۸ جون کو جامعہ اسلامیہ امدادیہ چنیوٹ اور ۹ جون کو جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں ختم بخاری شریف کی تقریب تھی جبکہ ۹ جون کو جامعہ فتحیہ چنیوٹ میں ختم مشکٰوۃ شریف کے حوالے سے حاضری ہوئی۔ چنیوٹ اور فیصل آباد دونوں مقامات پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم کی زیارت اور ان کے درس حدیث میں شرکت کی سعادت حاصل کی اور اجتماعات میں دینی مدارس کی خدمات اور مقاصد کے حوالے سے گفتگو کا موقع بھی ملا۔ جامعہ امدادیہ چنیوٹ کی تقریب میں حضرت الامیر مدظلہ کی نجی مجلس میں کچھ دیر بیٹھنے کا موقع نصیب ہوا اور انہیں ایک مسئلہ پر متفکر پا کر
انہوں نے دینی اجتماعات اور محافل کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کچھ عرصہ سے وعظ و نصیحت اور اصلاحِ عقیدہ و رسوم کی بجائے ان محافل میں حمد و نعت اور حسنِ قراءت کے ذوق کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے جو اپنی جگہ درست بلکہ مستحسن ہونے کے باوجود دینی محافل کے اصل مقاصد و اہداف کے حوالے سے نیک شگون نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی وجہ سے علماء کرام کے وہ بیانات جو معاشرے میں عقائد و رسوم کی اصلاح اور اعمالِ خیر کی ترغیب کے بارے میں ہوتے تھے وہ ثانوی حیثیت اختیار کر گئے ہیں اور عوام کا یہ ذوق بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ بیانات اور بالخصوص سنجیدہ اور علمی بیانات کی طرف توجہ کم کرنے لگے ہیں۔ اور بسا اوقات کسی سنجیدہ عالم دین کے بیان کا اعلان کرنے سے قبل اسٹیج سیکرٹری کو یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ ان کے بعد فلاں صاحب کی نعت ہوگی تاکہ لوگ بیٹھے رہیں اور کچھ بیان بھی سن لیں۔ حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی کا ارشاد یہ ہے کہ اس سے بیانات کی اہمیت کم ہو رہی ہے اور حمد و نعت میں بھی لوگوں کو کوئی پیغام دینے یا ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینے کی بجائے انہیں خوش رکھنے اور داد وغیرہ وصول کرنے کا رجحان زیادہ ہوگیا ہے۔ مولانا لدھیانوی مدظلہ نے فرمایا کہ اس طرف علماء کرام اور دینی حلقوں کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔
اس سے خیال ہوا کہ اس کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنے کی کوئی صورت نکالنی چاہیے، یہ سوچ کر ذہن میں ان معروضات کی ترتیب قائم کرنا چاہی تو بہت سے پہلو ایک ایک کر کے سامنے آتے چلے گئے جن کے بارے میں کئی بار پہلے بھی سوچا تھا کہ ان پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھنا چاہیے، چنانچہ ان میں سے چند پہلوؤں کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کر رہا ہوں۔ یہ معروضات قراء کرام اور نعت خواں دونوں طبقات کے بارے میں ہیں اور دونوں طبقات کے سنجیدہ حضرات سے پیشگی معذرت کے ساتھ قراء کرام سے بات کا آغاز کر رہا ہوں۔
عوامی محافل میں قرآن کریم کی تلاوت کے بارے میں جو رجحان ہمارے عمومی ذوق کا حصہ بنتا جا رہا ہے وہ ہر محفل میں فن کا اظہار اور قراءت مختلفہ میں قرآن کریم کی تلاوت کا ہے اور اس پر میں ذاتی طور پر سخت تحفظات کا شکار ہوں۔ جو محفل اظہارِ فن کے لیے یا حسنِ قراءت کے مقابلے کے عنوان سے منعقد ہوئی ہے یا محفل کا عمومی ماحول قراءت مختلفہ سے مانوس ہے، وہاں اس طرح کی قراءت میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ فن اور ذوق کی طرف توجہ دلانے کے لیے مستحسن ہے، لیکن جو محافل اس مقصد کے لیے منعقد نہیں ہو رہیں یا جن کا عمومی ماحول مختلف قراءت سے مانوس نہیں ہے وہاں اس طرح کی قراءت مناسب نہیں ہے اور اس سے بعض جگہ مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں جن میں سے بعض کا میں عینی شاہد ہوں۔ اسی طرح فن کے اعلٰی درجہ کے ماہرین جو لہجہ اور ترتییب اختیار کرتے ہیں، مبتدی درجہ کے قراء کرام بھی اس کی من و عن پیروی ضروری سمجھ رہے ہیں۔ آیات کا بار بار تکرار اور مختلف سورتوں سے چند آیات کی تلاوت ماہرینِ فن کے لیے تو حسنِ ذوق کی علامت ہوتی ہے لیکن ہر سطح کے قراء اس کو اپنے لیے ہر وقت ضروری سمجھیں گے تو بعض جگہ معاملہ حسنِ ذوق سے الٹ بھی ہو جاتا ہے۔ اس میں لہجہ، آواز کا زیروبم اور اپنی طرز پر گرفت جیسی نزاکتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو سب لوگوں میں یکساں نہیں ہوتیں اور ہر جگہ یہی طرز اختیار کرنے سے سطحی لوگوں کو تو شاید لطف آتا ہو مگر اصحابِ ذوق بسا اوقات بدمزہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ تجوید و قراءت کے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو یہ فرق سمجھائیں اور فن کی ساری نزاکتیں سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ان کی تربیت کریں بلکہ اپنی راہنمائی میں ان کے قراءت کے دائرہ، سطح اور لہجے کو متعین بھی کریں۔
قراء کرام میں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان کی اکثریت محفل کی نوعیت اور اس کی ضروریات کا لحاظ نہیں رکھتی کہ محفل کسی بھی سطح یا نوعیت کی ہو ان کا پیمانہ ایک ہی ہوتا ہے اور انہوں نے اپنی کیسٹ بہرحال پوری کی پوری سنانی ہوتی ہے۔ مجھے اس سلسلہ میں ایک ذاتی واقعہ یاد آرہا ہے، چنیوٹ میں چند سال قبل جامعہ حقانیہ کی افتتاحی تقریب تھی، تقریب کے لیے عصر تا مغرب کا وقت طے تھا جس میں حضرت مولانا مفتی سید عبد القدوس ترمذی زید مجدہم اور راقم الحروف نے خطاب کرنا تھا۔ مگر جن قاری صاحب کو تقریب کے آغاز کے لیے تلاوت کلام پاک کی دعوت دی گئی ان پر اظہارِ فن کا ذوق غالب تھا چنانچہ انہوں نے تلاوت کو اس قدر طویل کر دیا کہ غروبِ آفتاب میں صرف بیس پچیس منٹ کا وقت باقی رہ گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت مولانا سید عبد القدوس ترمذی نے خود اٹھ کر اعلان کیا کہ وقت چونکہ بہت تھوڑا رہ گیا ہے اس لیے میں بیان نہیں کروں گا، اور میرے بارے میں اعلان کیا کہ انہی کا مختصر بیان ہو سکے گا۔ اسی طرح کی صورتحال ایک دفعہ مجھے برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں بھی پیش آئی کہ ہمارے فاضل دوست مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی کے دینی مرکز مدرسہ امدادیہ میں عصر تا مغرب کی تقریب میں مجھے اور انڈیا سے آئے ہوئے ایک بزرگ عالم دین کو بیان کرنا تھا مگر تقریب کا آغاز کرنے والے قاری صاحب کے ’’حسنِ ذوق‘‘ نے ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ وہاں مجھے بیان سے دستبردار ہونا پڑا اور بھارت سے آنے والے بزرگ عالم دین کے مختصر بیان کے لیے گنجائش نکالی گئی۔
میرے خیال میں قاری صاحبان کو اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ محفل کی نوعیت کیا ہے؟ اگر تو حسنِ قراءت کی محفل ہے اور اظہارِ فن مقصود ہے تو جیسا جی چاہیں پڑھیں، لیکن اگر انہیں کسی محفل میں تقریب کے آغاز کے لیے برکت کے طور پر تلاوت کے لیے کہا گیا ہے تو انہیں وہاں برکت ہی کے لیے چند آیات کریمہ اچھے لہجے میں تلاوت کرنے پر اکتفا کرنا چاہیے اور محفل کے عمومی ماحول اور اس کے نظم و ترتیب کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے حضرت مولانا قاری سید محمد حسن شاہ اور حضرت مولانا قاری اظہار احمد تھانوی رحمہم اللہ تعالٰی جیسے بڑے اساتذہ کو عمومی محافل میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے سنا ہے وہ اس طرح نہیں کیا کرتے تھے جیسا معمول ہمارے زمانہ کے قراء کرام نے اپنا رکھا ہے۔
کچھ اس قسم کی صورتحال نظم خوان و نعت خوان حضرات کے حوالے سے بھی ہے۔ کسی زمانے میں ہماری محافل کا ماحول اس طرح کا ہوتا تھا کہ الحاج سید امین گیلانی، الحاج جانباز مرزا، سائیں محمد حیات پسروری اور جناب خان محمد کمتر کے درجہ کے شعراء عام جلسوں میں تشریف لاتے تھے، بیانات سے قبل ان کی ایک یا دو نظمیں ہوتی تھیں جن میں اصلاحِ عقائد کا پیغام ہوتا تھا، دینی معمولات کی ترغیب ہوتی تھی، اکابر کا تذکرہ ہوتا تھا، دینی جدوجہد کا جوش و خروش ہوتا تھا اور وقت کی دینی تحریکات کی طرف لوگوں کو توجہ دلانے کا ذوق ہوتا تھا۔ اب یہ ساری باتیں قصۂ ماضی بن چکی ہیں، نظم خواں حضرات تشریف لاتے ہیں اور نظم خوانی کا سب سے بڑا ہدف یہ ہوتا ہے کہ انہیں داد کس درجہ کی مل رہی ہے اور ’’فضلِ ربی‘‘ کا دائرہ کیا ہے؟ کسی اچھی بات پر داد دینا غلط بات نہیں ہے اور ایک آدھ بار توجہ دلانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن جس طرح آج کل ’’داد بالجبر‘‘ وصول کی جا رہی ہے اس کا نہ صرف یہ کہ شرعاً کوئی جواز نہیں ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی یہ بہت معیوب بات ہے۔ داد کے لیے اصرار کرنا، داد نہ ملنے پر طعنے دینا جسے پنجابی زبان میں ’’چگنا‘‘ کہا جاتا ہے، بہت بری بات ہے۔ داد وہ ہوتی ہے جو کوئی بات دل میں اتر جانے پر بے ساختہ دل سے نکلے، طعنوں کے ساتھ زبردستی داد وصول کی جانے والی داد نہیں بلکہ ’’بیداد‘‘ ہوتی ہے۔
پھر بہت سے نظم خواں حضرات نے وقت کا معیار بھی طے کر رکھا ہے کہ کس نے کتنا وقت لینا ہے؟ اور اس ذوق نے اس قسم کی محافل کا دورانیہ فجر کی اذان تک بڑھا رکھا ہے جس کا فوری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کی فجر کی نماز رہ جاتی ہے اور بہت سے لوگ اپنی ڈیوٹی سے ناغہ کرتے ہیں یا کم از کم نصف چھٹی تو انہیں کرنا ہی پڑتی ہے۔ اب میرے جیسے طالب علم کے لیے تو اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ رات کو حمد و نعت سننے کا ثواب زیادہ ہے یا فجر کی نماز جماعت کے ساتھ نہ پڑھنے اور اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر ہونے کا گناہ زیادہ ہے۔ البتہ اس کا فیصلہ نظم خواں حضرات خود ہی کر لیں تو زیادہ بہتر ہے۔
گزشتہ دور میں نعت خوانی کے حوالے سے اس بات کا اہتمام ہوتا تھا کہ نعت میں کوئی ایسا جملہ نہ ہو جس سے شرک کا وہم ہوتا ہو، مگر اب یہ معیار قائم نہیں رہا اور سوچے سمجھے بغیر ہر قسم کا رطب و یابس کلام عوامی محفلوں کی زینت بن رہا ہے۔ ہماری دینی محفلوں میں ان نزاکتوں کا لحاظ نہیں رہا اور نعت خواں حضرات تو رہے ایک طرف، بعض خطباء کرام بھی ربط و یابس قسم کی روایات اور واقعات بے تکان بیان کرتے چلے جاتے ہیں، یہ دیکھے بغیر کہ روایت کا درجہ کیا ہے اور اس بات کا لحاظ رکھے بغیر کہ اس کا عوام کے ذہنوں میں اثر کیا پڑے گا۔ یہاں مجھے ایک ذاتی واقعہ یاد آرہا ہے، میرا موقوف علیہ کا سال تھا حضرت والد محترمؒ نوشہرہ ورکاں میں ایک جلسے میں تشریف لے گئے، میں بھی ساتھ تھا اور ان سے پہلے چند منٹ میں نے بیان کیا جس میں ایک واقعہ کا ذکر بھی تھا۔ مگر گھر پہنچنے پر مجھے سخت ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑا، حضرت والدؒ نے پوچھا کہ یہ واقعہ کہاں پڑھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یاد نہیں شاید کسی سے سنا ہے؟ پوچھا کہ کس سے سنا ہے؟ میرا جواب پھر بھی یہ تھا کہ یاد نہیں۔ اس پر مجھے ڈانٹ پڑی کہ خبردار کوئی ایسا واقعہ بیان نہ کرنا جو کسی مستند کتاب میں نہ پڑھا ہو یا حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری، حضرت علامہ شمس الحق افغانی، یا حضرت مولانا مفتی محمود رحمہم اللہ تعالٰی جیسے کسی ثقہ بزرگ سے نہ سنا ہو۔ اسی طرح ایک جلسہ میں ایک نعت خواں نے ایسے اشعار کہے جن میں شرک کا شائبہ موجود تھا تو حضرت والد صاحبؒ نے نعت خوان کو روکا اور خود کھڑے ہو کر اس وہم کو دور کر دیا جس میں لوگ مذکورہ اشعار سن کر مبتلا ہو سکتے تھے۔
یہ چند باتیں خود میرے ذہن میں بھی عرصہ سے گھوم رہی تھیں اور ان کے اظہار کے لیے کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا ، حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم کے ارشاد سے حوصلہ پا کر عرض کر دی ہیں جبکہ ابھی بہت سی اور باتیں بھی اس حوالے سے کہنے والی ہیں جو کسی اور مناسب موقع پر عرض کر دی جائیں گی، ان شاء اللہ تعالٰی۔ مقصد اصلاحِ احوال ہے، اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی اپنی اصلاح کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔