوتا ہے کہ مجبوری کی مدت گزرجانے کے بعد کوئی شریف آدمی ان کمیٹیوں کے ساتھ رہنا گوارا نہیں کرتا۔
برطانیہ میں مساجد و مکاتب کی صورتحال یہ ہے کہ مختلف ممالک سے یہاں آکر بسنے والے مسلمانوں نے یہاں اپنی اپنی ضروریات کے مطابق مساجد قائم کر رکھی ہیں جن کی مجموعی تعداد پورے برطانیہ میں ایک ہزار کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ ان میں سے بہت سی مساجد ایسی ہیں جو باقاعدہ طور پر منظوری لے کر مساجد کی شکل میں تعمیر کی گئی ہیں، بعض مساجد کرایہ یا ملکیت کے فلیٹس میں قائم ہیں اور سینکڑوں مساجد ایسی بھی ہیں جو غیرآباد گرجے خرید کر ان میں بنائی گئی ہیں۔ ان مساجد میں پانچ وقت کی نماز باجماعت، جمعہ اور عیدین کے اہتمام کے ساتھ ساتھ شام کو پانچ سے سات تک یا ہفتہ و اتوار کو چھٹی کے روز قرآن کریم کی تعلیم کے مکاتب قائم ہیں جہاں ہزاروں بچے قرآن کریم اور دینی معلومات کی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے دینی تعلیم کے بڑے دارالعلوم اور جامعات مختلف علاقوں میں الگ طور پر بھی قائم ہو رہے ہیں جس میں درس نظامی کے ساتھ ساتھ مقامی سکولوں کی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور ان کے ہاسٹلوں میں سینکڑوں طلبہ مقیم ہوتے ہیں۔ اسی طرز پر بچیوں کی دینی تعلیم کے لیے بھی ادارے قائم ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اس طرح دینی تعلیم کا دائرہ دن بدن پھیلتا جا رہا ہے۔
پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمانوں کی مساجد اور مکاتب اپنے ملکوں کی طرح یہاں بھی مسالک کی تفریق کا دائرہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ کی تفریق کے علاوہ یہاں علاقائی تفریق کا رنگ بھی نمایاں ہے اور گجراتی، بنگالی، میرپوری اور پنجابی طرز کی گروہ بندیاں ان مساجد و مکاتب کے نظام میں کارفرما دکھائی دیتی ہیں۔
ان مساجد کے لیے آئمہ و خطباء اور قرآن کریم کی تعلیم کے اساتذہ ظاہر بات ہے کہ اپنے ممالک سے ہی درآمد کیے جاتے ہیں۔ اور چونکہ مسلکی اور علاقائی گروہ بندی کی رعایتوں کے علاوہ مساجد قائم کرنے والی کمیٹیوں کے ذمہ دار افراد کی ذاتی پسند و ناپسند اور اپنے رشتہ داروں اور تعلق داروں کو ترجیح دینے کا مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے، اس لیے یہاں کے ماحول کی ضروریات کے مطابق آئمہ و اساتذہ کی اہلیت کا تعین اور اس کی روشنی میں افراد کا انتخاب ابھی تک ترجیحات میں شامل نہیں ہو سکا۔ دوسری طرف پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے دینی اداروں نے اس امر کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی کہ مغربی ممالک کی مساجد و مدارس کے لیے وہاں کی ضروریات کا جائزہ لے کر ان کے مطابق آئمہ اور اساتذہ کی تعلیم و تربیت اور تیاری کا اہتمام کریں تاکہ وہ وہاں جا کر اسلام کی خدمت او رمسلمانوں کی صحیح دینی راہنمائی کی ذمہ داری بہتر طور پر ادا کر سکیں۔ اس لیے برطانیہ میں آنے والے آئمہ، خطباء اور دینی اساتذہ کی غالب اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اپنی جگہ ضروری دینی تعلیم اور صلاحیت سے یقیناً بہرہ ور ہوں گے لیکن زبان، نفسیات، ذہنی سطح اور معاشرتی فرق کے لحاظ سے یہاں کی ضروریات سے قطعی طور پر ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اور ان میں سے اکثر حضرات کی یہاں آمد کا مقصد صرف دین کی خدمت نہیں بلکہ اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانا بھی ہے۔ چنانچہ انہیں اس کے لیے جو مواقع میسر آتے ہیں ان سے استفادہ میں انہیں کوئی حجاب محسوس نہیں ہوتا اور اس کے منطقی اثرات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔
آج سے دو سال قبل ورلڈ اسلامک فورم نے اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ ’’دعوت اکیڈمی‘‘ کے تعاون سے یورپ کے مسلمان طلبہ اور طالبات کے لیے اردو اور انگلش میں دینی تعلیم کا ایک کورس ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے نام سے شروع کیا تھا جس میں اب بحمد اللہ تعالیٰ ایک ہزار سے زائد طلبا اور طالبات شریک ہیں۔ گزشتہ سال لندن کی ایک مجلس میں راقم الحروف نے علماء کو اس کورس کی اہمیت و ضرورت کی طرف توجہ دلائی تو ایک بڑے عالم دین نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’حضرت! یہاں دین کی کیا بات کرتے ہیں، یہاں تو بس پونڈ اکٹھے کریں اور اپنے ملک میں جا کر دین کی خدمت کریں۔‘‘اس سے یہاں کی اس نفسیاتی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو دین کے نام پر اس ملک میں آنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے ذہنوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یقیناً سب لوگ ایسے نہیں ہیں اور ایسے افراد کی بڑی تعداد مساجد و مدارس میں کام کر رہی ہے جو دین کی خدمت کے مشنری جذبہ سے بہرہ ور ہیں۔ لیکن مجموعی ماحول اور خاص طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے مکاتب اور مساجد میں وہ صورتحال نمایاں نظر آتی ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔
مساجد کمیٹیوں کی حالت اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ ان کمیٹیوں میں ایسے افراد کی تعداد کم نہیں ہے جو مسجد یا دین کی خدمت کے لیے ان کمیٹیوں میں شامل نہیں ہیں بلکہ چودھراہٹ کا کوئی اور میدان اس سوسائٹی میں اپنے لیے موجود نہ پا کر وہ اس جذبہ کی تسکین کے لیے مساجد کمیٹیوں کا رخ کرتے ہیں۔ اور پھر ان کی چودھراہٹ اور حکمرانی کا سارا زور امام اور خطیب کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے پر صرف ہوجاتا ہے۔ ان کمیٹیوں میں دو دو تین تین دھڑے بن جاتے ہیں اور ہر دھڑے کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ امام او رخطیب صرف اس کی مرضی کے مطابق چلے۔ چنانچہ ہوشیار قسم کے خطیب و امام تو کسی طاقتور دھڑے کے ساتھ فریق بن کر دوسرے دھڑے کا دھڑن تختہ کرا دیتے ہیں اور خود بھی اقتدار میں شریک ہو جاتے ہیں جبکہ سادہ قسم کے امام مساجد کمیٹیوں کے ان دھڑوں میں ’’غریب کی جورو‘‘ بنے رہتے ہیں اور اس وقت کے انتظار میں سر جھکائے رکھتے ہیں کہ کب ان کے پاسپورٹ پر مستقل ویزے کی مہر لگے اور وہ ان کمیٹیوں کے چنگل سے نجات حاصل کریں۔
آئمہ اور خطباء کی تنخواہوں کی صورتحال یہ ہے کہ شام کو پانچ سے سات بجے تک قرآن کریم کی تعلیم دینے والے اساتذہ عام طور پر تیس سے چالیس پونڈ ہفتہ تنخواہ پاتے ہیں، جبکہ پانچ وقت کی نماز اور جمعہ کے ساتھ ساتھ شام کی کلاس کی پابندی اور مسجد کی نگرانی و حفاظت کی ذمہ داری نبھانے والے آئمہ و خطباء ستر سے سو پونڈ تک فی ہفتہ تنخواہ کے مستحق سمجھے جاتے ہیں۔ بعض حضرات اس سے زیادہ معاوضہ پاتے ہیں لیکن عام طور پر لندن اور دیگر بڑے شہروں کا معیار یہی ہے اور یہ یہاں کے عام معیار سے کم و بیش نصف کے لگ بھگ ہے۔ بالخصوص وہ آئمہ جو مساجد کے حجروں میں قیام پذیر اور اپنی خوراک کے خود ذمہ دار ہیں ان کے لیے صورتحال زیادہ پریشان کن ہوتی ہے۔ اور انہیں ٹیوشن اور دیگر ذرائع اختیار کر کے اپنا حساب کتاب برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ اس قلیل معاوضہ کے ساتھ آئمہ و خطباء کو مساجد کمیٹیوں اور ان کے چودھری قسم کے ارکان کے سامنے جس طرح ہر وقت جوابدہ رہنا پڑتا ہے وہ علماء کرم کے لیے زیادہ تکلیف دہ امر ہے۔ اسی وجہ سے مستقل ویزے تک کی عبوری مدت کو یہاں آئمہ مساجد کی اصطلاح میں ’’عدت‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ آئمہ جب آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے اس کی ’’عدت‘‘ کی بقایا مدت اور اس کے بعد کے پروگرام کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں۔
گزشتہ سال کی بات ہے لندن کے ایک علاقہ کی بڑی مسجد میں اس کی انتظامیہ کمیٹی کی ہفتہ وار میٹنگ میں راقم الحروف بھی بیٹھا تھا۔ اس مسجد میں فنڈز کی فراوانی کی وجہ سے تین خطیب بیک وقت کام کر رہے تھے اور کمیٹی والے اگلے ہفتہ کے دوران ان آئمہ کے درمیان نمازوں کی تقسیم کا شیڈول طے کر رہے تھے کہ مثلاً منگل کے روز فجر کی نماز کون پڑھائے گا، ظہر کون پڑھائے گا اور عصر کس کے ذمہ ہوگی۔ تقسیم کا انداز یہ تھا کہ تینوں میں سے کسی امام کو کسی دن بھی ایسی گنجائش نہ مل سکے کہ وہ کسی کام کے لیے کہیں جانا چاہے تو جا سکے۔ مجھے یہ صورتحال دیکھ کر تکلیف ہوئی، میں نے کمیٹی والوں کے طرزعمل سے اختلاف کیا اور ان سے کہا کہ وہ آئمہ کے ساتھ یہ معاملہ نہ کریں بلکہ انہیں صرف اس بات کا پابند کریں کہ ہر نماز میں ان میں سے کوئی نہ کوئی ضرور موجود ہونا چاہیے اور اس کے بعد باقی تقسیم ان پر چھوڑ دیں کہ وہ آپس میں ضرورت اور سہولت کے مطابق تقسیم کار کر لیں، لیکن کمیٹی والوں کو میں اس بات پر قائل نہ کر سکا۔ اس سے مساجد کمیٹیوں اور آئمہ مساجد کے درمیان تعلقات کار کی نوعیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ان کمیٹیوں میں بیشتر افراد دیندار اور اچھے خیالات و جذبات کے حامل ہوتے ہیں لیکن ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو محض چودھراہٹ کے خیال سے کمیٹیوں پر حاوی ہو جاتے ہیں اور اس مقصد کے لیے خاصی رقوم بھی مساجد کی تعمیر میں صرف کر دیتے ہیں۔ ابھی گزشتہ ہفتے کی بات ہے کہ مفتیان کرام کی ایک سوسائٹی میں جو ’’اسلامک فقہ اکیڈمی برطانیہ‘‘ کے نام سے کام کر رہی ہے، یہ بات زیربحث تھی کہ مساجد کمیٹیوں میں ایسے افراد کی رکنیت کی شرعی حیثیت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو صوم و صلاۃ کے پابند نہیں ہیں اور شراب وغیرہ کی فروخت جیسے حرام کاروبار میں مصروف ہیں، مساجد کمیٹیوں میں اس قسم کے افراد کی موجودگی زیادہ خرابی کا باعث بنتی ہے۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو مساجد کمیٹیوں اور آئمہ مساجد دونوں کی مذکورہ شکایات اپنی اپنی جگہ درست ہیں اور ان کے اسباب کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لے کر ان کے ازالہ کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نزدیک اس کام کی اصل ذمہ داری تو اسلامی کانفرنس کے جدہ سیکرٹریٹ کی ہے کہ وہ غیر مسلم ممالک میں مساجد و مکاتب کے نظام کا جائزہ لینے اور ان کی مشکلات و مسائل کے حل کے لیے ایک مستقل شعبہ قائم کرے اور اس مقصد کے لیے ایک مؤثر نظام کار وضع کیا جائے۔ تاہم پاکستان کی حد تک ہماری تجویز یہ ہے کہ
- دینی مدارس کے وفاق اور بڑے دینی مدارس مغربی ممالک کی ضروریات کا جائزہ لے کر ان کے مطابق آئمہ او راساتذہ کی تیاری اور تربیت کے الگ شعبے قائم کریں۔
- اسلامی نظریاتی کونسل اپنا وفد بھیج کر ان ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی مساجد اور دینی مکاتب کے نظام کا جائزہ لے کر ان کی اصلاح کے لیے سفارشات مرتب کرنے کے علاوہ مساجد کمیٹیوں اور آئمہ و خطباء کے لیے ضابطۂ اخلاق طے کرے جس پر عملدرآمد کی پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے نگرانی کی جائے۔
- پاکستانی سفارت خانوں میں موجود تعلیمی شعبوں کا دائرہ کار دینی تعلیم تک بڑھایا جائے اور سفارت خانوں میں مذہبی امور کے شعبے بھی قائم کیے جائیں۔ اور وزارت تعلیم اور وزارت مذہبی امور کے یہ شعبے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں مساجد و مکاتب اور دینی تعلیم کے نظام میں پاکستانی کمیونٹی کی راہنمائی کریں۔
- پاکستان میں مختلف مکاتب فکر کے دینی مدارس کے وفاقوں کا مشترکہ بورڈ اپنا وفد بھیج کر مغربی ممالک میں مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات اور مسائل کا جائزہ لے اور غیر سرکاری سطح پر سفارشات مرتب کر کے ان ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی رہنمائی کی جائے۔