گزشتہ ماہ کے دوران خوشاب اور کراچی میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (جونیجو گروپ) اور جمعیۃ العماء پاکستان کے سربراہوں سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو اور مولانا شاہ احمد نورانی پر جو قاتلانہ حملے کیے گئے ہیں وہ انتہائی قابل مذمت اور بزدلانہ حرکات ہیں اور ضیاء الحق کی سیاسی شرافت کے امین اور دعویدار نگران حکومتوں کے چہرے پر کلنک کے سیاہ دھبے ہیں۔ سیاسی اختلاف کی وجہ سے سیاسی قائدین پر اس طرح حملے کروانا اور پھر تحقیقات میں مداخلت کرنا کسی طرح مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ سیاسی اور جمہوری عمل کی نفی ہے۔
حکمران طبقہ کو سیاست کا شوق ضرور پورا کرنا چاہیے اور ’’ادھار کی وزارتوں‘‘ سے خوب لطف اٹھانا چاہیے مگر عارضی سہاروں کے چھننے کے خوف سے اس طرح کی کارروائیاں کروانا ملک میں نفرت کے جذبات ابھارنے کا باعث بنتی ہیں۔ ان حالات میں جبکہ سیاسی فضا میں شکوک و شبہات، ابہام اور غیر یقینی کیفیت مسلط ہے، نگران حکمرانوں کو صرف نگران ہی رہنا چاہیے اور سیاسی راہنماؤں کو بھی اپنا فرض پہچاننا چاہیے۔ حالات کو جس رخ پر لے جایا جا رہا ہے یہ کسی بھی ملک و ملت کے مفاد میں نہیں ہو سکتے۔
کراچی کے واقعہ کے بعد جس طرح خونریزی فسادات ہوئے ہیں ان سے مستقبل کی بھیانک، خونی اور خطرناک سیاسی کیفیت بآسانی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگر حالات یہی رہے تو ملک کی سلامتی خدانخواستہ داؤ پر لگ سکتی ہے۔ اس لیے سیاست اور حکومت کو ہی مطمع نظر بنانے کی بجائے اسلام اور ملک کو سب پر ترجیح دینا ہوگی۔ اگر ہم اسلام اور ملک کو اپنا مرکز و محور بنا لیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ سیاسی تخریب کاریاں رک سکتی ہیں، بھیانک مستقبل ٹل سکتا ہے اور حالات خوشگوار رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ اب سوچیے نہیں بلکہ کیجئے اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات سدھائیے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے سنگین حالات
ڈیرہ اسماعیل خان صوبہ سرحد کا حساس اور اہم ڈویژن مرکز ہے۔ یہاں ایک عرصہ تک خونریز شیعہ سنی فسادات ہوتے رہے ہیں، کئی سال کی خونریزی کے بعد سنی اور شیعہ نمائندوں کی رضامندی، کمشنر اور انتظامیہ کے دیگر افسران کی موجودگی میں ایک متفقہ معاہدہ طے پایا جس کے تحت اندرون شہر جلوسوں پر پابندی لگا دی گئی۔ شیعہ فرقہ نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے کے باوجود اس کی خلاف ورزی شروع کر رکھی ہے اور ایک بے مقصد اور بلاجواز جلوس کو ’’مذہبی جلوس‘‘ قرار دے کر خونریزی کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی نئی قیادت نے اس سلسلہ میں ڈیرہ اسماعیل خان میں باقاعدہ ملک گیر جلوس نکالنے کا پروگرام دیا۔ ہم شیعہ فرقہ کی اس ہٹ دھرمی اور بے مقصد و بلاجواز جلوس نکالنے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان ہی نہیں پورے ملک میں ہر قسم کے مذہبی جلوسوں پر پابندی لگائی جائے، ڈیرہ اسماعیل خان کے گرفتار علماء کرام کو رہا کیا جائے اور متفقہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کو قرار واقعی سزا دی جائے کیونکہ اسی صورت میں امن و امان برقرار رہ سکتا ہے۔