سودی نظام اور وفاقی شرعی عدالت کا حالیہ فیصلہ

   
۲۰ اپریل ۲۰۱۷ء

وفاقی شرعی عدالت نے گزشتہ دنوں سودی نظام کے بارے میں مقدمہ کی سماعت یہ کہہ کر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے کہ جب سود کو حرام قرار دیا گیا تھا اس وقت حالات آج سے مختلف تھے، جبکہ آج کے حالات میں سود، ربوٰا اور انٹرسٹ کی کوئی متعینہ تعریف اور ان کے درمیان فرق واضح نہیں ہے اس لیے ان حالات میں مقدمہ کی سماعت کو جاری نہیں رکھا جا سکتا۔

اس حوالہ سے ملک بھر میں اہل دین اور اہل علم کی طرف سے اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان شریعت کونسل نے بھی گزشتہ روز راولپنڈی میں ایک مشاورت کا اہتمام کیا جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سرکردہ علماء کرام شریک ہوئے اور ’’انسداد سود رابطہ کمیٹی اسلام آباد‘‘ کے کنوینر مولانا محمد رمضان علوی نے اس کی صدارت کی۔ راقم الحروف نے بھی اس موقع پر کچھ گزارشات پیش کیں اور علماء کرام سے عرض کیا کہ وہ اس اہم اور سنگین مسئلہ کے بارے میں بے توجہی اور لاپرواہی کے طرز عمل پر نظر ثانی کرتے ہوئے سنجیدہ اور مؤثر کردار ادا کرنے کی کوئی عملی صورت نکالیں جو شرعاً ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔

اجلاس میں ان دونوں اسباب پر غور کیا گیا جو مقدمہ کی کاروائی کو غیر متعینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کی وجہ کے طور پر بیان کیے گئے ہیں اور شرکاء اجلاس نے ان سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اس موقف کو ’’عذر لنگ‘‘ قرار دیا۔ اس لیے کہ سود کی حرمت کا اعلان قرآن کریم کے نزول کے زمانے میں خود قرآن کریم نے کیا تھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے تاریخی خطبہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے اس کی عملی ممانعت اور خاتمہ کا اعلان فرمایا تھا۔ اس وقت قرض اور تجارت دونوں شعبوں میں سود معاشرہ میں ہر طرف عام تھا۔ تجارت بھی سود کے حوالہ سے ہوتی تھی جیسا کہ طائف کے بنو ثقیف کے نمائندہ وفد نے قبولِ اسلام کے موقع پر جناب نبی اکرمؐ کے سامنے یہ بات بطور شرط پیش کی تھی کہ چونکہ ان کی تجارت دوسرے قبائل اور قوموں کے ساتھ سود کے ذریعہ ہوتی ہے اور سود کو ختم کرنے کی صورت میں ان کا تجارتی نظام متاثر ہوگا اس لیے وہ سود نہیں چھوڑ سکیں گے۔ ان کی بعض دوسری شرائط کے ساتھ یہ شرط بھی آنحضرتؐ نے مسترد کر دی تھی اور وہ اپنی شرائط واپس لے کر دائرہ اسلام میں غیر مشروط طور پر داخل ہوگئے تھے۔ اسی طرح حضورؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے چچا محترم حضرت عباسؓ کی طرف سے لوگوں کو دیے گئے قرضوں پر سود کی رقم معاف کرنے کا اعلان فرمایا تھا، یہ واضح طور پر قرض کا سود تھا۔ اس لیے یہ کہنا کہ تجارت کا سود الگ ہے اور قرض کا سود اس سے مختلف ہے، جناب رسول اکرمؐ کے عمل اور تشریح و تعبیر کے یکسر منافی ہے، اور اس وقت قرض اور تجارت کے دونوں شعبوں میں جو سود جاری تھا آپؐ نے دونوں کو یکسر ختم کر کے معاشرے کو اس سے نجات دلائی تھی۔

آج بھی صورتحال وہی ہے کہ قرض اور تجارت دونوں حوالوں سے سود کا کاروبار جاری ہے جس کی خرابیاں بلکہ تباہ کاریاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں اور نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی سودی نظام کی تباہ کاریوں کو محسوس کرتے ہوئے اس سے انسانی سوسائٹی کو نجات دلانے کی صورتیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے دستور میں سودی نظام کے خاتمہ کو حکومت کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان بھی حکومت کو یہ ذمہ داری پورا کرنے کے لیے کہہ چکی ہے۔ چنانچہ اس سودی نظام کو جاری رکھنے کا موقع فراہم کرنا، اس کے بارے میں شرعی و دستوری تقاضوں کو مسلسل ٹالتے چلے جانا اور اس کے لیے حالات کے مختلف ہونے کا غیر حقیقی بہانہ پیش کرنا وفاقی شرعی عدالت کے لیے انتہائی نامناسب بات ہے اور ہم وفاقی شرعی عدالت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس غیرحقیقت پسندانہ موقف پر نظرثانی کرتے ہوئے سودی نظام کے بارے میں مقدمہ کی سماعت جاری رکھے اور اسے جلد از جلد منطقی نتیجے تک پہنچایا جائے۔

اجلاس میں سود، ربوٰا اور انٹرسٹ کی تعریف اور ان کے درمیان فرق کی بحث کو بھی بے مقصد قرار دیا گیا اور اس بات پر تعجب کا اظہار کیا گیا کہ ان معاملات پر وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں مسلسل دو عشروں تک بحث ہوتی رہی ہے اور ان سارے امور پر سیرحاصل بحث کے بعد آخری فیصلہ بھی صادر کیا جا چکا ہے جسے نظر ثانی کے عنوان سے ٹال مٹول کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ اگر اس طرح طے شدہ معاملات کو ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی روایت کی حوصلہ افزائی کی گئی تو دستوری اور عدالتی نظام شدید خلفشار کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان شریعت کونسل اور انسداد سود رابطہ کمیٹی اسلام آباد کی درخواست ہے کہ وفاقی شرعی عدالت اس ساری صورتحال کا ازسرِنو جائزہ لیتے ہوئے مقدمہ کی سماعت شروع کرنے کا فوری اعلان کرے۔

اجلاس میں اس رائے کا اظہار بھی کیا گیا کہ اس سلسلہ میں اصل ذمہ داری حکومت پاکستان کی ہے کیونکہ دستور میں اسے واضح ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سودی نظام کے جلد از جلد خاتمہ کا اہتمام کرے۔ اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی دستوری ذمہ داریوں سے انحراف کے راستے تلاش نہ کرے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی جامع سفارشات کے مطابق ملک کو منحوس و ملعون سودی نظام سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کرے۔

اس سلسلہ میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان سے سودی نظام کے جلد خاتمہ کے مطالبہ کو منظم طور پر سامنے لانے کے لیے ’’انسداد سود رابطہ کمیٹی اسلام آباد‘‘ کو متحرک کیا جائے اور اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، تاجروں، وکلاء، اساتذہ اور دیگر طبقات کے راہنماؤں کو شامل کر کے ایک وسیع فورم کی شکل دی جائے اور رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے منظم تحریک چلائی جائے۔

اجلاس میں طے پایا کہ مختلف مکاتب فکر اور طبقات کے ذمہ دار حضرات سے رابطوں کے بعد مئی کے وسط میں اسلام آباد میں ’’کل جماعتی انسداد سود کنونشن‘‘ طلب کیا جائے گا جس کا اعلان رابطہ کمیٹی سے مشورہ کے بعد اس کے کنوینر مولانا محمد رمضان علوی کریں گے۔

اجلاس میں مردان یونیورسٹی کے افسوسناک واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کیا گیا اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے اس کا فوری نوٹس لے لیا ہے جس سے اصل حالات و حقائق تک پہنچنے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی مؤثر اور قابل اعتماد صورتحال سامنے آئی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ قوم اس سلسلہ میں صحیح حقائق سے جلد آگاہ ہوگی۔

اجلاس میں اس رائے کا بھی اظہار کیا گیا کہ توہین رسالتؐ اور توہین مذہب بلاشبہ سنگین ترین جرم ہے جس کے لیے مروجہ قوانین پر نظرثانی قابل قبول نہیں ہے بلکہ ان پر عملدرآمد ضروری ہے۔ مگر توہین رسالتؐ اور توہین مذہب کا کسی پر غلط الزام لگانا بھی اسی طرح سنگین ترین جرم ہے جس کی روک تھام کے لیے پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کے ساتھ حسب ضرورت قانون سازی کی جانی چاہیے۔ اور اس کے ساتھ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس نازک مسئلہ پر میڈیا کے کردار اور طرزعمل کا بھی سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے میڈیا کے مختلف شعبوں اور دائروں کو ضروری قیود و حدود کا پابند بنائے تاکہ ایسے مواقع پر رائے عامہ کو افراتفری اور خلفشار کے ماحول سے بچانے کا اہتمام کیا جا سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter