رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت کا سالانہ عالمی اجتماع گزشتہ شام کو شروع ہوگیا ہے جو دو مرحلوں میں ہوگا۔ پہلا مرحلہ ۹ نومبر اتوار کو صبح چاشت کے وقت دعا پر اختتام پذیر ہوگا جبکہ دوسرا مرحلہ ۱۳ نومبر جمعرات کی شام کو شروع ہوگا اور ۱۶ نومبر اتور کو صبح اس کی اختتامی دعا ہوگی۔ اس اجتماع میں پاکستان کے طول و عرض سے اور دنیا کے مختلف ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان شریک ہوتے ہیں، بزرگان دین کے ارشادات سے مستفید ہوتے ہیں اور دعوت و تبلیغ کے بارے میں ہدایات حاصل کرنے کے بعد ہزاروں جماعتوں کی صورت میں دنیا بھر میں پھیل جاتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے اس عمل کو شروع ہوئے ایک صدی گزرنے کو ہے اور اس نے دنیا بھر میں جس طرح محنت کا دائرہ اس دوران پھیلایا ہے وہ اس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس دہلویؒ اور دیگر راہ نماؤں بالخصوص حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ، حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ، حضرت مولانا سعید احمد خانؒ، حضرت مولانا محمد عمر پالنپوریؒ، اور حضرت مولانا محمد زبیرؒ کے خلوص و محنت کی قبولیت کی علامت ہے۔ اور بحمد اللہ تعالیٰ اس کارِ خیر کا دائرہ دن بدن پھیلتا جا رہا ہے۔
دعوت و تبلیغ کی اس محنت کا بنیادی ہدف مسلمانوں کو دین کی طرف واپس لانا ہے تاکہ مسلم معاشروں میں دین کے اثرات عام ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ایسا ماحول پیدا ہو جو غیر مسلموں کے اسلام کی طرف متوجہ اور راغب ہونے کے ذریعہ بن سکے۔ تبلیغی جماعت کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ دین کی طرف واپسی، معاشرہ میں دینی ماحول کا فروغ اور خاص طور پر مسجد کے کردار کا دوبارہ زندہ ہونا، نہ صرف یہ کہ ہم مسلمانوں کی ضرورت ہے، کیونکہ ہماری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس سے وابستہ ہے، بلکہ یہ آج کی دکھوں اور مصیبتوں میں سسکتی ہوئی انسانیت کی ضرورت بھی ہے جو ذہنی سکون اور قلبی اطمینان سے محروم ہے، بے شمار مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور روحانی سکون کی تلاش میں ہے۔ اس لیے کہ انسان اور انسانی سوسائٹی کی ضرورت صرف مادی وسائل اور دنیاوی اسباب نہیں ہیں، بلکہ روح کی خوراک اور قلب و ذہن کا سکون و اطمینان بھی اس کی بنیادی اور ناگزیر ضرورت ہے جو صرف آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی میں مل سکتی ہے۔ اور چونکہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی صرف مسلمانوں کے پاس قرآن و سنت کی صورت میں موجود اور محفوظ ہے اس لیے یہ مسلمانوں ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نسخہ کیمیا تک رسائی کے لیے لوگوں کی راہ نمائی کریں اور ساری انسانی دنیا کو اس چشمۂ صافی سے فیضیاب ہونے کے مواقع فراہم کریں۔ مگر یہ بات صرف زبانی دعوت سے نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے عملی ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ جیسا کہ اسلام کے دور اول میں ہوا تھا کہ صحابہ کرامؓ اور خیر القرون کے مسلمان دنیا میں جہاں کہیں گئے اور جس رنگ میں بھی گئے ان کے کردار و اخلاق، دیانت و امانت اور شفاف زندگی سے متاثر ہو کر لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ آج بھی دنیا کو اسلام کی اور آسمانی تعلیمات کی ضرورت ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کے پیغام و دعوت کو قبول کیے بغیر نسل انسانی کے لیے فلاح و فوز کا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ لیکن اسلام کی طرف متوجہ کرنے، قرآن و سنت کی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور دینی معاشرہ کی ترغیب دینے کے لیے زبانی دعوت کے ساتھ ساتھ جس قسم کا ماحول اس کے لیے ضروری ہے اس کی محنت ہونی چاہیے۔ تبلیغی جماعت کے اہل دانش کا کہنا ہے کہ ہم اسی ماحول کو واپس لانے کے لیے محنت کر رہے ہیں جو پوری دنیا میں ایک بار پہلے بھی اسلام کے پھیلنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔
اس محنت کے لیے تبلیغی جماعت کا اپنا ایک نظام ہے، طریق کار ہے، درجہ بندی ہے، ترجیحات ہیں اور اسلوب ہے۔ جو ظاہر ہے کہ کم و بیش ایک صدی کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ ان باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے اور ان میں سے کسی پہلو پر کسی صاحب علم کے لیے تحفظات کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن دو باتیں بالکل واضح ہیں، ایک یہ کہ دین کی طرف واپسی اور دینی معاشرہ کے قیام کی یہ محنت خلوص و للہیت پر مبنی ہے، اور دوسری یہ کہ اس کے تاثرات دن بدن پھیلتے جا رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ قبولیت کی علامت ہے۔
رائے ونڈ کے اس اجتماع میں بہت سے لوگ اس لیے بھی جاتے ہیں کہ نیک لوگوں کی اور دنیا بھر سے آئے ہوئے علماء کرام اور بزرگان دین کی زیارت ہوگی، اور اجتماعی دعا میں شرکت ہو جائے گی۔ یہ پہلو بھی خیر سے خالی نہیں ہے کیونکہ یہ اجتماعی دعائیں بہت سی برکات کے حصول اور بہت سی آفات میں رکاوٹ کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو دونوں مراحل میں کامیابی اور برکات و ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔