ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں

   
اگست ۱۹۹۴ء

گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا دو سال قبل تکمیل کی منزل تک پہنچا ہے، مغرب کی سیکولر لابیوں کو مسلسل کھٹک رہا ہے اور یہ لابیاں اور پاکستان میں ان کے حواری پینترے بدل بدل کر اس قانون پر حملہ آور ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مغرب نے تو مذہب، آسمانی ہدایات، اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں اور برگزیدہ دینی شخصیات کی عقیدت و احترام کے دائرے ایک عرصہ سے توڑ تاڑ کر ایک طرف رکھ دیے ہیں اور اب مغربی معاشرہ کی کیفیت یہ ہے کہ روزنامہ جنگ لندن ۳۰ مارچ ۱۹۹۴ء میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق

’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت مریم علیہا السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کو پچیس مرتبہ گالی دینے والا گانا دکانوں میں فروخت ہونا شروع ہوگیا ہے (معاذ اللہ)۔ ’’سومائی سول کین سنگ‘‘ نام کا یہ گانا جیکی لیون نے گایا ہے اور ایسے وقت میں فروخت کے لیے پیش کیا ہے جب عیسائی متبرک ہفتہ (ایسٹر) منا رہے ہیں۔ یہ گانا عیسائیوں کے لیے مذہبی توہین ہے لیکن اس کے خلاف ابھی تک کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔‘‘

خبر میں قانونی کارروائی نہ ہونے کا رونا رویا گیا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ رائے عامہ کے کسی حلقہ حتیٰ کہ مذہبی راہنماؤں کی طرف سے بھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مغربی دانشور دنیا کے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں بالخصوص مسلمانوں کو بھی اسی معیار پر لانا چاہتے ہیں اور ان کی اس مہم کو مغربی ممالک کی حکومتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ سلمان رشدی کی حوصلہ افزائی بلکہ تحفظ، بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین کے حق میں مغربی ملکوں کی بے چینی، اور پاکستان میں چند گستاخان رسولؐ کے خلاف مقدمات پر ان حلقوں کا اضطراب ایک ہی پالیسی و طرز عمل کے مختلف مظاہر ہیں جو عالم اسلام کے بارے میں مغرب کے عزائم اور رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔

مغرب کے سیکولر دانشور کو دراصل یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ ’’فری سوسائٹی‘‘ کے تصور پر مبنی ویسٹرن سولائزیشن اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے اور اس کا دم واپسی قریب تر ہے جس کا اندازہ روسی مدبر میخائل گورباچوف کی طرف سے عورت کو دفتر اور فیکٹری سے گھر واپس لے جانے کی حسرت کے اظہار، اور برطانوی وزیر اعظم جان میجر کی طرف سے بنیادوں کی طرف واپسی (Back to bases) کی حالیہ مہم سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ سیکولرازم کی شکست و ریخت کے اس فطری عمل کو روکنا مغربی دانشور کے بس میں نہیں ہے مگر وہ عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات اور مذہبی رجحانات میں اضافہ کے آگے بند باندھنے کی ناکام کوشش کر کے اپنے لیے ذہنی تسکین کا سامان فراہم کر رہا ہے اور اس فکری جنگ کا دائرہ دن بدن وسیع کرتا جا رہا ہے۔

اس فکری و نظریاتی جنگ کے نتیجہ کے بارے میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے، وہ تو تاریخ کا عمل ہے جسے روکنا کسی کے بس میں نہیں ہے، اور اس جنگ میں ویسٹرن سولائزیشن کی شکست فاش اور اسلامی نظام حیات کی کامیابی کا ہمیں اسی طرح یقین ہے جیسے آنے والے کل کو سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے۔ اس لیے ہمیں مغربی دانشوروں، حکومتوں اور لابیوں سے کوئی شکایت نہیں ہے کہ وہ تو دشمن ہیں اور ہم دشمن کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آخر دم تک جس طرح چاہے پینترے بدلے، جو ہتھیار اس کے بس میں ہو استعمال کرے، اور جس دفاعی لائن پر چاہے مورچہ بند ہو۔ مگر مغرب کے ان حواریوں اور کاسہ لیسوں کی حالت زار پر ضرور ترس آتا ہے جو دنیا کے اکثر مسلم ممالک میں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں اور مغربی آقاؤں کی ہدایات اور اپنے ممالک کے عوام کے دینی رجحانات کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔ ان غریبوں کا حال یہ ہے کہ مغربی ملکوں اور لابیوں کا دباؤ بڑھتا ہے تو انہیں نام نہاد انسانی حقوق، ویسٹرن سولائزیشن اور مغربی مفادات کا راگ الاپنا پڑتا ہے، لیکن جب ان کے ملکوں کے عوام سڑکوں پر آتے ہیں اور ان کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہیں تو وہ اسلام کے ساتھ وابستگی اور اسلامی احکام پر یقین کا ورد کرنے لگ جاتے ہیں۔

پاکستان میں گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کے قانون کے حوالہ سے اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ بھی اسی طرح کی افسوسناک داستان ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے واضح حکم کے بعد گزشتہ حکومت کو بادل نخواستہ اسمبلی میں یہ قانون پاس کرنا پڑا تو اس وقت کے حکمرانوں کا حال دیدنی تھا جبکہ اپوزیشن لیڈر (موجودہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو) نے تو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ یہ قانون انسانی حقوق کے منافی ہے۔ پھر ملک کی مسیحی اقلیت کو اکسا کر اس قانون کے خلاف صف بندی کی گئی تو موجودہ اور سابق حکمرانوں نے پوری طرح اس مہم کی سرپرستی کی اور دونوں کے کیمپوں میں بیٹھے ہوئے مسیحی لیڈر اس قانون کے خلاف مسلسل متحرک رہے۔ حتیٰ کہ موجودہ حکمرانوں کے بارے میں تو مسیحی راہنماؤں کا دعوٰی ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران توہین رسالت کی سزا کا قانون اور جداگانہ الیکشن ختم کرنے کا واضح وعدہ کیا تھا۔ پھر حکومت سنبھالنے کے بعد مسلسل یہ عندیہ دیا جاتا رہا کہ اس قانون میں ترمیم کی جائے گی اور سزائے موت ختم کر کے دس سالہ قید کی سابقہ سزا بحال کی جائے گی، یہ بات متعدد بار قومی پریس کے ریکارڈ پر آچکی ہے۔ لیکن اب جب ملک کے عوام اس کے خلاف سڑکوں پر آئے ہیں تو حکمرانوں نے زبان بدل لی ہے اور وفاقی وزیراطلاعات تو یہاں تک فرما رہے ہیں کہ اگر پھانسی سے بڑی کوئی سزا ہو تو ہم گستاخ رسولؐ کو وہ سزا دینے کے لیے بھی تیار ہیں، جبکہ صدر محترم کا ارشاد ہے کہ اس قانون میں ترمیم کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

ہمارے ہاں حکمرانوں کی یہ قلابازیاں کوئی نئی بات نہیں ہے، اس کا مظاہرہ اس سے قبل بھی کئی مواقع پر ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پالیسیوں کی بنیاد لوگوں کے خوف پر ہے، باہر کے لوگوں کا خوف بڑھ جائے تو رخ ادھر ہو جاتا ہے اور اندر کے لوگوں کا خوف پریشان کرنے لگے تو پالیسیوں کا توازن اس طرف جھکنے لگتا ہے۔ قومی پالیسیوں کے لیے یہ کوئی اچھی بنیاد نہیں ہے۔ ہم حکمرانوں سے گزارش کریں گے کہ وہ لوگوں کی بجائے خدا کے خوف کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنائیں اور پھر اس کی برکات دیکھیں۔ خدا کا خوف انہیں دنیا کے ہر خوف سے نجات دلائے گا اور ان میں وہ قوت اور حوصلہ پیدا کرے گا جس پر کسی قوت کا دباؤ اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ ایک بار خدا کے سامنے جھک کر اور اس کے خوف پر پالیسیوں کی عمارت استوار کر کے تو دیکھیں دنیا کی قوتوں کے خوف اور دباؤ کا طلسم کس طرح ٹوٹ کر بکھرتا ہے۔

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
   
2016ء سے
Flag Counter