حضرت شیخ الہند اور نظریہ عدمِ تشدد

   
تاریخ : 
۳۱ مارچ ۲۰۱۲ء

مولانا فضل الرحمان پشاور میں بھرپور ’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ کے انعقاد کے بعد اب ۳۱ مارچ کو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں شیخ الہند سیمینار کے عنوان سے مورچہ زن ہو رہے ہیں جبکہ مولانا سمیع الحق ’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ کے محاذ کو مسلسل گرم رکھے ہوئے ہیں اور گزشتہ روز پارلیمنٹ کے سامنے دفاع پاکستان کونسل نے نیٹو سپلائی کی ممکنہ بحالی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر کے ارکان پارلیمنٹ کو عوامی جذبات سے آگاہ کرنے کا اہتمام کیا ہے۔

گزشتہ دنوں لاہور میں علمائے کرام کی ایک محفل میں راقم الحروف نے عرض کیا کہ دینی جماعتوں خاص طور پر مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق کی ان عوامی سرگرمیوں سے مغرب کو ایک ایسا پیغام بروقت مل رہا ہے جس کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ پاکستان کے عوام افغانستان اور پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں مغربی قوتوں کے تمام تر عسکری دباؤ کے باوجود اسلام اور پاکستان کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ پر قائم ہیں اور ملک کے اندر برسراقتدار قوتوں کی منافقت کی پرواہ کیے بغیر وہ اسلام اور پاکستان کے حوالے سے اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں اس خطہ میں مغرب کی عسکری یلغار سے پہلے تھے اور اس بات نے مغرب کے دانشوروں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔

شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی یاد میں ملک کے مختلف علاقوں میں اجتماعات کا انعقاد فکری بیداری کی علامت ہے اور جنوبی ایشیا میں شیخ الہند نے جس فکر اور شعور کی آبیاری کی تھی اس کی طرف دیوبند کے فرزندوں کا رجوع اطمینان دلا رہا ہے کہ حالات کے اتار چڑھاؤ اور معروضی سیاست کے تقاضوں کی دھند شاید چھٹنے لگی ہے اور نئی نسل کو دیوبند کے اصل فکر اور مشن سے روشناس کرانے کا ذوق دھیرے دھیرے بیدار ہو رہا ہے۔ اس موقع پر حضرت شیخ الہند کی خدمات و افکار کے حوالہ سے ایک تاریخی سوال کا جائزہ لینا مناسب سمجھ رہا ہوں کہ کیا مالٹا کی اسارت سے واپسی پر حضرت شیخ الہند نے آزادی کی جنگ سے دستبرداری اختیار کر لی تھی؟ بہت سے دوست جب یہ دیکھتے ہیں کہ چار سال قبل جب حضرت شیخ الہندؒ نے ہندوستان سے حجاز مقدس کی طرف سفر کیا تھا تو وہ برطانوی سی آئی ڈی کی رپورٹوں کے مطابق ان ’’جنور ربانیہ‘‘ کے کمانڈر انچیف تھے جو پورے برصغیر میں انگریزی اقتدار کے خلاف مسلح بغاوت کے لیے منظم کیے گئے تھے، وہ اس مسلح بغاوت کے منصوبے میں عالمی قوتوں کا تعاون حاصل کرنے کے مشن میں خلافت عثمانیہ کے عہدیداروں سے بات چیت کے لیے حجاز مقدس گئے تھے اور انہوں نے ترک حکمرانوں سے بات چیت بھی کر لی تھی لیکن شریف مکہ کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت نے ساری صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ حضرت شیخ الہندؒ کو گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیا گیا اور انہوں نے مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، مولانا عزیر گل اور دیگر رفقاء کے ہمراہ مالٹا کے جزیرہ میں ساڑھے تین سال کے لگ بھگ عرصہ نظربندی کی حالت میں گزارا۔ لیکن جب وہاں سے واپس ہندوستان واپس آئے تو عدم تشدد کے علمبردار کے طور پر متعارف ہوئے اور انہوں نے آزادیٔ وطن کے لیے کام کرنے والوں کو پر امن اور عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کا راستہ دکھانا شروع کر دیا۔ جبکہ حضرت شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد ان کی سیاسی جدوجہد کے جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کی قیادت میں شیخ الہند کے کم و بیش سب ہی شاگردوں نے آزادی کی تحریک کو عدم تشدد کے دائرے میں آگے بڑھایا بلکہ تشدد کو اپنی تحریک کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ قرار دیا۔

یہ صورتحال دیکھ کر ایک عام اور سطحی ذہن کے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ کیا یہ تبدیلی جنگِ آزادی سے دستبرداری تھی اور کیا حضرت شیخ الہندؒ نے عسکری جدوجہد کو ترک کر کے برطانوی اقتدار کو عملاً قبول کر لیا تھا؟ ہمارے اس خطہ کو آج جس صورتحال کا سامنا ہے اس کے پیش نظر اس سوال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا اور اس کا جواب تلاش کرنا اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ کی جانب سے عسکری طریق جدوجہد کو ترک کرنا جنگ آزادی سے دستبرداری نہیں تھی بلکہ صرف مورچے اور طریق کار کی تبدیلی تھی اور انقلاب کے لیے وقت کے سب سے مؤثر ہتھیار کو اختیار کرنا تھا۔ کیونکہ عدم تشدد کا پرامن راستہ اختیار کرنے کے بعد برطانوی حکمرانوں کے ساتھ عدم تعاون، ترک موالات اور سول نافرمانی کی جو تحریکیں حضرت شیخ الہندؒ کے حلقہ نے اس خطہ میں منظم کیں وہ اس بات کی گواہ ہیں کہ فرنگی اقتدار کو قبول نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے تسلط کے سامنے سرنڈر ہونے کی بات کی گئی بلکہ فرنگی تسلط اور اقتدار سے گلوخلاصی کے لیے عدم تعاون، عدم تشدد اور رائے عامہ کو منظم و بیدار کر کے اسٹریٹ پاور کو حکمرانوں کے سامنے کھڑا کرتے ہوئے انہیں پسپائی پر مجبور کیا گیا۔

یہ بات ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن تاریخی حقیقت ہے کہ انقلاب فرانس کے بعد کبھی بھی بالادست قوت کو صرف عسکری جدوجہد کے ذریعے میدان سے ہٹانے کا طریق کار اس سے پہلے کے دور کی طرح مؤثر نہیں رہا، حتیٰ کہ آزادی کی جنگوں میں بھی عسکری مزاحمت کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کی قوت اور اسٹریٹ پاور ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر سامنے آئی ہے بلکہ عسکری مزاحمت کے ذریعے کی جانے والی تحریکات نے بالآخر نتائج وصول کرنے کے لیے سیاسی مذاکرات ہی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ جس طرح ویت نام میں امریکی تسلط کے خلاف عسکری مزاحمت کرنے والے حریت پسندوں ویت کانگ نے ایک حد تک عسکری جدوجہد کے بعد مقاصد کے حصول میں کامیابی تک سیاسی مذاکرات اور رائے عامہ کی قوت کے ذریعے ہی رسائی پائی۔

حضرت شیخ الہندؒ نے عدم تشدد کو اپنا ہتھیار قرار دے کر سیاسی جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیا تھا اس راستے سے نہ صرف برصغیر پاک و ہند نے برطانوی استعمار کے تسلط سے نجات حاصل کی بلکہ میں عصر حاضر کی دو اور تحریکوں کا حوالہ بھی دینا چاہوں گا جنہوں نے عدم تشدد اور اسٹریٹ پاور کی پر امن جدوجہد کے ذریعے عظیم کامیابیاں حاصل کیں۔ امریکہ میں سیاہ فام آبادی صدیوں سے گوروں کے مظالم کا شکار چلی آرہی تھی حتیٰ کہ اب سے صرف نصف صدی قبل تک سیاہ فاموں کو گوروں کے برابر سیاسی اور معاشرتی حقوق حاصل نہیں تھے۔ وہ ووٹ کے حق سے محروم تھے، ہوٹلوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور پبلک بسوں میں قانونی طور پر انہیں مخصوص جگہوں پر بیٹھنا پڑتا تھا اور وہ گوروں کے ساتھ بیٹھنے کے مجاز نہیں تھے۔ اس صورتحال کے خلاف بغاوت کا پرچم ایک مسیحی مذہبی رہنما مارٹن لوتھر کنگ نے بلند کیا اور تحریک کا نقطۂ آغاز بظاہر ایک چھوٹا سا واقعہ ثابت ہوا کہ ایک سیاہ فام لڑکی بس پر سوار ہوئی اور سیاہ فاموں کی سیٹوں میں جگہ نہ پا کر سفید فاموں کے لیے مخصوص حصے میں ایک خالی سیٹ پر بیٹھ گئی، اسے وہاں سے ہٹنے کے لیے کہا گیا تو اس نے انکار کر دیا، اس پر پولیس نے اسے گرفتار کر لیا جس کے خلاف احتجاج کی تحریک مارٹن لوتھر کنگ کی قیادت میں اس قدر آگے بڑھی کہ سیاہ فاموں نے واشنگٹن ڈی سی میں ملین مارچ کا اہتمام کر کے ۱۹۶۴ء کے دوران امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو مجبور کر دیا کہ وہ مارٹن لوتھر کنگ کے ساتھ مذاکرات کریں اور سیاہ فاموں کو گوروں کے برابر شہری حقوق دینے کا اعلان کریں۔

دوسرا واقعہ بھی ہمارے سامنے کا ہے کہ ایران میں بادشاہت کے خلاف مذہبی طبقے نے بغاوت کی اور عسکری مزاحمت کی بجائے عدم تشدد اور عدم تعاون کے پرامن ہتھیاروں کے ساتھ کم و بیش سترہ سال جدوجہد کر کے ایرانی بادشاہت کو اسٹریٹ پاور کے ذریعے بوریا بستر گول کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایرانی انقلاب کی مذہبی حیثیت سے قطع نظر طریق انقلاب کے حوالہ سے ایرانی علماء کی جدوجہد کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے تعلیمی اداروں پر توجہ دی، اس کے بعد رائے عامہ کو اپنے حق میں کر کے ہر شہر میں لاکھوں عوام کو بادشاہت کے جبر و ستم کے سامنے لاکھڑا کر دیا اور انقلاب بپا کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔

یہ سبق دراصل حضرت شیخ الہندؒ کا تھا کہ انہوں نے مالٹا سے واپسی پر علی گڑھ یونیورسٹی کا رخ کیا اور وہاں کے تعلیمی و نظریاتی ماحول کو تبدیل کرنے کی محنت کی جس کے نتیجے میں تحریک آزادی کو مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مفتی کفایت اللہ دہلوی، اور مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ جیسے جید علمائے کرام کے ساتھ حکیم اجمل خان مرحوم، ڈاکٹر انصاری مرحوم، مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ، مولانا ظفر علی خانؒ اور چودھری افضل حق مرحوم جیسے بیدار مغز راہنما میسر آئے اور دونوں طبقوں کی مشترکہ جدوجہد نے آزادی کی راہ ہموار کی۔

حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے دور میں عسکری مزاحمت کا راستہ بھی اختیار کیا جس کی جھلک ہم افغانستان کے جہاد آزادی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں کہ افغان مجاہدین نے برطانوی و روسی استعمار کو شکست دینے کے بعد امریکی استعمار کو بھی واپسی کا راستہ تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک کے ثمرات ہیں لیکن یہ بات بھی تحریک شیخ الہندؒ کے قائدین کے پیش نظر تھی کہ جنوبی ایشیا کے دیگر خطوں کے عوام سے وہ توقع رکھنا عبث ہے جو افغانستان میں ہر دور میں پوری ہوئی ہے۔ اس لیے انہوں نے حالات کا صحیح اندازہ کرتے ہوئے برصغیر پاک و ہند میں آزادی اور نفاذ شریعت کے لیے عدم تشدد کی پر امن تحریک کا راستہ اختیار کیا اور اسی راستہ پر یہ جدوجہد اب تک آگے بڑھ رہی ہے۔ شیخ الہندؒ کی پر امن جدوجہد کا مطلب حالات کو قبول کر لینا اور اس کے ساتھ ایڈجسٹ ہو جانا نہیں بلکہ مزاحمت کے جذبے کو برقرار رکھتے ہوئے تبدیلی کی پر امن سیاسی محنت کرنا ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ اس مزاحمت کے لیے عسکریت کا مظاہرہ ضروری نہیں بلکہ اس معاملے میں عدم تشدد اور رائے عامہ کی قوت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter