مسلم خواتین: حجاب اور رد عمل

   
۲۲ اگست ۲۰۰۹ء

جرمنی میں حجاب کے مسئلہ پر شہید ہونے والی خاتون مروی شیربینی کا تذکرہ امریکہ سے شائع ہونے والے اخبارات میں مختلف حوالوں سے جاری ہے:

  • ہفت روزہ ’’ایشیا ٹریبیون‘‘ نیویارک نے ۳۱ جولائی کے شمارہ میں اس کی تفصیلات یوں بیان کی ہیں: جرمنی کی عدالت میں قتل کی گئی ایک مسلم خاتون کی لاش ان کے آبائی وطن مصر لائی گئی ہے جسے حجاب کے لیے شہید قرار دیا گیا تھا۔ اسے ایک اٹھائیس سالہ جرمن شخص نے عدالت میں چاقو مار کر ہلاک کر دیا تھا جسے عدالت نے خاتون کے مذہب کی توہین کرنے کا قصور وار پایا تھا۔ انتیس سالہ مصری خاتون مروی شیربینی پر ایک جرمن شخص ایکسل ڈبلیو نے اٹھارہ بار چاقو سے حملہ کیا تھا، ایکسل کو قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ شیربینی کا شوہر ایلوی عکاظ اس حملے میں شدید طور پر زخمی ہوا تھا جو ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔ عدالت میں حملے کے وقت اس نے اپنی بیوی کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ شیربینی کو اسکندریہ میں دفن کیا گیا ہے اور اس کے جنازے میں جرمن سفارتکاروں سمیت مصر کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی جہاں سینکڑوں سوگوار موجود تھے۔

    شیربینی حجاب کے طور پر سکارف پہنتی تھی جس پر ایکسل نے اسے دہشت گرد کہا تھا۔ اپنی مذہبی شناخت کی توہین کے خلاف شیربینی نے عدالت میں ایکسل کے خلاف مقدمہ کیا اور عدالت نے ایکسل کو قصوروار پا کر اس پر تقریباً پچاس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کر دیا تھا۔ یہ واقعہ ۲۰۰۸ء کا ہے۔ ایکسل نے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی اور مقدمے کی سماعت کے دوران شیربینی اپنے پورے خاندان کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ جب قاتل نے چاقو سے اس پر حملہ کیا، ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی لیکن اسے بچایا نہ جا سکا۔ وہ تین ماہ کی حاملہ تھی جبکہ حملے کے وقت اس کا تین سالہ بیٹا بھی اس کے ساتھ تھا۔ اطلاعات کے مطابق شیربینی کا شوہر عکاظ بچانے کی کوشش میں قاتل کے چاقو اور پولیس کی گولی دونوں سے زخمی ہوا جس کی حالت نازک ہے۔ جرمنی میں وکلاء کا کہنا ہے کہ اٹھائیس سالہ شخص میں بیرونی لوگوں خاص طور پر مسلمانوں سے سخت نفرت پائی جاتی ہے۔ اس کیس میں مسلم دنیا خاص طور پر مصر بڑی دلچسپی لے رہا ہے۔ مصر کے اخبارات نے اس بات پر زبردست برہمی کا اظہار کیا ہے کہ آخر ایک قصور وار شخص عدالت میں چاقو کیسے لے گیا اور یہ سب کچھ عدالت میں ہونے کی اجزت کس نے دی۔ میڈیا میں شیربینی کو ’’شہیدِ حجاب‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

  • یہ خبر قاہرہ کی ڈیٹ لائن سے شائع کی گئی ہے، مگر قاہرہ ہی کی ڈیٹ لائن سے شائع ہونے والی ایک اور خبر بھی دلچسپی کی حامل ہے جو ہیوسٹن سے شائع ہونے والے عربی ماہنامہ ’’العتیق‘‘ نے ماہِ رواں کی اشاعت (شمارہ نمبر ۵۲) میں شائع کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ناروے میں رہنے والی ایک مصری نژاد خاتون تعطیلات گزارنے کے لیے مصر آئیں اور قاہرہ کے کارلوس ہوٹل میں ٹھہریں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ناروے اور سویڈن میں سوئمنگ پول میں جاتی ہیں اور پورے لباس اور حجاب کے ساتھ اس میں نہاتی ہیں، لیکن جب قاہرہ کے مذکورہ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں حجاب کے ساتھ باپردہ داخل ہوئیں تو ہوٹل کے گارڈ نے انہیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور کہا کہ وہ حجاب اور پردے کے لباس کے ساتھ سوئمنگ پول میں نہیں تیر سکتیں، انہیں اس کے لیے حجاب اور فالتو لباس اتارنا ہوگا کیونکہ ہوٹل کے قوانین کے مطابق اس میں صرف پیراکی کے مخصوص لباس میں ہی نہایا جا سکتا ہے۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات پر بہت دکھ ہوا ہے اس لیے کہ ناروے اور ڈنمارک میں وہ اپنے پورے لباس اور حجاب کے ساتھ اس قسم کے سوئمنگ پولز میں تیراکی کرتی ہیں اور انہیں کوئی بھی منع نہیں کرتا لیکن ایک بڑے اسلامی ملک کے دارالحکومت میں انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس پر کہا گیا ہے کہ مصر کی وزارتِ سیاحت کے احکام و ضوابط کی رو سے وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔
  • اس کے ساتھ ہی ایک مصری نژاد علی المرشدی نے، جو ناروے میں رہتے ہیں، بتایا ہے کہ ان کے ایک دوست کی بیٹی کے ساتھ ،جو مسلمان ہے اور ناروے میں قیام پذیر ہے، یہ واقعہ پیش آیا کہ قاہرہ کے ایک ہوٹل میں وہ اپنے پورے لباس اور حجاب کے ساتھ تیرنے کے لیے سوئمنگ پول میں داخل ہوئی تو اسے یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ ہوٹل میں باپردہ خواتین کے لیے نہانے کا الگ تالاب موجود ہے۔ لیکن جب وہ اس تالاب پر گئی تو دیکھا کہ اس کے چاروں طرف شیشے کی دیواریں ہیں اور باہر سے گزرنے والوں کو اندر کا منظر صاف دکھائی دیتا ہے۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ جب اس نے شیشے کی دیواروں کے اندر یہ تالاب دیکھا تو اس کا تاثر یہ تھا کہ یہ جانوروں کے لیے بنایا گیا ہے انسانوں کے لیے نہیں۔ اس لڑکی کا کہنا ہے کہ یہ منظر دیکھ کر میں نے نہانے کا ارادہ ہی ترک کر دیا ہے، اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ دوبارہ مصر کبھی نہیں آؤں گی۔
  • مغربی دنیا میں مسلم خاتون کے حجاب کے بارے میں جو کشمکش اور بحث و تمحیص چل رہی ہے اس کے پس منظر میں یہ خبر بھی قابل توجہ ہے جو ہیوسٹن سے شائع ہونے والے ایک عربی ہفتہ وار اخبار ’’المدار‘‘ نے ۸ مئی کے شمارے میں شائع کی ہے کہ برطانیہ کی ایک کاؤنٹی میں جس کا نام عربی میں ’’ایفون و سامرست‘‘ لکھا گیا ہے، لیڈیز پولیس میں کام کرنے والی خواتین میں حجاب تقسیم کیے گئے ہیں تاکہ اگر انہیں اپنی ڈیوٹی کے دوران مسلمانوں کے کسی اجتماع میں یا مساجد میں جانا پڑے تو وہ یہ حجاب پہن کر جائیں۔ خبر کے ساتھ دو پولیس ویمن کی حجاب کے ساتھ تصویر بھی شائع کی گئی ہے جن میں وہ صرف سکارف میں نہیں بلکہ بڑی چادر میں اپنے سر کے بالوں اور جسم کو پوری طرح ڈھانپے ہوئے ہیں اور یہ لباس ان پر خوب جچ رہا ہے۔ خبر اور فوٹو کے ساتھ اس کاؤنٹی کی لیڈی پولیس کی ڈپٹی انسپکٹر جیکی روبرٹس کا یہ تبصرہ شائع کیا گیا ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے حجاب پہننا جہاں اپنے ہم وطنوں کے دین و ثقافت کے اعتراف و احترام کی علامت ہے وہاں یہ لیڈی پولیس کے لباس میں ایک خوبصورت اضافہ بھی ہے اور وہ پولیس میں اپنے ملازم ساتھیوں کی طرف سے اس لباس کو سراہنے پر انجوائے کرتی ہیں۔
  • اسی سلسلہ کی ایک اور خبر بھی ملاحظہ فرما لیجئے جو ہفت روزہ ایشیا ٹریبیون نیویارک نے ۱۷ جولائی کو شائع کی ہے کہ جارجیا (امریکی ریاست) کی عدالت میں مسلم خواتین کو حجاب پہن کر داخلے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جارجیا کی جوڈیشل کونسل نے اپنے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے حفاظتی اقدامات اور افراد کو مرضی کے مذہب کو اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کے حقوق میں توازن پیدا کر دیا گیا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ اگر سکیورٹی افسران کو ایسی مسلم خواتین کی جامہ تلاشی لینا ہو تو انہیں علیحدگی میں لے جا کر خواتین کے ذریعے تلاشی لی جا سکے گی۔ رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کا موجب دسمبر ۲۰۰۸ء میں لسیا ویلنٹائن کے حجاب اتارنے سے انکار اور اس کے نتیجے میں انہیں میونسپل کورٹ ڈمگس دل کے جج کیتھ رولنز کی طرف سے توہین عدالت کے جرم میں دس ماہ کی قید کی سزا تھی۔ اس واقعہ پر کونسل آف امیریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) نے حقوق انسانی کی تنظیموں کے ساتھ مل کر مسلم خواتین کے اس حق کو تسلیم کرانے کے لیے مسلسل جدوجہد کی ہے۔
  • اس ضمن میں فرانس میں حجاب پر پابندی اور اسے مسلم ثقافت کی علامت اور مغربی ثقافت کی نفی قرار دیتے ہوئے برداشت نہ کرنے کے سرکاری اعلانات قارئین کے ذہن میں ہوں گے، اور ایک بڑے مسلم ملک ترکی میں حجاب کو سیکولرزم اور کمال ازم سے انحراف قرار دے کر روا رکھے جانے کے واقعات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں، جو اس معروضی حقیقت کا اظہار ہے کہ مسلم تہذیب و ثقافت اور مسلمان خاتون کے جداگانہ تشخص کو ختم کرنے کی جو مہم ایک عرصہ سے جاری ہے اور جس کو آگے بڑھانے میں غیر مسلموں سے کہیں زیادہ بعض مسلمان حلقے ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلامی روایات نے اس کے سامنے سرنڈر ہونے سے انکار کر دیا ہے اور عورت کا وہ فطری امتیاز و تشخص جس کی نمائندگی آج کی دنیا میں صرف اسلام کر رہا ہے، پوری قوت کے ساتھ آج بھی اپنا وجود منوا رہا ہے۔ اسلام نے مرد اور عورت کے فرائض و حقوق اور معاشرتی کردار میں جو فرق بیان کیا ہے وہ فطرت اور نیچر کے مطابق ہے۔ اس لیے اسلامی تہذیب و ثقافت کے حسن کو گہنانے کی کوششیں اب خود مغرب میں دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ خدا کرے کہ مغربی تہذیب کے سراب کے پیچھے بھاگتے چلے جانے والے مسلمان دانشور بھی اس منظر کو کھلی آنکھوں سے دیکھ سکیں، آمین یا رب العالمین۔
   
2016ء سے
Flag Counter