ناموسِ رسالتؐ کے قانون پر نظر ثانی؟

   
۳۱ جنوری ۲۰۱۶

مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کی تبدیلی برداشت نہیں کی جائے گی، البتہ اس کے غلط استعمال کی روک تھام ضروری ہے اور اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بات اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل توہین رسالتؐ کے قانون پر نظر ثانی کے لیے تیار ہے مگر اس کے لیے حکومت یہ مسئلہ باقاعدہ طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوائے۔ پروفیسر ساجد میر صاحب نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ مولانا محمد خان شیرانی کو نظر ثانی کی بات کرتے ہوئے یہ وضاحت کرنی چاہیے تھی۔

جہاں تک توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون ہے، یہ مسلمانوں کے دین و ایمان کا مسئلہ ہے اور اس پر امت مسلمہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں متفق ہے کہ توہین رسالتؐ کے سنگین جرم کی سزا موت ہے۔ اسی اجماعی عقیدہ کی بنیاد پر پاکستان میں توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون نافذ ہے جو دنیا بھر کے سیکولر حلقوں بالخصوص اقوام متحدہ، یورپی یونین اور مغربی ممالک و اداروں کی طرف سے مسلسل ہدف تنقید بنا ہوا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی سیکولر لابیوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون آزادیٔ رائے کے انسانی حق کے منافی ہے جس کی اقوام متحدہ کے حقوق کے چارٹر میں ضمانت دی گئی ہے اور اس چارٹر پر پاکستان سمیت کم و بیش تمام مسلم حکومتوں کی طرف سے بارہا اتفاق کا اظہار کیا جا چکا ہے۔

مغربی حکومتیں اور ادارے اس قانون کو صرف تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے بلکہ اسے منسوخ کرانے کے لیے ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہیں۔ اور پاکستان پر یہ دباؤ مسلسل بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ اس قانون کو ختم کر دے یا ترامیم کے ذریعہ غیر مؤثر بنا دے۔ ملک کے اندر بعض سیکولر حلقوں اور دانشوروں کا موقف بھی یہی ہے اور وہ اسے ختم کرانے کی مہم میں بین الاقوامی سیکولر حلقوں کے ساتھ شریک و معاون ہیں۔

ملک کے دینی حلقوں اور عوام کی طرف سے اس موقف اور دباؤ کو بارہا مسترد کیا جا چکا ہے۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر ملی یکجہتی کونسل کی تحریک پر جب اس کی قیادت مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، قاضی حسین احمدؒ ، مولانا سمیع الحق اور مولانا معین الدین لکھویؒ جیسے سرکردہ علماء کرام کے ہاتھ میں تھی، پاکستان کے عوام نے ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کر کے اس حوالہ سے اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا تھا۔ ایک سے زائد بار ایسا ہو چکا ہے کہ توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کو تبدیل کرنے کی بات کسی بھی طرف سے سامنے آئی تو تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور جماعتوں نے متحد ہو کر اس کا متفقہ جواب دیا۔ چنانچہ اب تک ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی اور آئندہ بھی پاکستانی عوام کی دینی حمیت اور غیرت کے سامنے ایسی کسی کوشش کا کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کو ختم کر دیا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے اور پاکستان کے عوام خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں اسے قبول نہیں کریں گے۔

ہمارا خیال یہ ہے کہ مولانا محمد خان شیرانی بھی نظر ثانی کی بات اس حوالہ سے نہیں کر رہے، اس لیے پروفیسر ساجد میر کی طرح ہمارا بھی ان سے تقاضہ یہی ہے کہ وہ اس کی وضاحت کریں اور دو ٹوک یہ اعلان کریں کہ نظر ثانی موت کی سزا پر نہیں بلکہ قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے کی جا سکتی ہے۔

جس طرح یہ بات قطعی طور پر غیر متنازعہ ہے کہ توہین رسالتؐ کی سزا بہرحال موت ہے جسے کسی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح یہ بات بھی اب متنازعہ نہیں رہی کہ ہمارے ہاں اس قانون کا استعمال بہت سے مواقع پر ناجائز ہوتا ہے۔ متعدد شواہد ایسے موجود ہیں کہ اپنے مخالفین کو خواہ مخواہ پھنسانے کے لیے اس قانون کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ بیسیوں مقدمات ایسے ریکارڈ پر ہیں جو خود مسلمانوں کے باہمی مسلکی مشاجرات و تنازعات کے پس منظر میں ایک دوسرے کے خلاف درج کرائے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ صورت حال صرف توہین رسالتؐ کے قوانین کے بارے میں نہیں بلکہ دفعہ ۳۰۲ اور دیگر سنگین سزاؤں کے قوانین کے حوالہ سے بھی موجود ہے لیکن توہین رسالتؐ کے الزام کے ساتھ مذہبی عقیدت اور نفرت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس کی سنگینی دوسرے قوانین کے غلط استعمال سے بڑھ جاتی ہے اور بعض اوقات امن عامہ بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

چنانچہ قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے یہ مسئلہ اسلامی نظریاتی کونسل میں زیر بحث آتا ہے تو اسے ہدف تنقید بنانے کی بجائے اس کی حمایت کرنی چاہیے اور مل جل کر اس کا رخ صحیح رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بلکہ ہمیں ہر کام کے لیے ریاستی اور دستوری اداروں کی طرف رجوع کرنے اور سارے معاملات انہی کے حوالے کر دینے کی روش کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔ اور دینی جماعتوں کو اپنے طور پر بھی اس الجھن کا حل نکالنے کی کوئی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ یہ امر واقعہ ہے کہ توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کا بہت سے مواقع پر غلط استعمال ہوتا ہے جس سے خود قانون کی افادیت طنز و تشنیع کا نشانہ بن جاتی ہے اور دینی حلقوں کی بدنامی ہوتی ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل اس پر غور کرتی ہے یا نہیں، یہ ؂ ’’رموز مملکت خویش خسرواں دانند ‘‘ کے دائرہ کی بات ہے۔ البتہ محترم پروفیسر ساجد میر سے ہم یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خود پیش رفت کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کے سنجیدہ علماء کرام کا اجلاس طلب کریں اور اس بات کا اہتمام کریں کہ ملک بھر میں اس قانون کے تحت مقدمات کا ڈیٹا جمع کر کے اس کے اعداد و شمار قوم کے سامنے لائیں، اور جید علماء اور سینئر وکلاء کی کمیٹی ان کا جائزہ لے کر یہ رائے دے کہ کیا واقعی اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے؟ اگر ہو رہا ہے تو اس کی روک تھام کے لیے مناسب تجاویز اور طریق کار بھی تجویز کرے۔

توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے متفقہ موقف کو چھیڑے بغیر باقی حوالوں سے اس میں کیا تبدیلیاں ضروری ہیں یا ہو سکتی ہیں؟ اگر اسلامی نظریاتی کونسل یا دینی جماعتوں کا کوئی غیر سرکاری فورم اس پر غور و فکر کے لیے تیار ہو تو ہم بھی اس سلسلہ میں کچھ تجاویز پیش کرنا چاہیں گے، بشرطیکہ یہ جائزہ سنجیدگی کے ساتھ علمی اور تحقیقی ماحول میں لیا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter