صدر جنرل پرویز مشرف کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل حامد جاوید نے گزشتہ روز ایک قومی روزنامہ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان نے اپنی بری افواج کے لیے ملکی ٹیکنالوجی سے انتہائی جدید بکتربند گاڑی ’’طلحہ‘‘ تیار کر لی ہے جس کی چند ہفتوں میں فوج کو ترسیل شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ دشمن کے علاقہ کو گھیرنے کی غرض سے حملہ آور سپاہ کو لے کر تیزی سے نقل و حرکت کے لیے ٹینکوں کے جلو میں آگے بڑھنے والی یہ گاڑی اپنی ساخت اور کارکردگی کے لحاظ سے مضبوط ترین جبکہ لاگت میں ارزاں ترین ہو گی اور وہ دنیا کے تیز ترین ٹینک سے دس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ تیز چل سکتی ہے۔
میدانِ جنگ میں دشمن کی طرف بڑھتے اور اس پر حملہ آور ہوتے ہوئے خود کو اس کے حملوں سے محفوظ رکھنے کا اہتمام بھی جنگی تکنیک کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ پرانے زمانہ میں جنگوں میں افراد کا آمنا سامنا ہوتا تھا تو اس کے لیے ڈھال، خود اور زرہ وغیرہ استعمال ہوتی تھیں۔ اب جنگ کا انداز بدلا ہے تو ان کی جگہ ٹینک، بکتربند گاڑیوں اور دوسرے دفاعی ہتھیاروں نے لے لی ہے۔ فلسطین کی ایک پرانی جنگ کا تذکرہ قرآن کریم میں ہے جس میں حضرت داؤد علیہ السلام جالوت نامی ظالم بادشاہ کے خلاف جنگ میں حضرت طالوتؒ کی زیرِ قیادت ایک سپاہی کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے اور جالوت ہی سے ان کا آمنا سامنا ہوا تھا۔ روایات میں ہے کہ جالوت سر سے پاؤں تک لوہے میں یعنی ’’بکتربند لباس‘‘ میں ڈوبا ہوا تھا، صرف آنکھوں کی جگہ دو سوراخ تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں ایک قسم کی غلیل تھی، انہوں نے تاک کر اس کی آنکھ کا نشانہ لیا تو غلیل کا پتھر آنکھ میں گھستے ہوئے سیدھا دماغ تک پہنچ گیا اور جالوت کا کام تمام ہو گیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم میں ہے کہ ان کے لیے لوہا نرم کر دیا گیا تھا اور وہ اپنے ہاتھ سے زرہیں بنایا کرتے تھے۔
زرہ اور ڈھال مختلف جنگوں میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی استعمال کیں اور روایات میں ہے کہ احد کی جنگ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو زرہیں نیچے اوپر لپیٹی ہوئی تھیں اور سر مبارک پر خود بھی تھا، حتیٰ کہ جب زخمی ہونے کے بعد ایک چٹان پر چڑھنا چاہا تو زرہ کے بوجھ کی وجہ سے نہ چڑھ سکے، اور حضرت طلحہؓ نے کندھے پر اٹھا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چٹان پر پہنچایا۔ انہی حضرت طلحہؓ کے نام پر پاکستان کی اس جدید ترین بکتربند گاڑی کا نام ’’طلحہ‘‘ رکھا گیا ہے۔
حضرت طلحہؓ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے ابتدائی آٹھ مسلمانوں میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کی بیان کردہ روایت کے مطابق حضرت طلحہؓ نے اپنے قبولِ اسلام کا دلچسپ قصہ یوں بیان کیا ہے کہ وہ تجارت کے ایک قافلہ کے ساتھ شام گئے ہوئے تھے کہ ایک مسیحی راہب کو دیکھا جو کہ مکہ مکرمہ سے آنے والے کسی شخص کو تلاش کر رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں مکہ مکرمہ سے آیا ہوں تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا احمد کا ظہور ہو گیا ہے؟ میں نے دریافت کیا کہ کون سا احمد؟ اس نے کہا کہ مکہ مکرمہ میں نبی آخر الزمان کا ظہور ہونے والا ہے جس کا نام احمد ہو گا اور اس کے ظہور کی علامتیں مکمل ہو گئی ہیں، اس لیے میں نے تم سے پوچھا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ مجھے تو کوئی علم نہیں ہے، مگر جب اس سفر سے مکہ مکرمہ واپس پہنچا تو لوگوں نے بتایا کہ محمد نامی نوجوان نے، جسے ہم امین کے لقب سے پکارا کرتے تھے، نبوت کا اعلان کر دیا ہے اور ابوبکرؓ اس کے پیروکار بن گئے ہیں۔ میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی اور آپ کی نبوت و رسالت کے بارے میں آگاہ کیا اور میں نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر ہی اسلام قبول کر لیا۔
حضرت طلحہؓ ان دس خوش قسمت ترین افراد میں سے ہیں جن کے جنتی ہونے کا اعلان جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر رسول پر ان کے نام لے کر کیا اور وہ خلافت راشدہ کی شوریٰ کے اہم ارکان میں شمار ہوتے تھے۔
غزوہ بدر کے موقع پر میدانِ بدر کی طرف روانگی سے قبل انہیں اور ان کے ساتھ حضرت سعید بن زیدؓ کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کے قافلہ کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھجوایا۔ وہ اپنے مشن سے واپس پہنچے تو غزوہ بدر رونما ہو چکا تھا اور جناب نبی اکرمؐ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی غنیمت سے حصہ عطا فرمایا۔
غزوہ احد میں حضرت طلحہؓ ان چند جان نثاروں میں تھے جنہوں نے شدید افراتفری میں اسلامی لشکر کے پاؤں اکھڑ جانے کے باوجود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑا اور موت کی بیعت کر کے نبی اکرمؐ کی حفاظت کے لیے ان کے ساتھ ڈٹ گئے۔ روایات میں ہے کہ حضرت طلحہؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کفار کی طرف سے ہونے والے ہر وار اپنے ہاتھ پر روکتے تھے، جس سے ان کا ہاتھ شل ہو گیا، لیکن وہ آقائے نامدارؐ کے دفاع کے لیے ڈٹے رہے اور رسول اکرمؐ کے لیے اپنے جسم کو ڈھال بنا کر وہ کام کیا جو ڈھال اور زرہ وغیرہ کیا کرتے تھے اور آج کے دور میں بکتربند گاڑی وہ کام کرتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ نئی بکتربند گاڑی بنانے والے باذوق پاکستانی ماہرین نے شائد اسی مناسبت سے اس حفاظتی گاڑی کا نام ’’طلحہ‘‘ رکھا ہے، جو انتہائی خوش آئند بات ہے اور اس سے نہ صرف برکت حاصل ہوگی، بلکہ اپنے شاندار ماضی اور عظیم اسلاف کے ساتھ پاک فوج کے جوانوں کا ذہنی اور قلبی تعلق بھی قائم رہے گا۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ’’الاصابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت طلحہؓ حضرت ابوبکرؓ کے داماد تھے اور ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی بہن حضرت ام کلثومؓ حضرت طلحہؓ کے نکاح میں تھیں۔ حضرت طلحہؓ جنگ جمل میں شہید ہوئے اور طبقات ابن سعد میں روایت ہے کہ شہادت کے کافی عرصہ بعد انہوں نے خواب میں اپنے آزاد کردہ غلام سے کہا کہ ان کی قبر کی جگہ تبدیل کی جائے انہیں پانی تنگ کر رہا ہے۔ اس شخص نے مسلسل تین دن یہی خواب دیکھا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے خواب بیان کیا، ان کے ارشاد پر قبر کھودی گئی تو واقعی ان کے جسم کے ساتھ قبر کی مٹی گیلی ہو چکی تھی۔ روایت میں ہے کہ کافی سال گزر جانے کے باوجود حضرت طلحہؓ کا جسم تروتازہ تھا اور دفن کرتے وقت ان کی آنکھوں کے درمیان جو کافور ڈالا گیا تھا وہ بھی متغیر نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ دس ہزار درہم میں ایک نئی جگہ خرید کر حضرت طلحہؓ کو اس میں نئے سرے سے دفن کیا گیا۔
بہرحال اس خبر پر ہمیں دو حوالوں سے خوشی ہوئی ہے۔
- ایک اس بات پر کہ پاک فوج کے ہتھیاروں میں ایک جدید ہتھیار کا اضافہ ہوا ہے جس سے پاک فوج کے جوان زیادہ اعتماد اور حوصلہ کے ساتھ وطن عزیز کا دفاع کر سکیں گے۔
- اور دوسری اس بات پر کہ پاکستان کے دفاعی ماہرین نہ صرف یہ کہ اپنے وطن کے دفاع کے تقاضوں سے غافل نہیں ہیں اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوششوں میں شب و روز مصروف ہیں، بلکہ اپنے شاندار ماضی اور عظیم مجاہدین کی تابناک تاریخ پر بھی ان کی نظر ہے۔ جس کے ساتھ پاک فوج کے جوانوں کا ذہنی اور قلبی رشتہ مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے ’’الخالد ٹینک‘‘ کے بعد ’’طلحہ بکتربند گاڑی‘‘ کا تحفہ پاک فوج کی خدمت میں پیش کیا ہے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک فوج کو اس نظریاتی اور تاریخی تسلسل کے ساتھ وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دفاع کا صحیح معنوں میں حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔