مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ

   
تاریخ : 
مئی ۲۰۱۲ء

مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کو آج (۱۹ اپریل، جمعرات کی) صبح شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کے آبائی وطن چارسدہ کے لیے رخصت کیا تو کم و بیش گزشتہ نصف صدی کی تاریخ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگی۔ قاضی صاحبؒ شوگر کے مریض خاصے عرصے سے تھے، کچھ دنوں سے گردوں کا عارضہ بھی ہوگیا اور وہ گردوں کی مشینی صفائی کے مرحلہ سے گزار رہے تھے جس کے بعد جگر نے بھی متاثر ہونا شروع کر دیا اور آج وہ ان تمام مراحل سے گزر کر اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہونے جا رہے ہیں۔ ’’ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شئی عندہ باجل مسمّٰی، انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔

مولانا قاضی حمید اللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میری رفاقت کا عرصہ چار عشروں سے متجاوز ہے۔ میں ۱۹۷۰ء میں مرکزی جامع مسجد کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحد قدس سرہ العزیز کی نیابت و خدمت کے لیے آیا تو مولانا حمید اللہ خان کو یہاں آئے ایک سال ہو چکا تھا۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سال مدرسہ اشرف العلوم باغبانپورہ گوجرانوالہ میں مدرس رہے اور پھر ۱۹۶۸ء میں مرکزی جامع مسجد کے مدرسہ انوار العلوم میں آگئے اور سالِ رواں کے آغاز تک کم و بیش پینتالیس برس تک مسلسل تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ وہ معقولات و منقولات پر یکساں دسترس رکھتے تھے، مگر معقولات میں ان کی تدریس کی شہرت زیادہ تھی اور دور دراز سے طلبہ ان سے درسی استفادہ کے لیے ذوق و شوق کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو پاکستان کے علاوہ بھارت، افغانستان، ایران، بنگلہ دیش اور وسطی ایشیا کے ممالک تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ان تھک مدرس تھے۔ ایک زمانہ میں وہ صبح کی نماز کے بعد پڑھانے بیٹھتے اور عشاء کے بعد تک مسلسل پڑھاتے رہتے۔ بیک وقت روزانہ بیس سے زائد اسباق پڑھا کر بھی وہ تازہ دم اور چاق و چوبند دکھائی دیتے۔ لیکن گوجرانوالہ اور گرد و نواح میں ان کی زیادہ مقبولیت و شہرت ان کے اس عوامی درس کی وجہ سے ہوئی جو وہ مغرب کی نماز کے بعد مرکزی جامع مسجد میں عوام الناس کے لیے دیتے تھے اور وہ اپنے دور میں شہر کا مقبول ترین عوامی درس شمار ہوتا تھا۔ مرکزی جامع مسجد میں ایک عرصہ تک یہ سلسلہ رہا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد میرا درس ہوتا تھا جو نماز فجر کے معمول کے نمازیوں کے لیے ہوتا ہے اور اب تک بحمد اللہ تعالیٰ جاری ہے، جبکہ مغرب کے بعد مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ درس دیتے تھے جس کے لیے شہر اور گرد و نواح سے لوگ جوق در جوق آتے تھے اور بڑی محبت و عقیدت کے ساتھ ان کا درس سنتے تھے۔ اس درس کے ذریعے بہت سے لوگوں کی اصلاح ہوئی ہے، لوگ دین سے جڑے ہوئے ہیں، ان میں نماز کی پابندی اور سنتِ نبویؐ کی پیروی کا ذوق پیدا ہوا ہے اور خیر کے کاموں کی رغبت بڑھی ہے۔ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ امام رازیؒ اور امام غزالیؒ کے ارشادات بھی ان کے مطالعہ کے دائرے میں رہتے تھے تو ان کی بات سامعین کے دلوں میں اترتی چلی جاتی تھی۔

میری ان کے ساتھ تدریسی رفاقت کم و بیش اٹھارہ بیس برس رہی ہے، مگر میں صبح نماز کے بعد دو تین اسباق پڑھا کر فارغ ہو جاتا تھا اور وہ سارا دن پڑھاتے رہتے تھے اور ہر فن اور موضوع کی کتاب بلاتکان پڑھا لیتے تھے۔ انہوں نے مدرسہ مظاہر العلوم کے نام سے ایک الگ مدرسہ بھی بنایا اور دونوں مدرسوں میں ان کی تدریس کا سلسلہ آخر وقت تک جاری رہا۔ ۱۹۸۲ء تک جب تک حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ حیات تھے، ہم دونوں کی حیثیت ان کے نائب و معاون کی تھی۔ حضرت مفتی صاحبؒ مہتمم اور خطیب تھے۔ قاضی صاحب مرحوم مدرسہ کے معاملات میں اور راقم الحروف مسجد کے معاملات میں ان کی نیابت کی خدمت سرانجام دیتے تھے۔ حضرت مفتی صاحبؒ کی وفات کے بعد ہم دونوں نے باہمی مشورہ کے ساتھ اس تقسیم کار کو مستقل شکل دے دی اور پھر اس کے مطابق اب تک ہمارے معاملات چلتے آرہے ہیں۔ بہت سے مواقع پر اختلافات پیدا ہوتے رہے جو فطری بات ہے، لیکن اس ’’انڈرسٹینڈنگ‘‘ کا انہوں نے بھی پوری طرح احترام کیا، میں نے بھی حتی الوسع اس کی کوشش جاری رکھی اور ہمارے معاملات کا بھرم بحمد اللہ قائم رہا۔

۱۹۷۵ء کے دوران جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والے جمعیت علماء اسلام کے ملک گیر ’’نظامِ شریعت کنونشن‘‘ میں حضرت مولانا مفتی محمود قدس سرہ العزیز نے پرائیویٹ شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا اور اس کے لیے مختلف سطحوں پر ملک کے بہت سے حصوں میں قاضی مقرر کیے گئے تو مولانا قاضی حمید اللہ خان کو گوجرانوالہ کے لیے ضلعی قاضی مقرر کیا گیا، جس کے بعد قاضی کا خطاب ان کے نام کا لازمی حصہ بن گیا۔ ورنہ اس سے قبل وہ مولانا حمید اللہ خان کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ اس موقع پر بعض مقدمات بھی فیصلے کے لیے ان کے پاس آتے، پھر قضاء کا یہ سلسلہ تو نہ چل سکا لیکن مولانا حمید اللہ خان کو مستقل طور پر قاضی حمید اللہ خانؒ کا مقام حاصل ہو گیا۔

قاضی صاحب مرحوم مزاجاً سیاسی نہیں تھے لیکن جمعیت علماء اسلام کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہے، حتیٰ کہ جس زمانے میں جمعیت علماء اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمٰن گروپ کے نام سے دو دھڑوں میں تقسیم تھی، میں درخواستی گروپ میں سرگرم تھا، مگر قاضی صاحب فضل الرحمن گروپ کے سرکردہ حضرات میں شمار ہوتے تھے۔ اس طرح مرکزی جامع مسجد اور مدرسہ انوار العلوم ،ان دونوں گروپوں کی باہمی کشمکش کا میدان تھا۔ ہماری کشمکش بھی چلتی تھی اور رفاقت بھی جاری تھی جبکہ مشترکہ کاموں میں اکٹھے کام بھی ہم کر لیتے تھے۔

متحدہ مجلس عمل کے قیام کے بعد جب جمعیت علماء اسلام نے قاضی حمید اللہ خانؒ کو قومی اسمبلی کی شہری سیٹ کے لیے متحدہ مجلس عمل کا امیدوار بنانے کا اعلان کیا تو عوامی حلقوں نے انہیں خاصی پذیرائی بخشی اور وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ اس میں مختلف مذہبی مکاتبِ فکر کے اتحاد کے ساتھ ساتھ قاضی صاحب کی شخصیت اور ان کے ان عوامی درسوں کا بھی بہت بڑا حصہ تھا جو وہ مرکزی جامع مسجد اور شہر کی دیگر بہت سی مساجد میں دیا کرتے تھے اور جن کی مقبولیت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔

قومی اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے انہوں نے گوجرانوالہ میں ’’میراتھن ریس‘‘ کو روکنے کے لیے جو جرأت مندانہ کردار ادا کیا وہ ان کی دینی و قومی حمیت کے اظہار کے علاوہ گوجرانوالہ کے مذہبی ماحول اور دینی حلقوں کے جذبات کی ترجمانی بھی تھی جس پر ان حلقوں نے اطمینان کا سانس لیا اور قاضی صاحب موصوف کو خراج تحسین پیش کیا جو اسلامی روایات اور مشرقی ثقافت کے تحفظ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مغربی و ہندو ثقافت کے مسلسل فروغ سے پریشان ہیں۔

آج مولانا قاضی حمید اللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کی یادیں باقی ہیں اور گوجرانوالہ میں ان کی دینی و تعلیمی خدمات کے اثرات ایک عرصہ تک لوگوں کے دلوں میں ان کی یاد کو تازہ رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter