مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس سے حضرت درخواستی اور مفتی محمود کا خطاب

   
۱۶ مئی ۱۹۷۵ء

کل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام کی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور جماعتی تنظیمی امور پر غور و خوض کی غرض سے ۲۸، ۲۹ اپریل کو مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں طلب کیا گیا۔ ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر نہایت اہم اور نازک مسائل زیر بحث آئے اور دور رس نتائج کے حامل اہم فیصلے کیے گئے۔ ۲۸ اپریل کو صبح ۱۰ بجے اجلاس کا آغاز امیر مرکزیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی مدظلہ کی صدارت میں ہوا۔ مولانا قاری محمد امین راولپنڈی کی تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد حضرت الامیر مدظلہ نے اجلاس کی غرض و غایت اور ایجنڈا کے مختلف امور پر اجمالی روشنی ڈالی۔

آپ نے فرمایا: جمعیۃ علماء اسلام میں ہر طبقہ کے مسلمان شامل ہیں۔ مشائخ، علماء، قراء، طلبہ، اصحابِ ثروت، مزدور اور کسان جمعیۃ کے پلیٹ فارم پر کام کر رہے ہیں اور جمعیۃ علماء اسلام ایک جامع جماعت ہے۔

حضرت الامیر نے فرمایا:

ملکی حالات سب پر واضح ہیں، اقتصادی طور پر عوام از حد پریشانی میں مبتلا ہیں، بے حیائی اور منکرات کا دور دورہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ارشاد فرمایا، اس وقت تمہاری حالت کیا ہو گی جب تمہارے نوجوان فاسق اور تمہاری عورتیں سرکش ہو جائیں گی؟ صحابہؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اور اس سے بھی زیادہ، جب تم برائی کا حکم دو گے اور نیکی سے روکو گے۔ صحابہؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ بات بھی ہو گی؟ فرمایا ہاں اور اس سے بھی زیادہ، اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جب تم نیکی کو بدی اور بدی کو نیکی سمجھنے لگو گے؟

آج ہمارے ساتھ یہی صورتحال پیش آ رہی ہے۔ شاعر کہتا ہے:

ان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ
وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم

’’اگر تو نہیں جانتا تو یہ ایک مصیبت ہے، اور اگر تو جانتا ہے تو یہ مصیبت اس سے بھی بڑی ہے۔‘‘

جس مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا وہ سب کو پتہ ہے۔ لا الٰہ الا اللہ کا نعرہ لگا کر اور اسلامی نظام کا وعدہ کر کے لوگوں کو ساتھ ملایا گیا تھا، لیکن آج اسلام دربدر پھر رہا ہے اور ظالموں کے ظلم و جبر کے خلاف فریاد کر رہا ہے۔

آپ علماء کرام ہیں، علم بہت بڑی دولت ہے، آپ لوگوں کو یہ نعمت مبارک ہو، لیکن ہر نعمت کا شکر ادا کرنا ضروری ہے، کفرانِ نعمت سے نعمت چھن جاتی ہے۔ علم کی نعمت سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کے لیے اس پر عمل کرنا، اس کے وقار کو ملحوظ رکھنا اور اس کی خدمت کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’لا تحلوا شعائر اللہ‘‘ (المائدہ ۲) اللہ کے شعائر کی بے ادبی خود کرو نہ کسی کو کرنے دو۔ اگر شعائر اللہ کی بے ادبی ہوتے دیکھ کر خاموش رہے تو تم بھی بے ادبوں میں شمار کیے جاؤ گے۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے شعائر اللہ کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، بیت اللہ، قرآن پاک اور نماز کا بھی ذکر کیا ہے۔ آج ان شعائر کی بے حرمتی ہو رہی ہے، قرآن پاک کی بے حرمتی ہو رہی ہے، فجرِ اسلام کے نام سے فلمیں بنا کر بیت اللہ کی توہین کی جا رہی ہے۔ آج علماء کرام کو انقلابی سوچ پیدا کرنی چاہیے اور جو حکمران اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی شعائر کے تقدس کی حفاظت میں ناکام ہیں ان کی نا اہلی سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے۔

امیر محترم مدظلہ نے فرمایا:

آج قریہ قریہ یہ پروپیگنڈا ہو رہا ہے کہ مولوی کے پاس کوئی نظام نہیں ہے، وہ تمہارے اقتصادی مسائل حل نہیں کر سکتا، اس لیے جمعیۃ علماء اسلام کے تمام کارکنوں، علماء اور خصوصاً ضلعی سطح کے امراء و نظماء کا فرض ہے کہ وہ عوام کے ساتھ رابطہ کی مہم چلائیں اور انہیں اس بات سے آگاہ کریں کہ تمہارے مسائل کا حل صرف اسلام میں ہے۔ اس کے ساتھ جمعیۃ کی تنظیم کی طرف بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ دوسری جماعتوں کے ساتھ مجلسِ عمل اور متحدہ محاذ میں بھی ضرورت کے مطابق کام کریں لیکن پہلے اپنی جماعت کو منظم کریں۔ اس سلسلہ میں سستی نہیں ہونی چاہیے۔

حضرت الامیر مدظلہ نے جماعتی امور میں مشاورت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:

ہمارا نظام شورائی ہے اور اللہ تعالیٰ کا بھی ارشاد ہے ’’وامرھم شوریٰ بینھم‘‘ (الشوریٰ ۳۸) اس میں خیر و برکت ہے۔ اس لیے ہر سطح پر مشورہ کا اہتمام ضروری ہے اور باہمی مشاورت کے بغیر کوئی کام نہیں ہونا چاہیے۔

آخر میں حضرت الامیر دامت برکاتہم نے اجلاس میں غور و خوض کے لیے ایجنڈا پیش فرمایا اور مختلف امور پر غور و خوض کے بعد پہلی نشست حضرت الامیر کی دعاؤں پر اختتام پذیر ہوئی۔

نماز ظہر کے بعد جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس امیر محترم حضرت مولانا عبید اللہ انور دامت برکاتہم کی زیر صدارت مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں منعقد ہوا جس میں متعدد امور پر غور و خوض کے بعد مرکزی مجلس شوریٰ کے لیے صوبائی جمعیۃ کی طرف سے مندرجہ ذیل سفارشات منظور کی گئیں:

  1. مرکزی سطح پر شعبہ نشر و اشاعت قائم کیا جائے۔
  2. دفتری نظام کو فعال بنایا جائے۔
  3. مرکزی شعبہ تبلیغ قائم کیا جائے۔
  4. انصار الاسلام کو منظم کیا جائے۔
  5. حضرت مفتی صاحب مدظلہ مختلف مقامات کے دوروں میں دوسرے فعال علماء کو بھی ساتھ رکھیں۔
  6. اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عملی تحریک شروع کی جائے۔
  7. بیت المال کے نظام کو دستور کے مطابق مستحکم بنیادوں پر استوار کیا جائے۔
  8. تحریکِ آزادی کی مستند اور جامع تاریخ مرتب کر کے تاریخ کو مسخ کرنے کی مذموم مساعی کا سدباب کیا جائے۔

اجلاس سے مولانا عبید اللہ انور، مولانا نیاز احمد گیلانی، مولانا سعید احمد رائے پوری، عبد المتین چوہدری، مرزا جانباز، شیخ محمد یعقوب اور دیگر حضرات نے خطاب کیا اور ایک قرارداد کے ذریعے حضرت مولانا مفتی محمود پر قاتلانہ حملہ کی مذمت کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے جج سے واقعہ کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔

نماز عصر کے بعد مرکزی مجلس شوریٰ کی دوسری نشست میں قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود احمد صاحب مدظلہ نے ملک کی سیاسی صورتحال اور جماعتی امور پر روشنی ڈالی۔

آپ نے فرمایا:

جمعیۃ علماء اسلام آج بحمد للہ اس مقام پر ہے کہ اس کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ جمعیۃ علماء اسلام باوجود اس کے مذہبی اور سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کر رہی تھی، لیکن سیاسی حلقے اسے ایک سیاسی جماعت کی حیثیت دینے پر تیار نہیں تھے، اور اسے مخصوص مکتبِ فکر کی نمائندہ جماعت سمجھا جاتا تھا۔ حالانکہ جمعیۃ علماء اسلام کے دستور کے مطابق ہر مسلمان کو خواہ وہ کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتا ہو جمعیت میں شمولیت کی اجازت تھی۔ اور ہمارے اکابر نے بھی اپنے مسلک پر نہایت پختگی کے باوجود سیاسی محاذ پر تمام مکاتب فکر کے ساتھ اشتراکِ عمل کیا تھا۔ جمعیۃ علماء ہند میں اہلحدیث مکتب فکر سے مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، مولانا محمد داؤد غزنویؒ اور مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ، اور بریلوی مکتب فکر سے مولانا عبد الماجد بدایونیؒ، مولانا محمد میاں فاروقیؒ اور مولانا شاہد فاخریؒ شامل رہے ہیں۔ اور اختلافِ مسلک کے باوجود ان حضرات نے جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم پر سیاسی کام کیا ہے۔

۱۹۵۶ء میں جب ملتان میں قطب الاقطاب حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ سرہ العزیز کی زیر صدارت علماء کنونشن منعقد کر کے جمعیۃ علماء اسلام کے موجودہ دور کا آغاز کیا تھا تو بھی مختلف مسالک کے علماء کو دعوت دی گئی تھی۔ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب سے بھی رابطہ کیا گیا تھا، اور مولانا داؤد غزنویؒ اور مولانا غلام اللہ خان اور سید عنایت اللہ شاہ بخاری جمعیۃ کی مجلسِ عاملہ کے رکن منتخب کیے گئے تھے۔ اور ہم نے جمعیۃ کی رکنیت کے لیے جمعیۃ میں صرف یہ شرط لگائی تھی کہ جو شخص جمعیۃ کے اغراض و مقاصد سے متفق ہو کر اس کے نظم کے تحت چلنے کا عہد کرے وہ ۲۵ پیسے فیس رکنیت ادا کر کے جمعیۃ کا رکن بن سکتا ہے۔

دراصل ہمارا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جو قوتیں بھی جس حد تک ہمارا ساتھ دے سکتی ہیں انہیں ساتھ ملا کر اس عظیم مقصد کے لیے جدوجہد کی جائے۔ لیکن بعد میں بعض حضرات کی تنگ نظری کے باعث جمعیۃ کا حلقہ محدود سے محدود تر ہوتا چلا گیا اور جمعیۃ علماء اسلام ایک مسلک سے تعلق رکھنے والے مخصوص سیاسی ذہن کے لوگوں کی جماعت بن کر رہ گئی۔

۱۹۶۲ء میں جب قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے مجھے مشرقی پاکستان جانے کا موقع ملا تو وہاں کے علماء سے بھی رابطہ قائم ہوا، اور طویل جدوجہد کے بعد ۱۹۶۸ء میں مشرقی پاکستان میں جمعیۃ علماء اسلام کے بعد آل پاکستان سطح پر جمعیۃ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد ایوب خان کے خلاف تحریک کے دنوں میں اپوزیشن پارٹیوں کی جمہوری مجلسِ عمل میں شمولیت کے بعد سے جمعیۃ علماء اسلام کا تعارف ملک میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر ہوا۔ ہمیں اہم سیاسی اجلاسوں اور گول میز کانفرنس میں شرکت کر کے اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا موقع ملا اور اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے۔

پھر یحیٰی خان کے دور میں جمعیۃ نے ایک سیاسی جماعت کے طور پر ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور بے سروسامانی کے باوجود بلوچستان اور سرحد میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ ہمارے کارکنوں نے انتھک اور مخلصانہ جدوجہد کی، اور اگر انہیں ضروری وسائل میسر آجاتے تو مجھے یقین ہے کہ کم از کم بلوچستان میں جمعیۃ علماء اسلام اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آتی، لیکن اس کے باوجود ہماری پوزیشن مضبوط تھی۔ قومی اسمبلی میں بھی ہم نے معتد بہ سیٹیں لیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قومی سطح کی سیاسیات میں کسی بھی حلقے کے لیے ہمیں نظرانداز کرنا مشکل ہو گیا۔ ہم نے قومی سطح کے مذاکرات میں بھی بھرپور حصہ لیا اور اپنی حد تک جمعیۃ کے مقاصد کے لیے کامیاب جدوجہد کی۔

اس کے بعد سرحد اور بلوچستان میں وزارت سازی کے لیے نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ سرحد میں ہمارے ممبر ۴۲ میں سے ۵ تھے، اس کے باوجود معاہدہ ہماری شرائط پر ہوا اور وزارتِ اعلیٰ بھی ہم نے حاصل کی۔ اور یہ بات لائق تحسین ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام نے کمال تدبر اور فراست کے ساتھ اس مرحلہ پر مفید کام کیا اور جمعیۃ بین الاقوامی سطح پر متعارف ہوئی۔

اس ضمن میں ایک بات اور عرض کرنا ضروری ہے کہ مذہبی اور سیاسی محاذوں پر دوسرے مکاتب فکر سے اشتراکِ عمل، عقیدہ اور مسلک کا اتحاد نہیں ہوتا، بلکہ مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مشترکہ قوت کو جمع کر کے محاذ کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔ اب ہمارا جماعتِ اسلامی کے ساتھ سیاسی معاہدہ ہے لیکن اس سے ہمارے عقائد میں کوئی فرق نہیں آیا۔ مودودی صاحب اور ان کے نظریات کے بارے میں ہمارا جو نظریہ پہلے تھا وہ اب بھی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ بریلوی حضرات سے جو اختلافات تھے، وہ اب بھی بحالہ قائم ہیں، صرف مشترکہ مقاصد کے لیے اس حد تک اشتراک ہوا ہے کہ تمام قوتوں کو جمع کر کے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کر لیا جائے۔

ہمارا تعلق دیوبند کثر اللہ جماعتہم سے ہے۔ ہمیں اکابر و اسلاف کے ساتھ اس تعلق پر فخر ہے اور ہم اپنے مسلک پر مضبوطی اور قوت کے ساتھ قائم ہیں، لیکن سیاسی کام کرنے کے لیے بہرحال کچھ وسعت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے اکابر نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور ہم ان کی پیروی کر رہے ہیں۔

حضرت مفتی صاحب نے ملک کی سیاسی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے حکمران پارٹی کی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنایا۔ آپ نے کہا:

بھٹو صاحب نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد جب یہ محسوس کیا کہ وہ اقتدار پر فائز نہیں ہو سکتے تو انہوں نے ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ لگایا اور ایسے عملی اقدامات کیے جس سے ملک تقسیم ہو کر رہ گیا۔ پھر جب مغربی پاکستان میں برسراقتدار آئے تو بلا شرکت غیرے اقتدار پر قابض رہنے کے لیے سرحد اور بلوچستان میں نیپ جمعیت کی اکثریت کو حکومتیں سپرد کرنے میں ٹال مٹول شروع کر دی۔ حتیٰ کہ خواتین کی نشستوں پر نیپ جمعیت کی کامیابی کے بعد مجبوراً انہیں ان دو صوبوں میں جمعیۃ علماء اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کی اکثریت تسلیم کر کے حکومتیں ان کے سپرد کرنا پڑیں۔ لیکن اس کے بعد بھی سازشیں ترک نہ کیں اور صوبائی حکومتوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے ناکام بنانے کی کوششیں شروع کر دیںـ بالآخر لس بیلہ اور پٹ فیڈر میں سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق فسادات کرائے گئے اور جب سردار عطاء اللہ مینگل نے حالات پر قابو پانے کے لیے مرکز سے ملیشیا فورس کی درخواست کی تو انہیں اجازت نہ دی گئی۔ جس پر مجبوراً مینگل کو اپنے قبیلہ کے جوانوں میں اسلحہ تقسیم کر کے حالات کو کنٹرول کرنا پڑا، جسے یہ عنوان دیا گیا کہ سردار عطاء اللہ نے اپنی الگ فوج بنا لی تھی۔ اور ان بے بنیاد بہانوں سے بلوچستان کی وزارت برطرف کر دی گئی اور سرحد کی وزارت نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔

اس کے بعد دونوں صوبوں پر گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ ممبروں کے ضمیر خریدے گئے، جبر و تشدد سے کام لیا گیا، بلوچستان پر فوج کشی کی گئی اور دونوں صوبوں کے محب وطن عوام اور سیاسی کارکنوں پر وحشیانہ تشدد کر کے قیامتِ صغریٰ برپا کر دی گئی۔ شیر پاؤ مرحوم بھی اسی تشدد کی سیاست کا شکار ہوئے اور اس طرح سیاسی مخالفوں کو ختم کرنے کا ایک اور عنوان تلاش کر لیا گیا۔ نیپ خلافِ قانون قرار دے دی گئی، ہزاروں کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ عوام کے منتخب کردہ ارکان اسمبلی جیلوں میں ٹھونس دیے گئے۔ چونکہ یہ مسئلہ اب سپریم کورٹ میں ہے، اس لیے اس پر کچھ کہنا مناسب نہیں، ورنہ زیادہ تفصیل سے عرض کرتا۔

اور اب بلوچستان اور سرحد پر اپنے پنجے مضبوط کرنے کے بعد بھٹو صاحب نے آزاد کشمیر کا رخ کیا ہے اور کشمیری عوام کے منتخب کردہ صدر سردار عبد القیوم کو جبراً اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔ سردار عبد القیوم کا قصور یہ ہے کہ اس نے سب سے پہلے قادیانیوں کے خلاف قرارداد منظور کی اور اسلامی حدود و تعزیرات کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کیا۔ اس پر حکمران پارٹی بہت سیخ پا ہوئی۔ ایک مرکزی وزیر نے مجھ سے کہا کہ سردار عبد القیوم خان پاگل ہو گیا ہے، اس کو سمجھاؤ کہ ایسے اقدامات نہ کرے۔

بھٹو صاحب نے آزاد کشمیر کی حیثیت کو ختم کر کے اسے پاکستان کا صوبہ بنانے کی بات چلائی تاکہ مسئلہ کشمیر کو عملاً ختم کر دیا جائے۔ مگر اپوزیشن کی مؤثر مزاحمت نے بھٹو کے قدم روک دیے۔ پھر کشمیر کونسل قائم کر کے یہ مقاصد بالواسطہ حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن ہم نے واضح کر دیا کہ ہم آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی گوارا نہیں کریں گے۔ کیونکہ بین الاقوامی طور پر یہ بات تسلیم کی جا چکی ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہندوستان اور پاکستان پابند ہیں کہ کشمیر کے عوام کو آزادانہ رائے شماری کر کے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت ختم کر کے اسے پاکستان کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ بنانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ ہندوستان کی طرح پاکستان بھی بین الاقوامی وعدوں سے دستبردار ہو گیا ہے اور مسئلہ کشمیر عملاً ختم کر دیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم نے متحدہ جمہوری محاذ کے پلیٹ فارم پر آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں مسلم کانفرنس اور سردار عبد القیوم کی بھرپور حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ اور ہمارے خیال میں یہ انتخابات امتحانی انتخابات ہیں جن میں یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ کیا آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت کو ختم کر کے مسئلہ کشمیر کو دفن کر دیا جائے؟ یا بھٹو کی اس پالیسی کو شکست دے کر مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھا جائے؟ اس لیے آزاد کشمیر کے عوام کو سوچ سمجھ کر اپنا ووٹ استعمال کرنا ہو گا کیونکہ اس ووٹ کے ذریعے ہی وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

مفتی صاحب نے فرمایا:

دراصل یوں محسوس ہوتا ہے کہ شملہ کانفرنس میں کشمیر کے بارے میں کوئی خفیہ سمجھوتہ ہو گیا تھا اور اب بھٹو صاحب درپردہ اس کی تکمیل کے اقدامات کے ساتھ ساتھ ہڑتالوں اور بیانات کے ذریعہ اس پر پردہ ڈالنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے جماعت کا قیام، وہاں پاکستان فیڈرل سکیورٹی فورس کا استعمال اور اس کی سنگینوں کے سائے میں جمہوری حکومت کی برطرفی، اور وزیر اعظم پاکستان کی سربراہی میں آزاد کشمیر کی فل پاور سپریم کونسل کا قیام اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ لیکن ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے اور آزاد کشمیر کی حیثیت کو ختم کرنے کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

مفتی صاحب نے کہا کہ:

بلوچستان، سرحد اور آزاد کشمیر کے بعد اب سندھ کی طرف دیکھیے، وہاں خود حکمران پارٹی کی سرپرستی میں ’’سندھو دیش‘‘ کی تحریک چل رہی ہے۔ سندھو دیش پر دھڑا دھڑ کتابیں چھپ رہی ہیں، بیسیوں پرچے ڈیکلیریشن کے بغیر چھپ رہے ہیں، اور منظم طریقے سے اس منصوبے کے لیے کام ہو رہا ہے۔ لیکن ہماری حکومت اس پر قابو پانے کی بجائے ’’پختونستان‘‘ کے مفروضہ سٹنٹ کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔ حالانکہ پختونستان کی کسی تحریک کا ملک کے اندر وجود نہیں اور حکومت کا پروپیگنڈہ صرف سندھو دیش کی سازش پر پردہ ڈالنے کی غرض سے کر رہی ہے۔

پنجاب میں بھی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل جاری ہے۔ مختصر مدت میں تین گورنر اور تین وزیر اعلیٰ تبدیل ہو چکے ہیں اور ابھی مزید تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ سیاسی کارکنوں پر وحشیانہ تشدد کیا جا رہا ہے، نوجوانوں کو ننگا کر کے پیٹا گیا ہے۔ مولانا شمس الدینؒ، خواجہ رفیقؒ، ڈاکٹر نذیرؒ، نواب احمد خان، جاوید نذیر، عبد الصمد خان اچکزئی (مرحومین) اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو قتل کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اپوزیشن پارٹیوں کے جیالے کارکن اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس وحشیانہ دور میں حزبِ اختلاف کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا ہی بہت بڑا جہاد ہے۔

مفتی صاحب نے اسمبلیوں کے بائیکاٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:

ہم نے فروری کی ابتدا میں حکمران پارٹی کے بعض اقدامات کے خلاف احتجاج کے طور پر قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ہمیں شکایت تھی کہ حزبِ اختلاف کی طرف سے پیش کردہ سوالات اور تحریکات کو ایوان میں پیش کرنے کی بجائے اسپیکر کے چیمبر میں ہی مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اور اسمبلی کے ایجنڈا کے بارے میں حزبِ اختلاف کو بروقت آگاہ نہیں کیا جاتا۔ اپوزیشن ارکان کو تقاریر کے لیے ان کے حق کے مطابق وقت نہیں دیا جاتا۔

۶ فروری کو حکمران پارٹی سے مذاکرات کے بعد ہمارا معاہدہ ہوا کہ ایجنڈا کے بارے میں اپوزیشن سے مشورہ کیا جائے گا، سوالات اور تحریکات کو چیمبر میں مسترد نہیں کیا جائے گا، اور اپوزیشن ارکان کو بولنے کا پورا موقع دیا جائے گا۔ اسمبلی کے گرفتار شدگان ارکان کو کاروائی میں حصہ لینے کا موقع دینے کے سوال پر بھی غور و خوض کا وعدہ کیا گیا۔ اس معاہدے کا اعلان اسمبلی میں کیا گیا اور اسمبلی نے اس کی توثیق کی، لیکن اس معاہدے کی سیاسی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اسمبلی کے مزید ارکان کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور پھر اپوزیشن سے مشورہ کیے بغیر ایک ترمیمی بل پیش کر دیا گیا جس کے تحت اسمبلی کے ارکان کو اس حق سے محروم کر دیا گیا کہ انہیں اسمبلی کے اجلاس سے ۱۴ دن قبل یا اجلاس کے دوران گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ ہم نے معاہدہ کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا لیکن کوئی بات نہ مانی گئی۔ جس پر ہم نے اسمبلی کے رواں اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا، یہ بائیکاٹ اسی سیشن کے لیے تھا۔ آئندہ اجلاس کا اعلان ہونے کے بعد حزبِ اختلاف دوبارہ بیٹھ کر اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔

آخر میں مفتی صاحب نے ملک کی اقتصادی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ:

آج ملک اقتصادی بحران کا شکار ہے، ملک کا خزانہ خالی ہے، سیلاب اور زلزلہ کے نام سے بھیک مانگ کر گزارہ چلایا جا رہا ہے۔ اشیائے صَرف کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور عوام کی قوتِ خرید جواب دے چکی ہے۔ گندم کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے، ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہے کیونکہ کاشت کے اخراجات بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ لیکن دوسری حکومتیں اناج خرید کر اسے سستے داموں عوام پر بیچتی ہیں اور باقی تاوان خود بھرتی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو اشیائے صَرف ان کی قوتِ خرید کے مطابق قیمتوں پر ملنی چاہئیں۔ گھی کے کارخانے حکومت نے تحویل میں لیے تھے اور کہا تھا کہ یہ اس لیے تاکہ کارخانہ دار قیمتوں میں اضافہ نہ کر سکیں۔ لیکن اس وقت گھی ساڑھے چار روپے سیر تھا جب کہ آج ۹ روپے سیر ہے۔

غرضیکہ ہر معاملے میں حکومت کی پالیسیاں اس کی ناکامی کا ثبوت ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں کوئی نظام نہیں۔ وَن مین گورنمنٹ قائم ہو چکی ہے اور جو کچھ اس کے دل میں آتا ہے بلا روک ٹوک کیے جا رہا ہے، اور ملک قدم بہ قدم تباہی کے کنارے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی لیے آپ حضرات گہرے غور و خوض کے ساتھ ان امور کا جائزہ لیں اور ایسا لائحۂ عمل طے کریں کہ جمعیۃ علماء اسلام ان مسائل کو حل کرنے اور ظلم و جبر کو شکست دینے کے لیے روایتی کردار ادا کر سکے۔

مرکزی مجلسِ شوریٰ کی تیسری نشست عشاء کے بعد ہوئی جس میں صوبائی جمعیۃ کی پیش کردہ تجاویز زیر بحث آئیں۔ چوتھی نشست ۲۹ اپریل کو صبح ۸ بجے ہوئی جس میں ایجنڈا کے باقی امور پر غور و خوض کیا گیا، اور ترجمانِ اسلام کے گزشتہ شمارے میں شائع شدہ اہم فیصلے کیے گئے۔

   
2016ء سے
Flag Counter