دینی مدارس کی اسناد کا مسئلہ

   
جولائی ۲۰۰۳ء

اخباری اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکر، سینٹ کے چیئرمین اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے متحدہ مجلس عمل کے متعدد منتخب ارکان پارلیمنٹ کی ان تعلیمی اسناد کو چیلنج کر دیا گیا ہے جن کی بنیاد پر انہوں نے گزشتہ انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

صدر پرویز مشرف نے ملک کے آئین میں ترامیم کرتے ہوئے جو نئے ضابطے نافذ کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے گریجویشن کی شرط عائد کردی گئی تھی جس کے تحت جو شہری بی اے نہیں ہے وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔ اس حوالہ سے متحدہ مجلس عمل کے بیشتر انتخابی امیدواروں پر اعتراض کیا گیا تھا کہ وہ دینی مدارس کے فضلاء ہیں اور انہوں نے بی اے نہیںِ کیا اس لیے وہ الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں ۔ اس کے جواب میں متحدہ مجلس عمل کے راہنماؤں نے چیف الیکشن کمیشن کے سامنے یونیورسٹی گرانٹس کا نوٹیفکیشن پیش کیا جس میں دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کی عالمیہ کی اسناد کو ایم اے اسلامیات و عربی کے برابر تسلیم کیا گیا ہے جس پر چیف الیکشن نے فیصلہ دیا کہ جن امیدواروں کے پاس کسی تسلیم شدہ وفاق کی عالمیہ کی سند موجود ہے اسے گریجویٹ سمجھا جائے گا اور وہ الیکشن میں حصہ لے سکے گا۔ چنانچہ اس کے تحت ملک بھر میں بہت سے علماء کرام نے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لیا اور منتخب ہوگئے۔ اب اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اسلام آباد کے ایک قانون دان محمد اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے عدالت عظمٰی میں اور مولوی سید اقبال حیدر ایڈووکیٹ نے سینٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کے سامنے درخواست پیش کی ہے جس میں دینی مدارس کی ان اسناد کو چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کے ان ارکان کی رکنیت کالعدم قرار دی جائے جنہوں نے دینی مدارس کی اسناد کی بنیاد پر انتخابات میںِ کامیابی حاصل کی ہے۔

جہاں تک درس نظامی کی اسناد کا تعلق ہے اس سلسلہ میں سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں قومی اسمبلی نے ایک قرار داد کے ذریعہ سفارش کی تھی کہ درس نظامی کے فضلاء کی اسناد کو ایم اے کے برابر تسلیم کیا جائے کیونکہ تعلیمی معیار کے لحاظ سے درس نظامی کے فضلاء ایم اے کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ اس قرار داد کی بنیاد پر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے، جو اسناد کی حیثیت متعین کرنے کا دستوری ادارہ ہے، دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کے ساتھ طویل مذاکرات، دینی مدارس کے تعلیمی اور امتحانی نظام کے مسلسل جائزہ اور اس میں متعدد اصلاحات و ترامیم تجویز کرنے کے بعد باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا کہ دینی مدارس کے وفاقوں کی ثانویہ عامہ، ثانویہ خاصہ، عالیہ اور عالمیہ کی اسناد بالترتیب میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے کے برابر ہوں گی اور انہیں ملک کے دیگر ادارے تعلیمی مقاصد کے لیے قبول کرنے کے پابند ہوں گے۔ چنانچہ اس نوٹیفکیشن کے مطابق ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں درس نظامی کے بہت سے فضلاء نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے حوالہ سے تعلیمی پیشرفت کی ہے اور انہیں ہر سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ لیکن اب اس بات کو بہانہ بنا کر کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ان اسناد کو صرف تعلیمی مقاصد کے لیے ایم اے کے برابر تسلیم کیا تھا اس لیے دوسرے شعبوں میں ان اسناد کو ایم اے کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا، ان اسناد کو چیلنج کر دیا گیا ہے جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ متحدہ مجلس عمل کو دباؤ میں رکھا جائے اور بوقت ضرورت ملک کے دینی حلقوں اور علماء کرام کو انتخابی سیاست کے میدان سے کلیۃً خارج کرنے کے لیے اسے بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکے۔

معاملہ چونکہ عدالت عظمیٰ میں زیر بحث ہے اس لیے ہم اس پر زیادہ گفتگو نہیں کر سکتے البتہ سردست اتنی بات ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ملکی اور عالمی سطح پر دینی مدارس اور دینی حلقوں کے خلاف کردار کشی کی جو مہم جاری ہے اور دین اور اس کے نمائندوں کو قومی معاملات اور سیاسی عمل سے بے دخل کرنے کے لیے جس سطح پر کام ہو رہا ہے اس کے پیش نظر یہ مسئلہ انتہائی سنجیدہ اور سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے، اس لیے دینی مدارس کے وفاقوں کو اس کا اسی سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیتے ہوئے اس سلسلہ میں مشترکہ اور ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter