بنوری ٹاؤن کا المیہ

   
۳۰ اکتوبر ۱۹۸۷ء

گزشتہ ہفتہ کراچی میں اہلِ تشیع کے چہلم کے جلوس کے موقع پر جو کچھ ہوا اس پر پورے ملک میں افسوس اور اضطراب کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بالخصوص بنوری ٹاؤن کی جامع مسجد اور جامعۃ العلوم الاسلامیہ جیسے عظیم دینی و علمی ادارے پر پولیس اور فوج کی کارروائی سے ایک نوجوان کی شہادت، نصف درجن کے قریب نوجوانوں کے زخمی ہونے اور مسجد کے قالین جل جانے کے سانحہ نے اس کرب و اضطراب کو دوچند کر دیا ہے۔ یہ سانحہ اس وجہ سے پیش آیا کہ سوادِ اعظم اہل سنت کے راہنما مولانا مفتی احمد الرحمان اور ان کے رفقاء گزشتہ سال تحریری طور پر طے پانے والے سمجھوتہ کے مطابق حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ماتمی جلوس کا روٹ تبدیل کیا جائے اور معاہدہ کی پابندی کرتے ہوئے اسے بنوری ٹاؤن کی جامع مسجد کے سامنے سے نہ گزرنے دیا جائے۔سوادِ اعظم اہل سنت کے اس جائز مطالبہ اور اس کی منظوری پر اصرار کو حکومتِ سندھ نے اپنے وقار اور انا کا مسئلہ بنا لیا اور اس کارروائی تک نوبت پہنچا دی جس کے نتیجہ میں مسجد کے تقدس کی پامالی اور ایک نوجوان کی شہادت کے ساتھ جلوس کو فوج کی نگرانی میں زبردستی وہاں سے گزارا گیا۔

انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ایک معاہدہ جب طے پا گیا تھا اور خود حکومت کی طرف سے اس معاہدہ کی تحریر دی گئی تھی تو پھر اس کھلم کھلا خلاف ورزی اور تشدد اور طاقت کے ذریعے ایک اقلیتی جلوس کو اس طرح اکثریت پر مسلط کرنے کا آخر کیا جواز تھا؟ باخبر حلقے اس خدشہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ حکومت کے طے شدہ منصوبہ کے مطابق ہوا ہے اور اقتدار میں بیٹھے ہوئے بعض لوگ مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے عوام میں طبقاتی، گروہی، نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ کشمکش کو اس حد تک بڑھا دیا جائے کہ ایک نئے مارشل لاء یا بیرونی طاقتوں کی مداخلت کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہ جائے۔

سوادِ اعظم اہل سنت اور حکومت کے درمیان گزشتہ سال اس سلسلہ میں ہونے والے معاہدے کا متن ہم اسی شمارہ میں شائع کر رہے ہیں جس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ واقعات کی ترتیب اور حکومت کا رویہ حالات کے کس رخ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ راقم الحروف کو اس سلسلہ میں گزشتہ ہفتے کراچی جا کر مختلف طبقوں کے راہنماؤں سے ملنے اور حالات کا براہِ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے،اس کی تفصیلات اور کراچی، کوہاٹ، اٹک، جھنگ، چکوال، گولڑہ شریف اور دوسرے شہروں میں اس نوعیت کے واقعات کے پس منظر اور نتائج و عواقب کے بارے میں ایک مفصل تجزیاتی مضمون آئندہ شمارہ میں ان شاء اللہ العزیز قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter