مسلم خواتین کا برقع کا حق

   
اپریل ۲۰۲۱ء

روزنامہ جنگ لاہور میں ۱۸ مارچ ۲۰۲۱ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق:

’’امریکہ کے ادارے برائے مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کا کہنا ہے کہ مذہب کی آزادی میں لباس کے انتخاب کی آزادی بھی شامل ہے، اس ادارے نے حکومتوں کی جانب سے مخصوص لباس کی ہدایات جاری کرنے کی سخت مخالفت کی ہے، ادارے کے مطابق حکومتوں کو لباس کے انتخاب سے متعلق ہدایات جاری نہیں کرنی چاہئیں۔ خیال رہے کہ سری لنکا کی حکومت کا اس بات پر اصرار ہے کہ مسلم خواتین کے برقع پہننے پر پابندی کی تجویز قومی سلامتی کے حوالہ سے اقدام ہے، جبکہ مسلمانوں کا موقف ہے کہ یہ ان سے امتیازی سلوک ہے۔‘‘

قرآن کریم نے لباس کو انسان کی زینت کے ساتھ ساتھ ستر پوشی کا ذریعہ، سردی گرمی سے بچاؤ اور جنگ میں حفاظت کا باعث قرار دیا ہے، اور مسلمان عورتوں کو عمومی لباس سے ہٹ کر دوپٹہ (خمار) اور جسم کو ڈھانپنے کے لیے (جلباب) بڑی چادر کے اہتمام کا حکم بھی دیا ہے جو اَب برقع کی صورت میں زیر استعمال ہے۔ مگر مغربی تہذیب کے دلدادہ اباحت پسند لوگ اس کو پسند نہیں کرتے اور مختلف ملکوں میں برقع اور نقاب پر پابندی کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلمانوں کا موقف ہے کہ برقع اور نقاب خواتین کے لیے شرعی حکم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اس حق میں شامل ہے کہ وہ اپنی مرضی کا لباس پہن سکیں۔

اس تناظر میں امریکہ کے مذہبی آزادی کے ادارے کا یہ کہنا اگرچہ تمام وجوہ سے ہمارے خیال میں درست نہیں ہے مگر لباس کے انتخاب کی آزادی کے حق کے حوالہ سے ضرور قابلِ توجہ ہے۔ اس لیے ہم دنیا بھر کے لبرل حلقوں اور حکومتوں سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر آسمانی تعلیمات اور شرعی احکام و قوانین سے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تو آزادی کے معروف تصور کا ہی کم از کم احترام کریں اور اس قسم کی پابندیوں سے گریز کریں جس سے خواتین اپنے شرعی فریضہ اور انسانی حقوق سے محروم ہو جائیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter