دعا کی قبولیت کا اولین تقاضہ

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۱۲ اکتوبر ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ جب زخمی ہوئے اور علاج معالجہ کے بعد طبیبوں نے کہا کہ حضرت بظاہر کوئی امکان نہیں ہے، آپ نے جو وصیت وغیرہ کرنی ہے وہ کر لیں۔ دوستوں نے کہا، امیر المومنین حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنی جگہ آپ کو نامزد کیا تھا تو امت نے مان لیا تھا، آپ بھی کسی کو نامزد کر لیں، کسی کا اعلان فرما دیں کہ میرے بعد وہ امیر ہوگا تو لوگ مان لیں گے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں کسی ایک کو نہیں بلکہ چھ آدمیوں کو نامزد کرتا ہوں ۔ حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت سعید بن زیدؓ۔ فرمایا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ اُن لوگوں میں سے ہیں جب جناب نبی کریمؐ دنیا سے رخصت ہوئے تو ان چھ آدمیوں سے حضورؐ راضی خوش تھے۔ مشورہ کر کے ان میں سے کسی کو منتخب کر لیں۔

ان میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی تھے جنہیں کچھ عرصہ پہلے خود حضرت عمرؓ نے کوفہ کی گورنری سے واپس بلا لیا تھا۔ ذہن میں یہ بات آجاتی ہے کہ پہلے خود ان کو کوفہ کی گورنری سے الگ کیا تھا، اب امیر المومنین کے لیے نامزد کر رہے ہیں۔ ایسے موقع پر وضاحت ضروری ہوتی ہے، تو حضرت عمرؓ نے بات کی وضاحت فرمائی کہ دیکھو میں نے سعد بن ابی وقاصؓ کو ان کی کسی کوتاہی کی وجہ سے کوفہ کی گورنری سے الگ نہیں کیا تھا، بلکہ کچھ لوگ بڑے بیوقوف تھے کہ خوامخواہ ہر بات پہ اعتراض کرتے تھے، میں نے لوگوں سے ان کی عزت بچانے کے لیے احتراماً ان کو بلا لیا تھا۔

ہوا یوں تھا کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ گورنر بنے تو کچھ عرصے کے بعد شکایتیں آنا شروع ہو گئیں، یہ بزرگ آدمی تھے۔ حضرت عمرؓ نے انکوائری کمیشن بھیجا اور محمد بن مسلمہ انصاریؓ کو مقرر کیا کہ جا کر دیکھو، بڑی شکایتیں آرہی ہیں، آدمی تو اچھے ہیں، ہمارے بزرگ ہیں۔ محمد بن مسلمہؓ رسول اللہؐ کے زمانے میں بھی پولیس کے کاموں کے انچارج تھے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں بھی۔ میں ان کو اسلام کا پہلا آئی جی پولیس کہا کرتا ہوں۔ محمد ابن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کہا ٹھیک ہے انکوائری کرو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ انکوائری کا طریقہ یہ مقرر کیا کہ ہر مسجد میں حضرت سعدؓ کو ساتھ لے کر جاتے، نماز پڑھنے کے بعد کہتے کہ کوفہ والو! یہ تمہارے گورنر ہیں، امیر المومنین نے مجھے بھیجا ہے، کسی کو ان سے کوئی شکایت ہو تو بتاؤ۔

آخر میں ایک قبیلہ کی مسجد تھی، وہاں گئے تو ان میں سے ایک آدمی کھڑا ہو گیا کہ مجھے شکایت ہے کہ یہ ہمیں بیت المال سے حق پورا نہیں دیتے، لوگوں کو جہاد پر بھیجتے ہیں لیکن خود نہیں جاتے، اور نماز میں قرآن پاک صحیح نہیں پڑھتے۔ ظاہر بات ہے کہ جواب حضرت سعدؓ نے دینا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا مزاج جلالی تھا، فرمایا، میں کوئی صفائی نہیں دیتا۔ اس بندے سے حضرت سعد نے کہا، یا اللہ اگر یہ سچ بول رہا ہے تو آپ جانتے ہیں، اور اگر یہ جھوٹ بول رہا ہے تو پھر میں اس کے لیے تین دعائیں کرتا ہوں: یا اللہ اس کو لمبی عمر عطا فرما، لمبا فقر عطا فرما، اور اس کو عورتوں کے فتنے میں ڈال دے۔

حضرت عمرؓ کو جب پتہ چلا کہ بابا جی نے محسوس کر لیا ہے تو انہوں نے کہا کہ حضرت آپ واپس تشریف لے آئیں، یہ آپ کی سطح کے لوگ نہیں ہیں۔ جو راوی یہ روایت کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعدؓ تو واپس چلے گئے، میں نے اس آدمی کو، جس نے الزام لگائے تھے، اپنی زندگی میں خود دیکھا ہے کہ بوڑھا ہو گیا تھا، نوے پچانوے سال کی عمر تھی، لاٹھی کے سہارے بازاروں میں چلتا تھا، پلکیں ڈھلک کر آنکھوں پہ آگئی تھیں، ہر دروازے پر مانگتا پھرتا تھا اور راہ جاتی لڑکیوں کو چھیڑا کرتا تھا، اور وہ کہا کرتا تھا ’’انادعوۃُ سعدٍ‘‘ کہ میں سعدؓ کی بددعا ہوں، مجھے سعدؓ کی بددعا لگ گئی ہے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بعض بندے ایسے ہوتے ہیں جو دیکھنے میں کچھ بھی نظر نہیں آتے لیکن اللہ کے ہاں ان کا مقام یہ ہوتا ہے ’’لو اقسم علی اللہ لابرھم‘‘ اگر اللہ کا نام لے کر کوئی بات کہہ دیں تو اللہ پاک لاج رکھ لیتے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی زبانی میں نے سنا، جو یہاں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے امام تھے، فرمایا کہ باواجی عبد الحقؒ ہندو سے مسلمان ہوئے تھے، تلونڈی کھجور والی کے تھے، اس مسجد کے پچاس سال امام رہے ہیں اور حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے قرآن ان سے پڑھا تھا۔ ان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ مستجاب الدعوات ہیں، دور دور سے لوگ آتے تھے کہ ہمارے بارے میں کوئی کلمہ خیر کہہ دیں۔

تو خیر! حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں معروف تھا کہ کوئی بات کہہ دیتے تو اللہ پاک پوری فرما دیتے۔ یہ اللہ پاک کی طرف سے بعض لوگوں کا اعزاز ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک آدمی آیا اور کہا کہ حضرت! شہرت بھی ہے، تجربہ بھی ہے، مشاہدہ بھی ہے کہ آپ کوئی بات فرماتے ہیں، اللہ پاک پوری فرما دیتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ کوئی بھی مقام کسی کو مل جائے تو اس کے پیچھے کوئی وجہ ہوتی ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے حضرت بلال حبشیؓ سے پوچھا تھا کہ بلال! تو مدینے میں چل رہا تھا اور میں نے جنت میں تیرے قدموں کی چاپ سنی ہے، وجہ کیا ہے، تو کیا کرتا ہے؟ حضرت بلالؓ نے کہا کہ جو باقی کرتے ہیں وہی کرتا ہوں، ہاں ایک بات ہے کہ وضو کے نفل میں نے کبھی نہیں چھوڑے، تو حضورؐ نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے۔ حضرت سعدؓ سے بھی پوچھا گیا تو سوچ کر فرمانے لگے، اور تو کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی لیکن ایک بات ہے کہ الحمد للہ جب سے کلمہ پڑھا ہے اس وقت سے لے کر آج تک میرے حلق سے ایک لقمہ بھی ایسا نیچے نہیں اترا جس کے حوالے سے تسلی نہیں کی کہ کہاں سے آیا ہے اور کیسے آیا ہے؟

ویسے یہ بات کہنا بہت آسان ہے مگر عمل بہت مشکل ہے، ہم تو ایک دن کی تسلی نہیں دے سکتے کہ آج کے دن اس حلق سے ایک لقمہ بھی ایسا نیچے نہیں اترا جس کے حوالے سے معلوم نہ ہو کہ کہاں سے آیا ہے اور کیسے آیا ہے؟ اور حضرت سعدؓ زندگی کی تسلی دے رہے ہیں کہ جب سے کلمہ پڑھا ہے، یہ درمیان میں تقریباً‌ تیس پینتیس سال کا عرصہ بنتا ہے، کہ اس وقت سے لے کر آج تک حلق سے ایک لقمہ بھی ایسا نہیں اترا جس کے حلال ہونے کی تسلی نہ ہو۔ محدثین فرماتے ہیں کہ دعا کی قبولیت کا سب سے بڑا سبب حلال ہے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ بیت اللہ میں بڑے دور دور سے سفر کر کے آتے ہیں، سر کے بال بکھرے ہوئے، میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے، بیت اللہ کا غلاف پکڑ کر روتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں ’’مطعمہ حرامٌ، مشربہ حرامٌ، ملبسہ حرامٌ، اَنیٰ یستجاب لہ؟‘‘ لیکن کھانا ان کا حرام کا ہے، پینا ان کا حرام کا ہے، لباس ان کا حرام کا ہے، تو دعا کہاں سے قبول ہوگی؟

دعا کی قبولیت کے اسباب میں سب سے پہلے حلال ہے، جتنا حلال زیادہ ہوگا اتنی دعا کی قبولیت زیادہ ہوگی، اور جتنی حرام کی کثرت ہوگی اتنی دعا رد ہوگی اور اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگی۔ اللہ پاک ہمیں حلال کی روزی نصیب فرمائے اور دعاؤں کی قبولیت نصیب فرمائے، آمین، وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter