حضرت امام حسنؓ کے اُسوہ میں امت کی رہنمائی

   
جامعہ ملیہ اسلامیہ، شاہدرہ، لاہور
۲ فروری ۲۰۲۵ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں شکرگزار ہوں حضرت مولانا عزیر الحسن صاحب اور ان کے رفقاء کا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اس پروگرام میں شرکت کا موقع عنایت فرماتے ہیں۔ اس ادارے میں حاضری اصلاً‌ تو حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب نور اللہ مرقدہ کے ساتھ نسبت کو تازہ رکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ حضرت علامہ خالد محمود صاحبؒ کے ساتھ میرا بچپن سے تعلق رہا ہے، یہاں بھی، برطانیہ میں بھی، اسفار میں بھی، تعلیمی کاموں میں بھی اور تحریکی کاموں میں بھی۔ وہ میرے بڑے مہربان اور مشفق تھے اور میری ان سے نیازمندی تھی۔ ایک زمانے میں یہ مشہور تھا کہ یہ تین آدمی جب اکٹھے ہو جائیں تو کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ حضرت علامہ خالد محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ، اور تیسرا نام میرا ہوتا تھا۔ ہماری طویل رفاقت رہی ہے۔ ان کی شفقتیں، ان کی مہربانیاں، ان کی نوازشیں۔ اور یہ بھی ان کی نوازش ہی ہے کہ وہ کہہ گئے ہیں کہ اسے بلاتے رہنا ہے۔ اللہ پاک مجھے بھی حاضری کی توفیق عطا فرماتے رہیں، آمین۔ میرا جامعہ ملیہ کے ساتھ تعلق ایک تو حضرت علامہ صاحبؒ کی وجہ سے ہے، اور اس حوالے سے بھی ہے کہ مجھے یہ اسلوب بہت اچھا لگا ہے کہ ہر سال کسی شخصیت کے عنوان سے بات ہوتی ہے۔ یہ انوکھا پہلو ہے اور بڑا نادر سا رُخ ہے کہ ایک شخصیت کا انتخاب ہوتا ہے اور اسی کے گرد بات گھومتی ہے اور اس شخصیت سے متعارف کرایا جاتا ہے۔

مجھے دو حوالوں سے یہ بات خوشی کی لگتی ہے۔ ایک تو یہ کہ بہرحال اقتدا تو کسی شخصیت کی ہی کرنی ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے جب ’’صراط الذین انعمت علیہم‘‘ کہا تو یہ نہیں کہا کہ اصولوں کی پیروی کرنی ہے، بلکہ کہا ہے کہ شخصیتوں کی پیروی کرنی ہے۔ اصول کتابوں میں ہوتے ہیں اور ان کی عملی صورت شخصیات ہوتی ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ کتابوں میں تھیوری ہوتی ہے اور ان کا پریکٹیکل شخصیات میں ہوتا ہے۔ اور پیروی تو بہرحال پریٹیکل کی کرنی ہوتی ہے یعنی ہم نے اپنے اصولوں اور قوانین و ضوابط کے لیے کسی شخصیت کو آئیڈیل بنانا ہوتا ہے۔

میں مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں، ہمارے ائمہ کا بھی یہی طریقہ تھا کہ کوئی مسئلہ بیان کرتے تھے تو ساتھ کسی آئیڈیل شخصیت کا بھی ذکر کر دیتے تھے۔ ابھی اس دن سبق میں یہ بات آ گئی کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید کے حقوق میں سے ایک حق ذکر کیا کہ ’’الوقوف عند کتاب اللہ‘‘ قرآن مجید کا کوئی حکم سامنے آنے پر انسان ٹھہر جائے اور سوچے۔ اور ساتھ ہی ذکر کیا کہ اس کے آئیڈیل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ’’کان وقافاً‌ عند کتاب اللہ‘‘۔ وقوف کو اگر عملی شکل میں دیکھنا ہے تو حضرت عمرؓ کے بارے میں یہ آتا ہے، اور پھر امام بخاریؒ نے ان کے بارے میں واقعات بھی ذکر کیے ہیں۔

ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ ہم شخصیات کے ساتھ عقیدت و محبت رکھتے ہیں، ان کے نام کے نعرے لگاتے ہیں، دفاع بھی کرتے ہیں، اور سب کچھ کرتے ہیں لیکن ان سے واقفیت نہیں رکھتے۔ میں اپنے طلبہ سے عرض کیا کرتا ہوں کہ ہم عقیدت اور محبت کے دائرے میں ہی رہتے ہیں، جن بزرگوں سے عقیدت اور محبت ہوتی ہے ان کو پڑھ بھی لینا چاہیے کہ انہوں نے آخر کیا کیا ہے۔ کسی شخصیت سے واقف ہو جانا اور اس کے کارناموں اور خدمات سے آگاہی حاصل کرنا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا یہ سالانہ جلسہ مجھے اس لیے بھی اچھا لگتا ہے کہ کسی ایک شخصیت سے نئی نسل کو متعارف کی کوشش ہوتی ہے اور کافی حد تک کام ہو جاتا ہے۔

اس تناظر میں حضرت علامہ صاحبؒ کے لیے دعا کرتے ہوئے کہ اللہ پاک ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں اور ان کا یہ جو مشن ہے علمی، تحریکی، تبلیغی، تعلیمی، اللہ پاک اس کو ہمیشہ جاری رکھیں اور ان کے رفقاء کو یہ کام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں (آمین)۔

آج کی گفتگو کی شخصیت سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جن کے فضائل و مناقب احادیث میں بہت ہیں، ان میں سے ایک دو کا میں بھی تبرکاً‌ ذکر کروں گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے نواسے حضرت حسنؓ کو سینے سے لگایا اور ارشاد فرمایا ’’اللہم انی احبہ فاحبہ واحب من یحبہ‘‘ یا اللہ! مجھے اس سے محبت ہے، تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جنہیں اس سے محبت ہو۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد تو مجھے حضرت حسنؓ سے محبت ہی ہو گئی کہ ان سے محبت کرنے کی وجہ سے اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ سارے صحابہ کرامؓ ایسے ہی تھے لیکن ان کا امتیاز تھا۔

میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ جب ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہتے ہیں نا تو وہ سب دائروں کو محیط ہوتا ہے۔ وہ مہاجرین بھی ہوتے ہیں، انصار بھی ہوتے ہیں، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہراتؓ بھی ہوتی ہیں، ’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ اور یہ تینوں طبقے صحابیت میں، مقتدا ہونے میں اور مثالی ہونے میں ہمارے لیے یکساں ہیں۔ ’’اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم‘‘ کسی ایک کے پیچھے لگ جاؤ گے تو نجات مل جائے گی۔

اس پر ایک واقعہ یاد آ گیا۔ غالباً‌ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تحفۂ اثنا عشریہ‘‘ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ حرم شریف میں حضرت امام زین العابدین رحمہ اللہ تعالیٰ تشریف فرما تھے، مجلس لگی ہوئی تھی، لوگ ان سے دعا کے لیے کہہ رہے تھے، مسائل پوچھ رہے تھے۔ ایک شخص آیا اور اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ایک سوال کیا، لیکن اس کا لہجہ ٹھیک نہیں تھا۔ سوال اپنی جگہ ہوتا ہے، سوال کا لہجہ اپنی جگہ ہوتا ہے۔ امام صاحبؒ کو اس کا لہجہ پسند نہیں آیا، کہا بیٹھ جاؤ۔ اس سے پوچھا، پہلے تم بتاؤ کہ تم کون ہو؟ کیا تم مہاجرین میں سے ہو؟ کہا، نہیں۔ انصار میں سے ہو؟ کہا، نہیں۔

حضرت امام زین العابدینؒ نے فرمایا کہ قرآن مجید نے مومنین کے تین طبقے بیان کیے ہیں: پہلا طبقہ ’’للفقراء المہاجرین الذین اخرجوا من دیارہم‘‘ (الحشر ۸) مہاجرین کا ہے۔ دوسرا طبقہ ’’والذین تبوؤ الدار والایمان‘‘ (الحشر ۹) انصار کا ہے۔ تیسرا طبقہ ’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘ (التوبۃ ۱۰۰) کا ہے جو یہ دعا مانگتے ہیں کہ ’’ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین اٰمنوا‘‘۔ تیسرا طبقہ قیامت تک یہی ہے اور ان کی علامت یہ ہے کہ وہ گزرے ہوؤں کے بارے میں اپنے دلوں میں کینہ نہیں رکھتے اور یہ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ پہلوں کے بارے میں دل میں کدورت نہ آجائے۔ حضرت امام صاحبؒ نے فرمایا، تم کہتے ہو کہ میں مہاجرین سے بھی نہیں ہوں اور انصار سے بھی نہیں ہوں۔ اور جس لہجے میں تم نے سوال کیا ہے اور حضرت عثمانؓ کا تذکرہ کیا ہے، میں کہتا ہوں کہ تم تیسرے طبقے سے بھی نہیں ہو، اس لیے پہلے اپنا بتاؤ کہ تم کون ہو، پھر اس سوال کا جواب دوں گا۔

یہ معیار ہمیں ہمارے بزرگوں نے بتایا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کسی بھی طبقے کا صحابی ہو، اس کے ساتھ عقیدت اور محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، درجہ بندی اپنے مقام پر ہے، لیکن ہر صحابی ہماری عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز ہے اور ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔ ایک بات درمیان میں عرض کر دوں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ لوگ تھے جن کے بارے میں قرآن مجید نے کہا ’’ومن الناس من یقول اٰمنا باللہ وبالیوم الآخر وما ھم بمؤمنین‘‘ (البقرہ ۸) وہ کہتے یہی ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر بھی اور آخرت پر بھی لیکن وہ مسلمان نہیں ہیں۔ ایک جگہ فرمایا ’’اذا جآءک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ‘‘ (المنافقون ۱) منافق آپ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ ’’واللہ یعلم انک لرسولہ‘‘ اللہ کو پتہ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ ’’واللہ یشھد ان المنافقین لکاذبون‘‘ ۔ اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔

میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس تناظر میں اللہ رب العزت نے مومن کی علامت کیا بیان فرمائی ہے؟ یعنی اس شک کے ماحول میں، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں جبکہ وہ مسلمان نہیں ہیں، قسمیں اٹھاتے ہیں کہ ہمارا ایمان ہے جبکہ ان کا ایمان نہیں ہے، اس تناظر میں اللہ رب العزت نے ایمان کا معیار کیا بتایا ہے؟ ’’فان اٰمنوا بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا وان تولوا فانما ھم فی شقاق‘‘۔ اس میں ’’بمثل ما اٰمنتم بہ‘‘ کون لوگ ہیں؟ یہ صحابہ کرامؓ ہیں جو ہمارے مقتدا ہیں اور ہمارے ایمان اور عمل کا معیار ہیں۔ درجہ بندی اپنے مقام پر ہے، میں اس بحث میں نہیں پڑتا، ہمارے ہاں جسے کہتے ہیں سنیارٹی کا لحاظ کرنا کہ کون سینئر ہے کون جونیئر ہے، وہ بات اپنی جگہ پر ہے۔

حضرت امام حسنؓ کے حوالے سے ایک بات تو میں نے یہ عرض کی کہ ان کے ساتھ محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے، اور یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت امام حسنؓ کے ساتھ میری محبت دوچند ہو گئی۔

ایک اور واقعہ ذہن میں آ گیا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے احترام کا ماحول اُس زمانے میں کیا تھا؟ ایک واقعہ میں نے پڑھا، حضرت محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت علیؓ کے بیٹے ہیں، لیکن فرق کے لیے محمد بن حنفیہ کہلاتے ہیں، تابعین میں سے ہیں، بڑے ائمہ میں سے ہیں۔ بڑا دلچسپ واقعہ پڑھا میں نے، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میری بھائی جان حضرت امام حسنؓ سے کوئی ناراضگی ہو گئی، کچھ دیر کے لیے ہمارا آنا جانا چھوٹ گیا۔ کہتے ہیں ایک دن مجھے خیال آیا کہ بڑے بھائی ہیں، باتیں ہو جاتی ہیں، مجھے جا کر بھائی جان سے معافی مانگنی چاہیے، لیکن پھر میرے دل میں خیال آیا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دو مسلمانوں میں گفتگو بند ہو جائے تو پہل کرنے والا ان دونوں میں سے بہتر ہوتا ہے، اب میں پہل کروں گا تو یہ بات ٹھیک نہیں ہو گی۔ اللہ اکبر۔ محمد بن حنفیہؒ فرماتے ہیں میرا جی چاہتا ہے پہل کرنے کو، لیکن بہتر وہ ہیں، اس لیے مجھے کافی دن جھجھک رہی۔

یہ بات انہوں نے کہیں ذکر کر دی کہ بھائی جان حضرت امام حسنؓ ناراض ہیں، میں انہیں منانے کے لیے جانا چاہتا ہوں لیکن رکاوٹ یہ ہے کہ وہ ’’بہتر ہونا‘‘ میری طرف منتقل نہ ہو جائے۔ جس صاحب سے ذکر کیا، انہوں نے جا کر حضرت امام حسنؓ کو بتا دیا کہ وہ آپ کا بھائی اس احساس کے ساتھ آپ کے پاس نہیں آ رہا۔ پھر حضرت حسنؓ خود تشریف لائے۔ اللہ کرے کہ ان لوگوں کے آپس کے تعلقات کی، ایک دوسرے کے احترام کی، اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والی یہ بات ہم میں بھی آجائے۔ اور فرقِ تفاوت کا لحاظ رکھنا اخلاقیات کا بھی حصہ ہے اور ایمان کا بھی۔

حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بے شمار فضائل اور مناقب احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ بخاری شریف کی روایت ہے حضرت انس فرماتے ہیں کہ ’’لم یکن احد اشبہ بالنبیؐ من الحسن بن علی‘‘ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت ان کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت حسنؓ کا اوپر کا دھڑ حضورؐ سے مشابہ تھا اور حضرت حسینؓ کا نیچے کا دھڑ حضورؐ سے مشابہ تھا۔ یہ اللہ پاک نے تقسیم کر دی تھی۔ یہ بھی ایک لطیفہ لکھا ہے محدثین نے کہ ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت علیؓ اکٹھے جا رہے تھے، دیکھا کہ حضرت حسنؓ سامنے سے آ رہے تھے، اس وقت بچے تھے، حضرت صدیق اکبرؓ نے اٹھا کر پیار کیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ یہ باپ پر نہیں گیا، نانے پر گیا ہے۔ حضرت علیؓ ساتھ کھڑے ہیں اور مسکرا رہے ہیں۔ چہرہ مہرہ کے حوالے سے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت تھی، اس سے بڑی سعادت کی بات اور کیا ہو گی۔

حضرت حسنؓ کا سب سے بڑا کردار جس پر پوری امت ان کی احسان مند ہے کہ انہوں ایک بڑی خوفناک جنگ سے امت کو بچا لیا تھا۔ مؤرخین اپنے اپنے انداز میں ذکر کرتے ہیں، امام بخاریؒ نے اپنے انداز میں ذکر کیا ہے۔ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت ہوئی، ظاہر بات ہے کہ اس ماحول میں ان کی جگہ حضرت حسنؓ نے ہی آنا تھا کہ وہ ہر حوالے سے اس کے لیے لوگوں کی پسندیدہ شخصیت تھے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ سارے عناصر جو پہلے دبے ہوئے تھے وہ سامنے آ گئے۔ بخاری کی روایت کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دمشق میں یہ خبر ملی کہ لشکر اکٹھے ہو رہے ہیں، اور لوگوں نے کہا کہ حضرت تیاری کریں، لشکر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تیاری تو میں کر لوں گا لیکن ’’فمن للمسلمين واھلھم؟‘‘ لڑائی کے بعد یتیموں اور بیواؤں کو کون سنبھالے گا؟ فرمایا، میں نہیں لڑتا، ایک دفعہ صلح کی کوشش کر لیتے ہیں۔

حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جن کی سلطنت بھی بہت بڑی تھی، ان کی محبت بھی بہت بڑی تھی، وہ عقیدت کا مرکز تھے۔ شخصیات میں اس وقت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ میں، اہلِ بیت عظامؓ میں عقیدتوں کا سب سے بڑا مرکز حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذاتِ گرامی تھی۔ لیکن انہوں نے لڑائی پر صلح کو ترجیح دی اور امت کو ایک بڑے بحران سے بچا لیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی معروف ہے جس کا ہم بار بار ذکر کرتے ہیں۔ بخاری شریف کی روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، حضرت حسنؓ سامنے کھیل رہے تھے، چھوٹے بچے تھے، چھ سات سال کی عمر ہو گی، کہیں کپڑا پاؤں سے اٹکا تو گر پڑے، حضورؐ منبر پر تھے۔ کہتے ہیں کہ نواسے اور پوتے اپنی اولاد سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں، فطری بات ہے کہ اولاد کی اولاد زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ حضورؐ منبر سے اتر کر گئے اور گود میں اٹھایا، کپڑے جھاڑے، منبر پر ساتھ لے آئے، اب کندھے کے ساتھ لگایا ہوا ہے اور اس وقت یہ فرمایا ’’ان ابنی ھذا سيد ‏‏‏‏‏‏ولعل اللہ ان يصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین‘‘ میرا بیٹا سردار ہے، اس کے ذریعے اللہ پاک مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔

حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قربانی دے کر امت پر احسان کیا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا فرمایا۔ اور پھر اگلی بات کہ جو زندگی بھی باقی تھی وہ صلح میں ہی گزاری ہے۔ وقتی دباؤ میں صلح کر لینا آسان ہوتا ہے مگر اسے نبھانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے دباؤ میں صلح نہیں کی تھی، انہیں اپنے نانا کی وہ بات یاد تھی کہ یہ میرا بیٹا صلح کرائے گا۔ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں دونوں بھائیوں نے یہ صلح نبھائی ہے۔ میں تاریخ کا ایک طالب علم ہوں، میری نظر میں یہ صلح سے بڑا کارنامہ ہے کہ اس ماحول میں زندگی گزارنا کہ ہم نے امیر مان لیا ہے تو بس مان لیا ہے، یہ بڑی عظیمت کی بات تھی۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ اور ان کا یہ اُسوہ کہ امت میں جوڑ پیدا کرنا اور دشمن کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دینا، اس حوالے سے میں آخری بات عرض کرنے لگا ہوں کہ آج کا ہمارا دور کیا ہے؟ اُس وقت زیادہ جھگڑوں کا دور تھا یا آج زیادہ جھگڑوں کا دور ہے؟ ہماری افراتفری کا عالم یہ ہے، اللہ پاک امتِ مسلمہ کے حال پہ رحم فرمائے، کہ ہم ایک فلسطین کے مسئلہ پر بھی اکٹھے بیٹھ کر کوئی موقف دینے کو تیار نہیں ہیں۔ فلسطین کی صورتحال یہ ہے کہ جنگ بندی تو ہو گئی ہے لیکن ٹرمپ صاحب کیا فرما رہے ہیں؟ غزہ کا علاقہ جو فلسطینیوں سے مسلسل جنگوں میں بھی اسرائیل خالی نہیں کروا سکا، اور سوا سال کی اس جنگ میں بھی نہیں، میں نے آج بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ ٹرمپ صاحب یہ علاقہ سیاسی دباؤ کے ذریعے خالی کروا کر اسرائیل کو گفٹ میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اتنا سنگین مسئلہ ہے اور آج ہمارے مسلمان حکمرانوں کا حال کیا ہے؟ حضرت حسنؓ کی اور حضرت معاویہؓ کی صلح دو حکومتوں کے درمیان ہی ہوئی تھی نا۔ آج ہم اتنے سنگین بحران کا شکار ہیں لیکن ہمارے حکمران اکٹھے بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔

ہمارے لیے آج کے دور میں امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب سے بڑا اُسوہ یہ ہے کہ ہم آپس کے جھگڑوں کو نظر انداز کر کے اکٹھے بیٹھیں اور امت کی قیادت کا جو صحیح فریضہ ہے وہ ادا کریں، امت کو متحد کریں، اور امت پر جو عالمی قوتیں پنجے گاڑے بیٹھی ہیں، ان سے امت کو چھڑوانے کی کوشش کریں۔ ہمارے لیے امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ امت میں وحدت کا ماحول پیدا کریں اور غیرت کا ماحول پیدا کریں، اپنے مسائل کو سمجھیں، اپنی صورتحال کو سنبھالیں اور اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ’’یصلح اللہ بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین‘‘ آج بھی کوئی اللہ کا بندہ کھڑا ہو جو مسلمانوں کو اکٹھا کر کے کفر کے مقابلے میں، استعمار کے مقابلے میں کھڑا کر دے، اللہ کرے ایسا ہو جائے۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter