الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ دنوں حکومت سے سفارش کی ہے کہ ملک میں جداگانہ طرز انتخاب ختم کر کے مخلوط طریق انتخاب رائج کیا جائے اور اس کے لیے قانون میں ضروری ترامیم کی جائیں۔ الیکشن کمیشن نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جداگانہ طرز انتخاب کے تحت غیر مسلموں کے ووٹوں کا الگ اندراج کرنا پڑتا ہے، ان کے ووٹوں کی الگ گنتی کرنا پڑتی ہے اور ان کے امیدواروں کے الگ نتائج مرتب کرنا پڑتے ہیں جو بہت مشکل کام ہے اس لیے الیکشن کمیشن کو کام کی اس مشکل اور الجھن سے نکالنے کے لیے جداگانہ طرز انتخاب کو ہی سرے سے ختم کر دیا جائے۔
جداگانہ انتخابات کی تاریخ ہمارے اس خطہ میں بہت پرانی ہے بلکہ پاکستان کے نام سے الگ ملک کے قیام کی تحریک کی اصل بنیاد ہی جداگانہ قومیت پر ہے جس کا تصور سرسید احمد خان مرحوم نے پیش کیا تھا، اور ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی کی ناکامی کے بعد اس فکر کو اجاگر کرنے کے لیے مسلسل محنت کی تھی کہ مسلمان اس خطہ میں جداگانہ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے اس بنیاد پر ان کے حقوق اور تشخص کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اسی فکر و فلسفہ کی بنیاد پر مسلم لیگ وجود میں آئی، اسی کے نتیجہ میں متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کے دور میں جداگانہ الیکشن کا طریقہ کار اپنایا گیا اور جداگانہ قومیت کا یہی تصور آگے چل کر پاکستان کے نام سے مسلمانوں الگ ملک کے قیام کا باعث بنا۔ چنانچہ پاکستان کی اس نظریاتی اور فکری بنیاد کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان میں جداگانہ طرز انتخاب کا اصول اپنایا گیا جس کے تحت غیر مسلم اقلیتیں آبادی کے تناسب سے اسمبلیوں کے لیے اپنے الگ نمائندے منتخب کرتی ہیں اور غیر مسلم اقلیتوں کے اپنے منتخب نمائندے ان کے حقوق و مفادات کی نگہداشت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
اگرچہ ملک کے کچھ سنجیدہ اصحاب علم و دانش کے نزدیک یہ صورت قابل قبول نہیں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جو اسمبلی قرآن و سنت کے دائرہ میں قانون سازی کی پابند ہے اور جس نے قرآن و سنت کے احکام کو قانون کی شکل دینی ہے اس میں غیر مسلموں کی شرکت کا کوئی اصولی جواز نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن و سنت کی تشریح و استنباط میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کو ان کے عقائد کے خلاف قانون سازی پر مجبور کرنے کے مترادف بھی ہے جو دونوں طرف زیادتی ہے۔ اس لیے اگر قانون سازی کے عمل میں غیر مسلموں کی شرکت ضروری ہے تو ان کی ایک الگ کونسل قائم کر دی جائے جو ان کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہو اور آئین کی مقرر کردہ حدود کے اندر وہ غیر مسلموں کے حقوق و مفادات کی نگہداشت کے ساتھ ساتھ ان کے داخلی دائروں میں ان کی مذہبی تعلیمات کے مطابق ضروری قوانین کی تیاری اور تشریح کا کام بھی سرانجام دے۔ لیکن انہیں قرآن و سنت کی حدود میں قانون سازی کرنے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں شامل نہ کیا جائے۔
مگر اس اصولی نقطۂ نظر سے قطع نظر اس وقت معروضی صورتحال یہ ہے کہ ملک میں انتخابات جداگانہ طریق انتخاب کے مطابق ہوتے ہیں اور چونکہ اس سے مسلمانوں کی الگ قومیت اور پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کا اظہار ہوتا ہے اس لیے بین الاقوامی سیکولر لابیوں کی طرف سے اس پر مسلسل نکتہ چینی ہوتی ہے اور اس کے خلاف ایک عرصہ سے لابنگ کا سلسلہ جاری ہے، بالخصوص این جی اوز کے روایتی مطالبات میں اس مطالبہ کو خصوصی حیثیت حاصل ہے کہ ملک میں جداگانہ طرز انتخاب ختم کر کے مخلوط طریق انتخاب کو رائج کیا جائے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی سفارش میں اسی نقطۂ نظر کو پیش کیا ہے لیکن اپنے موقف کی دلیل میں اصل بات کہنے کا حوصلہ نہ پا کر عملی مشکلات کے حوالہ سے جداگانہ طرز انتخاب کے خلاف رائے دینے میں عافیت سمجھی ہے۔ حالانکہ یہ بات الیکشن کمیشن کے ارکان بھی بخوبی جانتے سمجھتے ہیں کہ ان کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے کیونکہ عملی مشکلات سے کوئی کام بھی خالی نہیں ہوتا اور اگر قومی معاملات کے فیصلے اس قسم کی عملی مشکلات کے حوالہ سے ہونے لگیں تو قومی زندگی کے بہت سے شعبے اپنے بہت ہی اہم پہلوؤں، فیصلوں اور امور سے محروم ہو جائیں۔
جہاں تک اس طرز انتخاب یعنی جداگانہ الیکشن کی عملی افادیت کا تعلق ہے، ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس کے ختم کرنے میں مسلمانوں بالخصوص دینی حلقوں کا فائدہ ہے کیونکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جداگانہ طرز انتخاب کے ذریعے غیر مسلم نمائندوں کی اچھی خاصی تعداد اسمبلیوں میں پہنچ جاتی ہے۔ اور چونکہ وہ اپنے انتخاب میں مسلمان ووٹوں کے مرہون منت نہیں ہوتے اس لیے بین الاقوامی لابیوں کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں اور اسلامی نظام اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں اور ملک کی اسلامی حیثیت کے خلاف کام کرنے میں بھی انہیں کوئی حجاب محسوس نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اگر مخلوط طرز انتخاب رائج ہو تو اسمبلیوں میں غیر مسلم ارکان کی موجودہ تعداد کے تناسب میں وہ دس فیصد نشستیں بھی حاصل نہیں کر سکیں گے اور ایک اچھا خاصا سیاسی جتھہ ٹوٹ جائے گا۔ پھر جو غیر مسلم ارکان منتخب ہو کر آئیں گے وہ اپنے حلقہ کے مسلمان ووٹروں کے جذبات کو نظرانداز نہیں کر سکیں گے اور بین الاقوامی لابیوں کے ایجنڈے کو قبول کرنا اور آنکھیں بند کر کے اس کی ترجمانی کرتے چلے جانا ان کے لیے مشکل ہو جائے گا۔
اس لیے ہمارا عملی اور سیاسی فائدہ تو اسی میں ہے کہ مخلوط طریق انتخاب رائج ہو اور غیر مسلم ارکان اسمبلی نے ایک عرصہ سے قومی سیاست میں جو اودھم مچا رکھا ہے اس سے ہمیں نجات حاصل ہو۔ لیکن اس کے باوجود بات چونکہ اصول و نظریات کی ہے اور پاکستان کی فکری بنیادوں اور اس کے اسلامی تشخص کی ہے اس لیے ہم مخلوط طرز انتخاب کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اس سفارش سے اختلاف کرتے ہیں جس میں جداگانہ طریق انتخاب ختم کرنے اور مخلوط طرز انتخاب رائج کرنے کی تجویز حکومت کے سامنے پیش کی گئی ہے۔
ہر دور کی اپنی ضروریات، ترجیحات اور تقاضے ہوتے ہیں، ہم اس وقت قومی حیثیت کے جس مرحلہ میں ہیں اس میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بین الاقوامی برادری میں اپنے اسلامی تشخص و امتیاز کو برقرار رکھنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں۔ اقوام و ممالک کی عالمی برادری ہمیں جداگانہ تشخص سے محروم کر کے اپنے سیکولر اجتماعی دھارے میں ترکی کی طرح ضم کرنا چاہتی ہے اور ہم اپنے اسلامی تشخص کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اس لیے اس مرحلہ پر کسی ایسی تجویز کی حمایت نہیں کی جا سکتی جو پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف بین الاقوامی سیکولر لابیوں کے ایجنڈے کو تقویت پہنچاتی ہو۔