روزنامہ جنگ لندن ۹ ستمبر ۱۹۸۷ء کی ایک خبر کے مطابق جنیوا میں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں حال ہی میں جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں گزشتہ دسمبر میں کمیشن کے ارکان کے دورۂ پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے اقلیتوں کے بارے میں امتیازی قوانین کا ذکر کیا گیا اور خاص طور پر قادیانی مسئلہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ
’’۱۹۷۴ء میں ایک آئینی ترمیم کے تحت غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد سے اقلیتی احمدی فرقہ کی مذہبی آزادی میں زبردست کمی ہوئی ہے۔‘‘
اس سے قبل بھی جنیوا کے انسانی حقوق کمیشن نے اسی مسئلہ پر اسی نوعیت کی رائے اپنی ایک قرارداد کی صورت میں جاری کی ہے اور سالِ رواں کے آغاز میں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کی فوجی و اقتصادی امداد کو شرائط کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے احمدیوں کے خلاف ان اقدامات کے خاتمہ کی ضمانت طلب کی ہے جن میں مبینہ طور پر قادیانیوں کے انسانی حقوق پر زد پڑتی ہے۔
قادیانیوں کے بارے میں ۱۹۸۴ء میں جاری ہونے والے ایک صدارتی آرڈیننس کے بعد عالمی سطح پر قادیانیوں کے اس پراپیگنڈا میں بہت زیادہ تیزی آئی ہے کہ پاکستان میں ان کے حقوق ختم کیے جا رہے ہیں اور ان کی مذہبی آزادی کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ اس یکطرفہ پراپیگنڈا کو گوئبلز کے فارمولا کے مطابق اس تسلسل کے ساتھ وسعت دی جا رہی ہے کہ مسئلہ کی اصل نوعیت کی طرف توجہ کی ضرورت تک محسوس نہیں کی جا رہی، اور انصاف کے علمبردار عالمی ادارے اس سلسلے میں دوسرے فریق کا موقف معلوم کیے بغیر قادیانیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں غلط طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ قادیانی مسئلہ میں قادیانیوں کے خلاف دوسرا فریق حکومتِ پاکستان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی حکومتیں اور عالمی ادارے اس مسئلہ کو حکومتِ پاکستان اور قادیانیوں کے درمیان تعلقات کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔
جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم اور ۱۹۸۴ء کا صدارتی آرڈیننس دونوں اس وقت کی حکومتوں کی اپنی پالیسیوں کا حصہ نہیں تھے، بلکہ ملک کے دینی و عوامی حلقوں کے مسلسل مطالبہ اور دباؤ کے نتیجہ میں ان اقدامات پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اسی لیے یہ حکومتیں نہ تو ان آئینی و قانونی اقدامات پر عملدرآمد کی طرف کوئی مؤثر پیشرفت کر سکی ہیں، اور نہ ہی انہیں عالمی سطح پر قادیانیوں کے حق میں وسیع پیمانے پر ہونے والے یکطرفہ پروپیگنڈا کا جواب دینے کی ضرورت کبھی محسوس ہوئی ہے۔ ان حکومتوں کی اسی تذبذب اور گومگو کی پالیسی نے بیرونی حکومتوں اور عالمی اداروں کے لیے اس بات کی راہ ہموار کی ہے کہ وہ قادیانیوں کے یکطرفہ پراپیگنڈا کو صحیح سمجھتے ہوئے ان کی خودساختہ مظلومیت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے چلے جائیں۔
اس مسئلہ میں اصل فریق پاکستان کے عوامی اور دینی حلقے ہیں جنہوں نے مسلسل جدوجہد، قربانیوں اور کشمکش کے بعد حکومتِ پاکستان کو ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم اور ۱۹۸۴ء کے صدارتی آرڈیننس پر مجبور کیا ہے۔ اور وہ نہ صرف ان اقدامات پر مؤثر عملدرآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ انہیں ناکافی قرار دیتے ہوئے مزید ایسے اقدامات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو اس مسئلہ کے حل کے لیے منطقی اور اصولی طور پر ضروری ہیں۔ مگر قادیانی مسئلہ میں قادیانیوں کی حمایت کرنے والی حکومتوں اور عالمی اداروں نے آج تک یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ اس سلسلہ میں اصل فریق کا نقطۂ نظر بھی معلوم کریں، اور دونوں فریقوں کا موقف سامنے رکھ کر اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔
اسی امر سے صورتحال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق کمیشن کا چار رکنی وفد دسمبر ۱۹۸۶ء میں پاکستان گیا ہے اور اس کے دورۂ پاکستان کی رپورٹ کی بنیاد پر کمیشن نے یہ رپورٹ جاری کی ہے۔ لیکن کمیشن کے اس چار رکنی وفد نے قادیانی مسئلہ کے بارے میں اصل فریق سے رابطہ تک کی ضرورت محسوس نہیں کی، جو اس مسئلہ کے بارے میں قیامِ پاکستان کے بعد سے مسلسل جدوجہد کر رہا ہے اور اس کے لیے اپنے ہزاروں کارکنوں اور حامیوں کے قیمتی خون اور جانوں کا نذرانہ دے چکا ہے۔
پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف ایک مستقل جماعت ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے نام سے کام کر رہی ہے اور تمام دینی مکاتبِ فکر کی ایک مشترکہ تنظیم بھی ’’کل جماعتی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ مگر انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے چار نمائندوں نے اپنے دورۂ پاکستان کے موقع پر ان تنظیموں کے راہنماؤں میں سے کسی کے ساتھ ملاقات نہیں کی اور نہ ہی ان کا موقف معلوم کرنے کی کوئی کوشش کی ہے۔ بلکہ صرف قادیانیوں کی فراہم کردہ معلومات، یا زیادہ سے زیادہ حکومتِ پاکستان کے بعض افسران کی چند باتوں پر اکتفا کر کے انہوں نے قادیانی گروہ کو مظلومیت کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے، جو نہ صرف یکطرفہ کارروائی ہے بلکہ انصاف کے اصولوں کے یکسر منافی ہے۔
اس اصولی گزارش کے ساتھ اگر مسئلہ کی اصل نوعیت پر ایک نگاہ ڈال لی جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ ’’قادیانی مسئلہ‘‘ کے حوالہ سے حکومتِ پاکستان کے جن اقدامات کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے اور جن کی بنیاد پر قادیانیوں کی ’’مذہبی آزادی میں زبردست کمی‘‘ کا الزام عائد کر کے مذکورہ بالا رپورٹ میں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے یہ قرار دیا ہے کہ
’’مذہبی اقلیتوں کے حقوق ناجائز طور پر کم کر دیے گئے ہیں۔‘‘ (بحوالہ جنگ لندن ۹ ستمبر ۱۹۸۷ء)
وہ اقدامات دو ہیں:
ایک ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم جس کے ذریعے پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے دستور میں متفقہ ترمیم کرتے ہوئے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک نئی امت کی حیثیت دے کر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ہے۔
اور دوسرا ۱۹۸۴ء کا صدارتی آرڈیننس ہے جس کے ذریعے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک نئی امت ہونے کی وجہ سے اسلام کا نام اور مسلمانوں کے مخصوص مذہبی شعائر مثلاً کلمہ طیبہ، مسجد، اذان وغیرہ کے استعمال سے قانوناً روک دیا گیا ہے۔ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ ۱۹۸۴ء کے اس صدارتی آرڈیننس کی توثیق کر چکی ہے۔ اور ملک کے اندر جن قادیانیوں کی گرفتاریوں اور مقدمات وغیرہ کا عالمی پریس میں مسلسل پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ قادیانی گروہ کے افراد اس قانون کی عملاً خلاف ورزی کر رہے ہیں، اور قانون کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف بعض مقامات پر مقدمات کے اندراج اور گرفتاریوں کی نوبت آ جاتی ہے۔
جہاں تک قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک نئی امت کی حیثیت سے غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مسئلہ ہے، یہ ایک اصولی بات ہے کہ قادیانی گروہ ایک نئی نبوت پر ایمان لانے کے بعد مسلمانوں میں شامل نہیں رہے۔ اور وہ اس ملتِ اسلامیہ کے وجود کا حصہ قطعاً نہیں ہیں جو اس وقت ایک ارب کی تعداد میں دنیا میں موجود ہے۔ اس سلسلہ میں یہ دلیل بالکل بے بنیاد اور غیر معقول ہے کہ چونکہ قادیانی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نبی مانتے ہیں اور ان کی شریعت کے اکثر حصے کو تسلیم کرتے ہیں، اس لیے وہ مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں اور انہیں غیر مسلم قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
کیونکہ یہ بالکل ایسی بات ہو گی جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ عیسائی اگرچہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں لیکن چونکہ وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی نبوت کے بھی قائل ہیں بلکہ تورات کو بھی تسلیم کرتے ہیں، اس لیے وہ یہودیوں سے الگ ایک نئی امت نہیں ہیں اور انہیں یہودیوں کا ہی ایک حصہ تسلیم کرنا چاہیے۔
اس منطق کو دنیا کا کوئی ذی شعور انسان تسلیم نہیں کرے گا۔ کیونکہ اگرچہ یہ درست ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور تورات کو یہودی اور عیسائی دونوں مانتے ہیں، لیکن عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نبوت کے بھی قائل ہیں، جسے یہودی تسلیم نہیں کرتے۔ اس لیے دونوں الگ الگ امتیں ہیں، دونوں کے نام الگ ہیں، ان کا تشخص الگ الگ ہے، اور ان کے مذہبی شعائر و علامات ایک دوسرے سے قطعی جدا ہیں۔
بالکل اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کو مسلمان اور قادیانی دونوں مانتے ہیں، لیکن قادیانی حضرات نبوت کے ایک نئے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی پر بھی ایمان رکھتے ہیں جسے مسلمان حضرات تسلیم نہیں کرتے۔ اس لیے دونوں کو ایک امت قرار دینے کا کوئی اصولی، منطقی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے صراحت کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اسلام کے بعض بنیادی احکام کو منسوخ بھی قرار دیا ہے۔ اس لیے جو لوگ انہیں نبی مانتے ہیں یا اپنا مذہبی پیشوا تسلیم کرتے ہیں ان کا ملتِ اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اپنے لیے جو نام چاہیں پسند کر لیں، انہیں اس کا پورا پورا حق اور اختیار ہے، لیکن اسلام اور مسلمان کا نام ان سے پہلے چودہ سو سالہ تسلسل کے ساتھ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو چکا ہے، اس کے استعمال کی ان کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔
قادیانیوں اور مسلمانوں کا الگ الگ امت ہونا ایک ایسی واضح حقیقت ہے جسے دونوں فریق بیک وقت تسلیم کرتے ہیں۔ مسلمان قادیانیوں کو اپنے وجود کا حصہ تسلیم نہیں کرتے، اور قادیانی دنیا بھر کے ان ایک ارب کے قریب مسلمانوں کو اپنا مذہبی ساتھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو مرزا غلام احمد قادیانی کو غیر مسلم سمجھتے ہیں۔ اس حقیقت کا اظہار متعدد مواقع پر قادیانیوں کی طرف سے عملی طور پر ہو چکا ہے۔
۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم کے موقع پر جب پاکستان اور بھارت کے درمیان علاقوں کی تقسیم ہو رہی تھی تو ضلع گورداسپور کی پوزیشن، جہاں قادیان واقع ہے، یہ تھی کہ قادیانیوں کی آبادی کو توازن کی قوت حاصل تھی۔ وہ خود کو مسلمانوں کے ساتھ شامل کرتے تو یہ علاقہ مسلم اکثریت کا علاقہ قرار پا کر پاکستان میں شامل ہوتا۔ لیکن باؤنڈری کمیشن کے سامنے قادیانیوں نے اپنا موقف مسلمانوں سے الگ پیش کر کے اپنا وزن غیر مسلموں کے پلڑے میں ڈال دیا جس سے یہ علاقہ غیر مسلم اکثریت علاقہ قرار دے دیا گیا اور اسے بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ بھارت کو اسی سے کشمیر کے لیے راستہ ملا ورنہ اس کے پاس کشمیر تک پہنچنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ اور قادیانیوں کا یہی موقف کشمیر کا تنازعہ کھڑا ہونے اور پاکستان بھارت کے درمیان طویل کشیدگی اور خونریز جنگوں کا باعث بنا۔
اسی طرح قیام پاکستان کے بعد جب بانئ پاکستان محمد علی جناح مرحوم کا انتقال ہوا اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے ان کا جنازہ پڑھایا تو قائد اعظم کی کابینہ کے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ نے ان کا جنازہ نہیں پڑھا بلکہ وہ جنازہ کی صف سے الگ کھڑے رہے، اور ایک صحافی کے دریافت کرنے پر کسی ۔۔ کے بغیر کہا کہ ’’آپ مجھے ایک غیر مسلم حکومت کا مسلمان وزیر خارجہ، یا مسلمان حکومت کا غیر مسلم وزیر خارجہ سمجھ لیں‘‘۔ یہ اس حقیقت کا واضح اعتراف ہے کہ مسلمان اور قادیانی دو الگ الگ امتیں ہیں اور ان کے مذہب الگ الگ ہیں۔
۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم میں اسی مسلمہ حقیقت کو آئینی شکل دی گئی ہے اور آئین میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ مسلمان اور قادیانی الگ الگ امتیں ہیں اور قادیانی ایک نئے مذہب کے پیروکار کی حیثیت سے غیر مسلم اقلیت ہیں۔ دونوں فریقوں کے ہاں اس مسلمہ و مصدقہ حقیقت کو آئینی حیثیت دینے کے علاوہ اس آئینی فیصلہ کا منطقی تقاضہ یہ تھا کہ ان دونوں گروہوں کے نام اور اصطلاحات و علامات کو الگ الگ کر کے ان میں ایک ایسا خطِ امتیاز کھینچ دیا جاتا کہ کوئی اشتباہ باقی نہ رہ جائے۔
قادیانی مسلم تنازعہ سے ہٹ کر ایک عام کاروباری اور قانونی معیار کو سامنے رکھ لیا جائے تو بھی بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ایک فرم طویل عرصہ سے ایک نام اور ٹریڈمارک کے ساتھ کام کر رہی ہے، وہ اس نام اور ٹریڈ مارک کے ساتھ دنیا بھر میں متعارف ہے اور اس کی ساکھ اور بھرم قائم ہو چکا ہے۔ اس فرم میں سے کچھ لوگ الگ ہو کر نئی فرم قائم کرتے ہیں تو انہیں الگ نام اختیار کرنا ہو گا اور نیا ٹریڈمارک پیش کرنا ہو گا۔ پرانے نام اور ٹریڈمارک پر ان کا کوئی حق باقی نہیں رہا۔ اس لیے ان کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ نئی فرم کو ختم کر کے پرانی فرم میں واپس چلے جائیں اور اس کا نام اور ٹریڈمارک استعمال کریں۔ دوسرا یہ کہ اپنی فرم کے لیے نیا نام اور ٹریڈمارک اختیار کریں۔ اس کے علاوہ تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور اگر وہ نئی فرم کو قائم رکھتے ہوئے پرانی فرم کا نام اور ٹریڈمارک استعمال کریں گے تو ان کا یہ عمل قانون کی زبان میں فراڈ اور دھوکہ کہلائے گا، جس کی اجازت دنیا کے کسی ملک کا قانون نہیں دیتا۔
۱۹۸۴ء کے صدارتی آرڈیننس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اسلام کا نام اور مسلمان، کلمہ طیبہ، اذان، مسجد وغیرہ کی اصطلاحات چودہ سو سال سے مسلمانوں کے لیے مخصوص چلی آتی ہیں۔ قادیانی چونکہ مسلمانوں کے وجود کا حصہ نہیں ہیں اس لیے وہ اپنے لیے الگ نام اور اصطلاحات اختیار کریں۔ مسلمانوں کے نام اور اصطلاحات پر ان کا کوئی حق نہیں ہے، اور ان کے استعمال پر قادیانیوں کا اصرار دھوکہ اور اشتباہ کی ایک ایسی فضا قائم کر رہا ہے جس سے مسلمانوں کا ایک جائز اور قانون حق مجروح ہوتا ہے، اور وہ ہے اپنے مذہبی تشخص اور امتیاز کے تحفظ کا حق۔ جو صرف اسی صورت میں محفوظ رہ سکتا ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی نام اور مخصوص مذہبی علامات کو ان کے سوا اور کوئی گروہ استعمال نہ کر سکے۔
امریکی سینٹ کے ارکان اور انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والے عالمی ادارے اس پس منظر میں اگر قادیانی مسئلہ کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں گے تو انہیں اس امرِ واقعہ تک پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی کہ مسئلہ قادیانیوں کی مذہبی آزادی میں کمی یا ان کے مذہبی حقوق میں ناجائز مداخلت کا نہیں، بلکہ اس میں ایک طرف اپنے مذہبی تشخص اور امتیاز کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کا جائز قانونی اور اخلاقی حق ہے، اور دوسری طرف قادیانیوں کی ضد اور ہٹ دھرمی ہے کہ وہ مسلمانوں سے الگ ایک نئی امت ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کا نام اور ان کی مخصوص مذہبی علامات کے استعمال پر اصرار کر کے دھوکہ اور اشتباہ کی فضا قائم رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔
قادیانی اگر نئے مذہبی معتقدات اور نبوت کے نئے دعویدار سے بیزاری کا اعلان کر کے ملتِ اسلامیہ کے اجماعی عقائد کو تسلیم کرتے ہوئے مسلمانوں میں واپس آتے ہیں تو وہ ہمارے بھائی ہوں گے، بلکہ نئے مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ ہم سے بہتر مسلمان ہو سکتے ہیں، ہم انہیں سینے سے لگائیں گے اور اسلام کے لیے ان کے تجربات اور صلاحیتوں سے استفادہ کریں گے۔ لیکن اگر وہ نئے معتقدات اور نئی نبوت کے تصور پر قائم ہیں تو انہیں اپنے لیے الگ مذہبی نام اور مسلمانوں سے الگ مذہبی علامات و اصطلاحات بہرحال اختیار کرنا ہوں گی۔ اشتباہ اور دھوکہ کی فضا کو تکلفات اور تصنع کے سہارے زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ قادیانی راہنماؤں کو اس سیدھی سادی حقیقت کے ادراک کے لیے ذہنوں کے بند دریچے کھول دینے چاہئیں، اسی میں ان کے لیے سکون اور بہتر ہے اور یہی اس مسئلہ کا منطقی اور فطری حل ہے۔