روزنامہ پاکستان لاہور ۱۸ مارچ ۲۰۱۲ء کی ایک خبر کے مطابق نو مسلم خواتین کے حقوق اور مسائل کے حوالہ سے کام کرنے والے ادارہ ’’شرکت گاہ‘‘ کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن فوزیہ وقار اور ’’عورت فاؤنڈیشن‘‘ لاہور ریجن کی نسرین زہرہ اور ممتاز نے کہا ہے کہ:
’’پاکستان میں مذہب تبدیل کرنے والی خواتین کو مکمل تحفظ اور حقوق حاصل نہیں ہو سکے، وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی سماجی اور خاندانی مجبوریوں اور دباؤ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اور کچھ خواتین عمر بھر چھپ کر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں۔‘‘
یہ بات بالکل درست ہے اور ہمارے مشاہدہ میں ہے کہ نہ صرف خواتین بلکہ بہت سے مرد بھی قبولِ اسلام کے بعد معاشرتی طور پر ایسے مسائل سے دوچار ہو جاتے ہیں کہ قبولِ اسلام ان کے لیے پریشان کن مسئلہ بن کر رہ جاتا ہے، لیکن مرد اپنے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں جو کہ خواتین کے لیے ہمارے معاشرتی ماحول میں مشکل ہوتا ہے اس لیے ان کے مسائل زیادہ سنگین نوعیت اختیار کر جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں نو مسلم شخص اپنے خاندان اور معاشرتی ماحول سے کٹ جاتا ہے اور اس کو کوئی متبادل باعزت ماحول میسر نہیں آتا، انہیں عام طور پر حقیر سمجھا جاتا ہے، انہیں رشتے نہیں ملتے، باعزت روزگار فراہم نہیں ہوتا، اور اکثر مواقع پر اسلام قبول کر لینے کے بعد وہ پہلے والے ماحول، عزت اور تحفظ سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اسی بنا پر ہمارا خیال ہے کہ یہ افسوسناک طرزعمل بہت سے لوگوں کے لیے قبولِ اسلام میں رکاوٹ بن جاتا ہے، یہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے اور سب سے زیادہ دینی اداروں اور علماء کرام کے لیے کہ انہیں اپنے نومسلم بھائیوں اور بہنوں کو پہلے سے زیادہ باعزت اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے بہرحال سنجیدگی کے ساتھ محنت کرنی چاہیے۔