وقت کے حکمرانوں کے لیے تین آئینے

   
۱۵ اگست ۱۹۹۸ء

۱- طلسمی لباس

بچوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ عموماً سچ بولتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ فطرت سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ اور انسان کی فطرت بہرحال سلامتی اور سچائی پر مبنی ہے جسے ہماری خواہشات اور مفادات کی کشمکش گدلا کر دیتی ہے۔

اس سلسلہ میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ کوئی بادشاہ خوشامدیوں اور چاپلوسوں کے جھرمٹ میں عیش و مستی کے دن گزار رہا تھا کہ کچھ ٹھگوں کو اس کی اس خصلت سے فائدہ اٹھانے کی سوجھی۔ وہ بادشاہ کے حضور پیش ہوئے اور اسے اپنے فن کے کمال سے آگاہ کیا کہ وہ ایسا کپڑا بن سکتے ہیں جو بہت عمدہ اور خوبصورت ہوتا ہے لیکن کسی بے وقوف اور احمق کو نظر نہیں آتا۔ بادشاہ نے سنتے ہی انہیں کپڑا بننے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے بادشاہ سلامت سے اجازت اور مراعات حاصل کر کے ایک جگہ کھڈیاں لگا لیں اور ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے۔ بادشاہ نے اپنے وزیر کو معائنے کے لیے بھیجا، اس نے جا کر دیکھا کہ کپڑا وغیرہ تو کچھ نہیں ہے بس خالی کھڈیاں ہیں اور پارچہ بانوں کے ہاتھ پاؤں چل رہے ہیں۔ اس نے سوچا کہ کپڑے کی نفی کر کے اب کون بے وقوف اور احمق کہلائے؟ اس لیے اس نے بادشاہ کے حضور ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ پیش کر دی۔ ایک دن خود بادشاہ کا جی چاہا کہ انہیں کپڑا بنتے ہوئے خود دیکھوں، اس نے فیکٹری کا وزٹ کیا تو اسے بھی کھڈیوں پر کپڑے نام کی کوئی چیز نظر نہ آئی، لیکن وزیر کی رپورٹ کو کیسے جھٹلاتا؟ پھر اسے بھی بے وقوف اور احمق کہلانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ اس لیے اس نے بھی کپڑے کی عمدگی کی تعریف کی اور پارچہ بانوں کو داد کے ساتھ انعام سے نوازتا ہوا شاہی محل کو لوٹ گیا۔

ایک دن بادشاہ کے حضور ’’سمری‘‘ پیش ہوئی کہ کپڑا تیار ہے اور اس کی افتتاحی تقریب اس طرح ہوگی کہ بادشاہ سلامت اس کپڑے کا سب سے پہلا سوٹ خود پہن کر ایک عوامی جلوس کی قیادت فرمائیں گے۔ بادشاہ نے منظوری کے دستخط ثبت کیے اور جلوس کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ افتتاحی تقریب کا دن آیا تو ان پارچہ بانوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ بادشاہ کو خود سوٹ پہنایا جو بادشاہ کو نظر تو نہیں آرہا تھا لیکن اسے بے وقوف کہلانے کا کوئی چاؤ نہیں تھا، اس لیے اس نے کوئی حیل و حجت نہ کی۔ جب بادشاہ اس شاہکار لباس میں جلوس کی قیادت کے لیے عوام میں جلوہ افروز ہوا تو سب وزیر و مشیر اسے اصلی حالت میں دیکھ رہے تھے۔ مگر ’’بے وقوف اور احمقوں‘‘ کی فہرست میں شمار ہونے کا خوف ان کے لبوں کو سیئے ہوئے تھا۔ اس لیے انہوں نے بھی بادشاہ کو اس خوبصورت لباس پر خوب داد دی اور پارچہ بانوں کے کمال فن کی دل کھول کر تعریف کی۔ جب بادشاہ سلامت عوامی جلوس کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھے اور لوگوں نے منظر دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے، لیکن کس کو گویائی کا یارا تھا؟ جب بادشاہ کو گھیرے میں لیے ہوئے وزیر و مشیر اور ارباب علم و دانش خاموش تھے تو عام لوگوں کو کیا پڑی تھی کہ مفت میں بے وقوف کہلاتے اور بادشاہ کے عتاب کا نشانہ بھی بنتے۔ چنانچہ جلوس اپنے روٹ پر روانہ ہوگیا جس میں سب سے اونچی گاڑی پر بادشاہ سلامت پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے اصلی لباس میں کھڑے چاروں طرف سے داد و تحسین وصول کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک طرف تماشائیوں کے ہجوم میں ایک شخص کے کندھے پر بیٹھا ایک معصوم بچہ پوری معصومیت اور بے ساختگی کے ساتھ پکار اٹھا:

’’آہا باچا نندا ہے‘‘ کہ واہ واہ بادشاہ ننگا ہے۔

اس معصوم بچے کی توتلی زبان کے نعرے نے مکر و فریب کے سارے طلسم کو توڑ کر رکھ دیا۔ اب جو بادشاہ نے خود کو دیکھا تو اسے نظر آیا کہ وہ واقعی ننگا ہے۔ وزیروں اور مشیروں نے بھی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے اور عوام شرم کے مارے جدھر جس کا منہ تھا ادھر ہی بھاگ کھڑے ہوئے۔ بادشاہ بھاگم بھاگ شاہی محل پہنچا، معمول کا لباس زیب تن کیا اور پارچہ بانوں کی تلاش کا حکم دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کے بارے میں ایجنسیوں کی رپورٹ اس کی میز پر تھی کہ ’’وفد واپس جا چکا ہے۔‘‘

اپنے اردگرد اس کہاوت کے کرداروں کی تلاش کا کام قارئین کے حوالے کرتے ہوئے ہم اس مناسبت سے اسلامی تاریخ کے دو سچے واقعات پیش کرنا چاہتے ہیں جن میں بچوں نے اپنے وقت کے حکمرانوں کو سچائی کا آئینہ دکھایا۔

۲- امداد کا مطالبہ

ایک واقعہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ’’الاصابہ‘‘ میں اور حافظ ابن اثیرؒ نے ’’اسد الغابہ‘‘ میں نقل کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے دور میں قحط سالی کے حالات پیش آئے اور مختلف عرب قبائل کے وفود خلیفہ ہشام کے پاس امداد کی طلب کے لیے آنے لگے۔ ایک روز خلیفۂ وقت انہی وفود میں بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا کہ اس کی نظر ایک بچے پر پڑی جس کی عمر بمشکل چودہ سال ہوگی۔ لیکن اس نے دو شملوں والی پگڑی باندھ رکھی تھی اور عرب سرداروں کے درمیان بیٹھا تھا۔ خلیفہ نے اپنے دربان کو مخاطب ہو کر کہا کہ اب جس کا جی چاہتا ہے میرے پاس آ بیٹھتا ہے حتیٰ کہ بچے بھی بے دھڑک آجاتے ہیں۔ اس بچے نے جس کا نام درداس بن حبیب تھا، خلیفہ کا روئے سخن اپنی طرف محسوس کرتے ہوئے کہا کہ

’’امیر المومنین! میری حاضری سے آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا البتہ میری عزت میں اضافہ ہو جائے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ میری قوم کے لوگ آپ کے پاس آئے ہیں لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں پا رہے اور کلام کی خوبی تو اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب اسے پیش کیا جائے۔‘‘

خلیفہ اس بچے کی گفتگو پر متعجب ہوا اور کہا کہ وہ اپنی بات کھل کر کہے۔ اس پر درداس بن حبیب نے خلیفہ سے کہا کہ

’’جناب ہم تین سال سے قحط کا شکار ہیں۔ ایک سال نے ہماری چربی پگھلا دی ہے، دوسرے سال نے جسموں پر سے گوشت نوچ لیا ہے، اور تیسرے سال نے ہڈیاں نچوڑ کر رکھ دی ہیں۔ جبکہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں بہت سے فاضل اموال ہیں۔ اگر یہ مال اللہ کا ہے تو اسے اس کے بندوں میں تقسیم کیجیے۔ اور اگر یہ دولت لوگوں کی ہے تو آپ حضرات نے اسے لوگوں سے کیوں روک رکھا ہے؟ اور اگر یہ اموال آپ کے اپنے ہیں تو پھر بھی انہیں لوگوں پر صدقہ کر دیجیے کہ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں اور نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔‘‘

اس پر خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے کہا کہ اس بچے نے تینوں صورتیں پیش کر کے ہمارے لیے عذر باقی نہیں رہنے دیا۔ چنانچہ خلیفہ نے اس بچے کی بستی کے لیے ایک لاکھ درہم، جبکہ اس بچے کے لیے ایک لاکھ درہم الگ دینے کا حکم دیا تو بچے نے کہا کہ

’’ امیر المومنین یہ ایک لاکھ بھی بستی والوں کے عطیے میں شامل کر دیجیے۔ کیونکہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ امیر المومنین کا عطیہ بستی والوں کی ضرورت کو پورا نہ کر سکے۔‘‘

۳- حاکم وقت کا شکریہ

دوسرا واقعہ امام بیہقیؒ نے ’’المحاسن والمساوی‘‘ اور محمد بن احمد القری نے ’’المختار من الأخبار‘‘ میں نقل کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عراق سے ایک وفد اموی خلیفہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کی ترجمانی کے لیے ایک دس سالہ بچہ آگے بڑھا۔ امیر المومنین نے اسے کہا کہ کسی بڑی عمر والے کو آگے کرو، اس نے جواب دیا کہ

’’امیر المومنین ! بات عمر سے نہیں بنتی۔ اور اگر یہی بات ہے تو مسلمانوں میں آپ سے زیادہ عمر کے لوگ بھی موجود ہیں۔‘‘

امیر المومنین نے فرمایا کہ تو نے سچ کہا، بات کرو۔ اس نے جواب دیا کہ

’’امیر المومنین ہم کوئی مطالبہ لے کر نہیں آئے، کیونکہ ہماری ضرورت کی سب چیزیں آپ کی طرف سے ہمارے گھروں میں پہنچ رہی ہیں اور ہمیں کوئی مسئلہ بھی درپیش نہیں ہے، اس لیے کہ آپ کے عدل کی وجہ سے ہم ظلم و ناانصافی سے ہر طرح محفوظ ہیں۔ بلکہ ہم اس صورتحال پر آپ کو مبارک باد پیش کرنے اور آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔‘‘

امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اس بچے کے حسن کلام کی تعریف کی اور اس کے لیے دعا فرمائی۔

قارئین کرام! تینوں آئینے ہمارے سامنے ہیں، اب دیکھیں کہ ہمارے حکمران اور بادشاہ لوگ ان میں سے کس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا پسند فرماتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter