علامہ شبیر احمد عثمانیؒ

   
۲۸ فروری ۱۹۸۰ء

علامہ شبیر احمد عثمانیؒ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے وہ مایۂ ناز سپوت ہیں جنہوں نے علمی، دینی و سیاسی محاذ پر ملّت اسلامیہ کی بھرپور راہنمائی کی اور خداداد علمی و فکری صلاحیتوں سے ملّت اسلامیہ کو فیضیاب کیا۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ممتاز ماہر تعلیم مولانا فضل الرحمان کے فرزند تھے، آپ نے تعلیم شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ جیسے عالم دین کے زیرسایہ مکمل کی۔ انہوں نے دیوبند میں ہی تدریس و تعلیم کا آغاز کیا حتٰی کہ ایک وقت میں دارالعلوم دیوبند کے صدر مہتمم کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دیے۔

علامہ عثمانیؒ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم دین، محدث، فقیہ، متکلم اور خطیب تھے۔ خطابت کے محاذ پر آپ کو مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ساتھ اس وقت کے چار بڑے خطیبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ علمی دنیا میں ہزاروں شاگردوں کے علاوہ قرآن کریم کی تفسیر اور صحیح مسلم پر ’’فتح الملہم‘‘ کے نام سے عظیم المرتبت شرح کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ درجن سے زائد علمی تصانیف آپ کی یادگار ہیں جن پر آپ کے معاصرین نے آپ کو بجا طور پر متکلم اسلام اور مفسر اعظم کے القاب سے یاد کیا۔

مولانا عثمانیؒ کی علمی عظمت کا اندازہ ان کے سب سے بڑے معاصر اور سیاسی طور پر حریف حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے مولانا عثمانیؒ کی وفات پر دارالعلوم دیوبند کے تعزیتی جلسہ میں کہے:

’’مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی شخصیت بے مثال تھی۔ علم و فضل میں آپ کا پایہ بلند تھا۔ ہندوستان کے چیدہ علماء میں سے تھے اور علمی طور پر ان کی شخصیت ’’مسلّمہ کل‘‘ تھی۔‘‘

اسی طرح مفتی اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ نے اپنے بیان میں کہا:

’’مولانا شبیر احمد عثمانی دیوبندی کی وفات حسرتِ آیات ایک سانحہ عظمٰی اور داہیۂ کبرٰی ہے۔ مولانا مرحوم وقت کے بڑے عالم، پاکباز، محدّث، مفسر اور خوش بیان مقرر تھے۔‘‘

متذکرہ آرا سے جہاں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی علمی عظمت واضح ہوتی ہے وہاں یہ احساس بھی اجاگر ہوتا ہے کہ سیاست میں ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود ان حضرات کو ایک دوسرے کی عظمت کے اعتراف میں کوئی تأمل نہ تھا۔ سیاست میں علامہ عثمانیؒ نے ابتدا میں ’’تحریک خلافت‘‘ اور ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے پلیٹ فارم پر تحریک آزادی کے لیے سرگرمی کے ساتھ کردار ادا کیا، لیکن قیام پاکستان کے مطالبہ کے بعد جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ہندوستان کو تقسیم کرنے کی مخالفت کی وجہ سے مولانا عثمانیؒ جمعیۃ علماء ہند سے علیحدہ ہو گئے، اور جب تحریک پاکستان کے حامی علماء نے ۱۹۴۵ء کے ہنگامہ خیز سال میں کلکتہ کے کل ہند اجتماع میں ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کے نام سے جماعت تشکیل دی تو اس کا صدر مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کو چن لیا گیا۔ علامہ عثمانیؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کے صدر کی حیثیت سے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا اور ملّت اسلامیہ کو پاکستان کے حق میں ہموار کرنے کے لیے شبانہ روز انتھک محنت کی۔ ان کے اس کردار پر روزنامہ احسان نے یہ تبصرہ کیا تھا:

’’جب کانگریس کے نام پر ہندو امپریلزم کے پھیلتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے علامہ عثمانیؒ مسلم لیگ کے ہمنوا بنے تو عوامی اعتماد اور ہر دلعزیزی کی جس راہ کو طے کرنے میں دوسرے لیڈروں کو سالہا سال صحرا نوردی کرنی پڑی اسے آپ نے چند ہفتوں میں طے فرما لیا۔‘‘

ایک اور اخبار نے اس طرح اپنی رائے ظاہر کی:

’’اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ قائد اعظم کی سیاسی بصیرت اور قانونی مہارت کے ساتھ ساتھ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے تبحر علمی اور فیض روحانی نے مسلمانوں کو وہ قوت عمل بخشی کہ انہوں نے صدیوں کا راستہ چند روز میں طے کر لیا۔‘‘

تحریک پاکستان میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی حمایت اور علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور ان کے رفقاء مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا اطہر علیؒ اور مولانا مفتی محمد شفیعؒ کی سرگرم جدوجہد تحریک پاکستان کا ایسا روشن باب ہے جس سے کوئی مؤرخ صرف نظر نہیں کر سکتا۔ اور ان حضرات کی خدمات کا سب سے بڑا عملی اعتراف یہ ہے کہ قیام پاکستان کے موقع پر پاکستان کا پرچم لہرانے کا شرف کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کو حاصل ہوا۔

قیام پاکستان کے بعد علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے ملک میں اسلامی نظام کے اس وعدہ کی تکمیل پر توجہ مبذول کر دی جس کی بنیاد پر انہوں نے تحریک پاکستان کی حمایت کو اپنا مشن بنا لیا تھا۔ چنانچہ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی وہ تاریخی دستاویز آپ ہی کی مساعی سے دستور ساز اسمبلی نے منظور کی، جو رہتی دنیا تک پاکستان کی نظریاتی اساس کی حفاظت کرتی رہے گی۔ انہوں نے ان لوگوں کے عزائم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جو چاہتے تھے کہ پاکستان کو ایک لادینی ریاست بنا دیا جائے۔ چنانچہ علامہ عثمانیؒ نے اپنے عزم کا اظہار یوں کیا:

’’خواہ ارباب اقتدار ہمارے ساتھ کچھ ہی برتاؤ کریں ہم اس کوشش سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتے کہ مملکت پاکستان میں اسلام کا وہ دستور و آئین اور وہ نظام حکومت تشکیل پذیر ہو جس کی رو سے اس بات کا مؤثر انتظام کیا جائے کہ مسلم قوم اپنی زندگی اسلام کے انفرادی و اجتماعی تقاضوں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق، جو قرآن و سنت سے ثابت ہوں، مرتب اور منظم کر سکیں۔‘‘ (بحوالہ تجلیاتِ عثمانی)

   
2016ء سے
Flag Counter