ائمہ وخطبا کی مشکلات ۔ مسائل اور ذمہ داریاں

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
جون ۲۰۱۲ء

(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب)

سب سے پہلے تو میں مولانا مفتی محمد زاہد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے تاثرات، مشاہدات اور تجربات سے مستفید فرمایا۔ دو تین باتوں کے ساتھ میں بھی اس میں شرکت کرنا چاہوں گا۔ تجربات تو بہت ہیں لیکن مشاہدات کی بات کروں گا۔ آج کل خطباء کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے، جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کہ لوگ جمعۃ المبارک کے دن بالکل خطبہ کے وقت آتے ہیں، خطبہ سنتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، حاضرین کو گفتگو سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ اکثر مساجد میں یہی ہوتا ہے جس کی ایک وجہ میں عرض کرتا ہوں۔

آج سے دس پندرہ سال پہلے جنگ اخبار لندن میں ایک نوجوان کا مراسلہ شائع ہوا، اس نے لکھا کہ اب ہم نے یہاں مساجد میں جانا کم کر دیا ہے جس کی تین وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ خطیب صاحب جس موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں وہ ہماری دلچسپی کا موضوع نہیں ہوتا۔ ہماری ضرورت کے مسائل اور ہیں، حلال و حرام کے مسائل، معاشرت، نکاح، طلاق کے مسائل ہیں جبکہ وہ کسی اور موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے جو وہ کہہ رہے ہوتے ہیں اس سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جس زبان میں وہ بات کر رہے ہوتے ہیں وہ ہمیں سمجھ نہیں آتی، ان کی زبان اور ہے اور ہماری زبان اور ہے۔ یہ اُدھر کا مسئلہ ہے کہ نئی نسل ہماری زبان و اسلوب کو نہیں جانتی۔ اور تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم تو مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جاتے ہیں لیکن تقریباً ہر نماز کے بعد کوئی صاحب اٹھتے ہیں اور اپیل کرنے لگتے ہیں یا دامن پھیلا دیتے ہیں، ہم چندہ دینے تو نہیں جاتے ہم تو مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں، ہر نماز کے بعد تو ہم چندہ نہیں دے سکتے۔ یہ تین وجوہات اس نے اپنے مراسلہ میں لکھی تھیں۔

ایک اور مشاہدہ عرض کرتا ہوں کہ برطانیہ کے شہر برمنگھم میں سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس ہوتی ہے جس کا دورانیہ صبح نو بجے سے لے کر شام آٹھ بجے تک وقت ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ وہاں کانفرنس ہوئی، میں نے بھی تقریباً بیس پچیس منٹ بات کی۔ ہمارے پنجاب کے جسٹس نذیر غازی صاحب بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور تحریک ختم نبوت میں ہمیشہ ساتھ رہے ہیں۔ اس وقت وہ پنجاب کے ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل تھے، انہوں نے بھی وہاں تقریر کی۔ شام کو نو دس گھنٹے کی کانفرنس کے بعد جب عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہو کر نکل رہے تھے تو ایک نوجوان نے مجھے پکڑ لیا کہ مولوی صاحب میری بات سنیں۔ ہم صبح سے یہاں ہیں، ثواب کی نیت سے آئے ہیں اور ثواب کی نیت سے بیٹھے ہیں لیکن سمجھ کچھ نہیں آیا کہ آپ لوگوں نے کیا کہا ہے۔ کچھ آپ کی بات سمجھ میں آئی ہے اور کچھ نذیر صاحب کی تقریر سمجھ میں آئی ہے، باقی ہمیں کچھ پتہ نہیں چلا کہ آپ ہمیں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔

آج کی اصطلاحات، آج کا اسلوب اور آج کی نفسیات بالکل مختلف ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے کے اسلوب سے آج کی زبان بدل گئی ہے، معیار بدل گیا ہے، محاورے بدل گئے ہیں، نفسیات بدل گئی ہے۔ بات سمجھانے کے لیے عرض کرتا ہوں کہ ہمارے بڑے مفکرین میں سے ایک مولانا ابو الکلام آزاد گزرے ہیں۔ ان کی خطابت اپنے دور کی پُرشکوہ خطابت تھی اور اس زمانہ میں معیاری سمجھی جاتی تھی۔ لیکن آج اگر ان کے لہجے میں بات کریں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ مولانا صاحب کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہیں؟ ایک لطیفہ بھی ہے اس بارے میں، معلوم نہیں کہ لوگوں نے خود گھڑا ہے یا واقعی سچ ہے۔ کہتے ہیں کچھ لوگ مولانا آزادؒ کے پاس آئے اور انہوں نے کوئی سوال پوچھا۔ مولانا صاحب نے اپنے انداز میں کوئی جواب دیا جس میں آدھی فارسی آدھی عربی تھی۔ یہ آج سے پچاس سال پہلے کی گفتگو تھی ۔ اس زمانے میں جتنی مشکل گفتگو ہوتی تھی اور جتنے مشکل کوئی محاورے بولتا تھا وہ اتنا ہی بڑا خطیب سمجھا جاتا تھا کہ اس دور میں خطابت کا معیار یہی تھا۔ مولانا صاحب نے ان دیہاتیوں کو اپنی زبان میں جواب دیا تو چوہدری اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ چلو بھئی چلتے ہیں کیونکہ مولانا صاحب تو اس وقت کوئی وظیفہ کر رہے ہیں۔

آج سے پچاس سال پہلے گفتگو کا معیار یہ تھا کہ آپ نے عشاء کی نماز کے بعد گفتگو شروع کی ہے اور صبح فجر ہو گئی ہے، لوگوں کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا وہ آرام سے بیٹھے سن رہے ہیں۔ لیکن آج کے دور میں ایسا نہیں ہوتا، اب آپ آدھ گھنٹے سے زیادہ بات کریں گے تو لوگ سوچیں گے کہ مولوی صاحب بس بھی کرو۔ آج اگر آپ مختصر وقت میں اور سادہ لہجے میں بات کریں گے تو بات بنے گی۔ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے ایک مرتبہ مجھے خطابت پر لیکچر دیا تھا، اس کا صرف ایک جملہ میں عرض کروں گا۔ مولانا فرمایا کہ ’’مولوی صاحب! خطیب کینوں کہندے نیں؟ جے سامنے بیٹھے بندے تیری گل سمجھ دے نیں تے توں خطیب ایں، نہیں تے گھٹا تے سواہ ایں‘‘۔ (مولوی صاحب! خطیب کسے کہتے ہیں؟ اگر سامنے بیٹھے لوگ تمہاری بات سمجھ رہے ہیں تو تم خطیب ہو، ورنہ خاک ہو۔)

آج کی خطابت یہ نہیں ہے کہ مولوی صاحب تقریر کر کے جائیں تو لوگ کہیں کہ واہ واہ بہت زبردست تقریر کی ہے لیکن جب پوچھا جائے کہ مولوی صاحب نے کہا کیا تھا تو جواب ملے کچھ پتہ نہیں ہے۔ ہمیں یہ محسوس کرنا چاہیے کہ ہمارے ساتھ لوگوں کے انس کی کمی کے اسباب کیا ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کے مانوس لہجے میں بات نہیں کرتے، لوگوں کی نفسیات کے مطابق بات نہیں کرتے۔ ہماری خطابت وہی پرانی، مناظرانہ، مجادلانہ، طعن و تشنیع اور بازو کس لینا۔ ہماری خطابت آج سے تیس سال پہلے والے مقام پر کھڑی ہے۔ اور اب جو خطابت کے میدان میں تبدیلی آئی ہے وہ ہم نے محسوس نہیں کی، اس کو اپنایا نہیں ہے۔ آج کی زبان اور تحریر دونوں سادہ ہیں۔ آپ جتنی سادہ، مختصر اور بامقصد بات کریں گے اتنے بڑے آپ خطیب ہیں۔

دوسری بات جس کا میں اکثر ذکر کیا کرتا ہوں کہ اب عام پڑھے لکھے لوگوں کے پاس دینی معلومات کا ذریعہ صرف میں اور آپ نہیں ہیں۔ آج سے تیس چالیس سال پہلے دینی معلومات کا ذریعہ ہم ہی تھے۔ تب پڑھا لکھا آدمی بھی ہماری دی ہوئی معلومات کو درست سمجھ لیتا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ درست معلومات ہوں یا غلط، لیکن میرے اور آپ کے علاوہ لوگوں کے پاس معلومات کے اور ذرائع بھی ہیں۔ کوئی انٹرنیٹ پر بیٹھا ہے، کوئی چینل کے پروگرام دیکھتا ہے، کوئی اخبارات و میگزین پڑھتا ہے۔ میں غلط یا صحیح معلومات کی بات نہیں کر رہا، لیکن اس کی معلومات کا دائرہ ہم سے وسیع ہے۔ آج کے اس میڈیا کے پھیلاؤ نے عام آدمی کو معلومات کی بہت سی کھڑکیاں دے دی ہیں۔ وہ اپنی میز پر بیٹھے بیٹھے بٹن دباتا ہے اور طرح طرح کی معلومات لے لیتا ہے، اس کے بعد وہ آپ سے مسئلہ پوچھتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے قارئین کو مطمئن کرنے کے لیے اپنی معلومات کا دائرہ وسیع کرنا پڑے گا۔ ہمیں معلومات کے ساتھ محاکمہ بھی کرنا پڑے گا۔ عام آدمی صرف معلومات پر فیصلہ کرے گا۔ یہ ہمارا کام ہے کہ ہمارے پاس جو معلومات ہیں ہم اس پر ٹھیک فیصلہ کریں کہ یہ درست اور شرعی دلیل کی بات ہے، جبکہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ جبکہ ہم یہ کام نہیں کر رہے کہ نہ ہماری معلومات کا دائرہ وسیع ہے اور نہ ہم لوگوں کی ذہنی سطح پر آرہے ہیں۔ ہم تو بہت سی جگہوں پر خارجی مطالعہ کو ویسے بھی حرام سمجھتے ہیں۔

ایک دفعہ میں کوئی کتاب دیکھ رہا تھا جو کسی دینی مسئلے پر تھی اور ایک پروفیسر صاحب کی لکھی ہوئی تھی۔ ایک صاحب مجھے دیکھ کر پریشان ہوگئے کہ مولوی صاحب! آپ یہ کتابیں پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں بھئی پڑھتا ہوں، معلومات تو جہاں سے بھی ملیں لے لینی چاہئیں۔ دیکھیں، لوگ ہمارے پاس کس لیے آتے ہیں؟ دینی معلومات لینے کے لیے۔ دروس، تقاریر اور جمعہ کے خطبات کیوں سنتے ہیں؟ اگر وہی بات انہیں رات کو کسی چینل پر مجھ سے اچھے لہجے میں مل جائے تو وہ میرے پاس کیوں آئیں گے؟ بات اسلوب کی ہوتی ہے، لہجے کی ہوتی ہے، شائستگی کی ہوتی ہے۔ جو بات میں لڑائی کے انداز میں کر رہا ہوں، وہ رات کو چینل پر بیٹھے ہوئے صاحب بڑی محبت کے انداز میں کر رہے ہیں تو پھر سننے والے کو وہ بات زیادہ پسند آ جائے گی کہ اس نے کتنی اچھی بات کہی ہے۔

میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ حالات میں جو تبدیلیاں آئی ہیں انہیں محسوس کرنا چاہیے۔ حالات کے مطابق ڈھلنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اپنا موقف، اپنا مذہب یا اپنا عقیدہ چھوڑ دوں۔ نہیں، لیکن اپنے لہجے کو، اسلوب کو، اپنی گفتگو کے طریقے کو اور تحریر کے انداز کو آج کے حالات کے مطابق بہرحال اپنانا ہوگا۔ ہم لوگ درسِ نظامی میں بڑے شوق سے مقاماتِ حریری اور مقاماتِ ہمدانی پڑھتے ہیں۔ کیا آج اس زبان میں آپ خطبہ دیں گے؟ وہ ہزار سال پہلے کی زبان ہے، اس دور کی زبان سے واقفیت کی اپنی افادیت ہے لیکن آج اگر حریری کا کوئی خطبہ آپ نقل کریں گے تو لوگ کہیں گے کہ مولوی صاحب وظیفہ اور منتر کر رہے ہیں۔ آج کا اسلوب اختیار کریں اور لوگوں کی ذہنی سطح سمجھیں۔ لوگوں کے ہم سے دور ہونے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے جو میں نے عرض کیا ہے۔

میں آخر میں یہ کہوں گا کہ جو کچھ علماء کرام نے تجاویز پیش کی ہیں ہم ان کو مرتب کر کے شائع کریں گے، اور یہ سیمینار ہمارا آخری سیمینار نہیں ہے، ان شاء اللہ۔ جب تک ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے ہم یہ سیمینار چلاتے رہیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے اور آپ کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس پر ایک جامع رپورٹ آئے گی کہ ائمہ اور خطباء کے مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے۔ میں آخر میں سب حضرات کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔

2016ء سے
Flag Counter