رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کے اپنے معاصرین کے نام خطوط کا ایک مجموعہ ان دنوں میرے زیر مطالعہ ہے جو ان کے پوتے مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ آف فیصل آباد نے مرتب کیا ہے۔ انہوں نے اس کا غیر مطبوعہ مسودہ مجھے مطالعہ کے لیے دیا ہے اور وہ اسے شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ میں عید الفطر کی تعطیلات کے دوران اس مسودہ کے ذریعے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی گزشتہ ڈیڑھ سو برس کی سیاسی و تحریکی تاریخ کے مختلف گوشوں کی سیر کر رہا ہوں، ایک ایسی سیر جس میں تفریح کم اور عبرت زیادہ ہے۔
مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ اور برصغیر کی تحریک آزادی کی جدوجہد میں ایک بڑا نام ہے جبکہ اپنے خاندانی پس منظر میں اس نام کی بڑائی اور زیادہ نمایاں نظر آنے لگتی ہے۔ مولانا لدھیانویؒ کا تعلق علمائے لدھیانہ کے اس خاندان سے ہے جسے تاریخ میں اپنے امتیازات کا ادراک و احساس بھی ہے اور اس پر بجا طور پر فخر بھی ہے جس کا اظہار مختلف حوالوں سے وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔
- بتایا جاتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے قبل برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف جہاد کا فتویٰ سب سے پہلے اسی خاندان کے بزرگ مولانا عبد القادر لدھیانویؒ نے دیا تھا۔ اور صرف فتویٰ ہی نہیں دیا بلکہ اپنے بیٹوں اور رفقاء سمیت اس جنگ میں عملاً حصہ بھی لیا تھا۔
- یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ میں ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جب اپنی خود ساختہ نبوت کے لیے پر پرزے نکالنے شروع کیے تو اس کے کفر کا فتویٰ بھی سب سے پہلے اسی خاندان کے بزرگ مولانا محمد لدھیانویؒ نے صادر کیا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب برصغیر کے بعض اکابر علمائے کرام کو مرزا غلام احمد قادیانی پر کفر کا فتویٰ لگانے میں اپنی تحقیق کی بنیاد میں ابھی تردد تھا اور لدھیانوی علماء سے ان کے اس سلسلے میں مباحثے بھی ہوئے تھے۔
- پھر یہ خاندان اس بات کو بھی اپنے تاریخی امتیاز اور اعزاز کے طور پر بیان کرتا ہے کہ برصغیر کی آزادی کی جدوجہد میں غیر مسلم ہم وطنوں، بالخصوص ہندوؤں کے ساتھ اشتراک عمل پر بہت سے دینی و علمی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے تھے اور غیر مسلموں کے ساتھ مل کر آزادی کی تحریک چلانے کو عام طور پر شرعی حوالوں سے درست نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس دور میں کانگریس میں مسلمانوں کی شمولیت و شرکت کے جواز کا فتویٰ بھی اسی خاندان نے سب سے پہلے دیا تھا جس کی پاسداری اس خاندان کے علماء نے قیام پاکستان تک پورے حوصلے کے ساتھ کی۔
مولانا محمد علی جوہرؒ اور مولانا شوکت علیؒ کی قیادت میں جب تحریک خلافت کا غلغلہ بلند ہوا تو یہ برصغیر کی پہلی سیاسی تحریک تھی جو آئندہ چل کر نصف درجن کے لگ بھگ سیاسی تحریکوں کی نرسری ثابت ہوئی۔ مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ اس کے اہم رہنماؤں میں سے تھے اور پنجاب خلافت کمیٹی کے سربراہ تھے۔ جب تحریک خلافت کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد پنجاب میں تحریک خلافت کے رہنماؤں نے ’’مجلس احرار اسلام‘‘ کے نام سے نئی مورچہ بندی کی تو مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ اس کے پہلے سربراہ چنے گئے اور انہوں نے سالہا سال تک اس حیثیت سے آل انڈیا مجلس احرار اسلام کی قیادت کی۔
تحریکی و سیاسی تگ و تاز کے دوران اپنے معاصرین کے ساتھ ان کی ملاقاتیں بھی رہیں او رخط و کتابت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ ان میں علمائے کرام بھی ہیں، سیاستدان بھی ہیں، دانشور و مفکرین بھی ہیں اور سماجی رہنما بھی ہیں۔ ان معاصرین میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ، مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، مولانا شبیر احمدؒ عثمانی، علامہ محمد اقبالؒ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، پنڈت جواہر لال نہرو، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، اور لیاقت علی خانؒ جیسی اہم شخصیات شامل ہیں۔ ان اکابر کے ساتھ مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کی خط و کتابت کو دو طرفہ بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے اور ان کے جوابی خطوط بھی اس میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ خطوط جہاں مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کے فکر و نظر کے مختلف زاویوں، جہد و عمل کے اہداف و مقاصد، حکمت و تدبر کے متنوع پہلوؤں، اور حوصلے و استقامت کی بلندیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، وہاں برصغیر کی سیاسی تاریخ کے بہت سے عقدوں کی گرہ کشائی بھی کرتے ہیں۔ جبکہ بعض مواقع پر نئی گرہیں اور عقدے بھی ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں جو کسی بھی غیر جانبدار مؤرخ کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں ہیں۔
مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کا شمار تحریک پاکستان کے سرکردہ مخالفین میں ہوتا ہے، حتیٰ کہ تقسیم ہند کے موقع پر وہ مشرقی پنجاب کی ہنگامہ خیز صورتحال کے باعث وقتی طور پر پاکستان آئے اور انہیں حکومت پاکستان کے ذمہ دار حضرات کی طرف سے یہاں قیام کی پیشکش بھی ہوئی لیکن انہوں نے اس پر معذرت کرتے ہوئے صرف یہ خواہش ظاہر کی کہ انہیں ہوائی جہاز کے ذریعے دہلی بھجوا دیا جائے جو پوری کر دی گئی۔ اس کے بعد وہ مشرقی پنجاب کے لٹے پٹے مسلمانوں کی بحالی اور دلجوئی میں مصروف ہوگئے۔ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی بتدریج بحالی اور ان کی مساجد و مزارات کی واگزاری کی جانگسل محنت کے علاوہ ان کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی شمار ہوتا ہے کہ پاکستان آنے والے مہاجرین کی جو خواتین اور لڑکیاں سکھوں اور دیگر غیر مسلموں نے زبردستی روک لی تھیں، انہیں تلاش کر کے ان کے خاندانوں تک پہنچانے کی مہم شروع کی۔ اس مہم میں انہوں نے پاکستان میں ممتاز مسلم لیگی خاتون رہنما صاحبزادی محمودہ بیگم کے ساتھ مل کر ایک نیٹ ورک قائم کیا۔ وہ مشرقی پنجاب میں ایسی لڑکیوں کو تلاش کر کے صاحبزادی محمودہ بیگم کے پاس پہنچاتے تھے جبکہ محمودہ بیگم مرحومہ ان کے خاندانوں کو تلاش کر کے انہیں ان کے سپرد کردیتی تھیں یا بے سہارا ہونے کی صورت میں ان کی کفالت کا انتظام کرتی تھیں۔
مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ تحریک پاکستان کے ان مخالفین میں سے تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اپنے موقف کا کھلم کھلا اظہار کرتے رہے۔ ان کے موقف اور رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے جو ہر صاحب نظر کا حق ہے، لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کا موقف خود ان کی زبان سے پڑھ لیا جائے جو زیر نظر مجموعے میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۷ء کو دارالعلوم دیوبند میں ان کے ایک خطاب کے حوالے سے یوں مذکور ہے:
’’انگریز ہندوستان سے جا رہا ہے مگر اس طور پر کہ ہندوستان کے ٹکڑے اور مسلمان قوم کو تقسیم کر کے۔ تمہیں معلوم ہے کیوں؟ میں تم کو بتاتا ہوں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھو ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں مسلمان قوم کا سب سے زیادہ حصہ ہے، سب سے زیادہ مشکلات مسلمان قوم نے اٹھائیں، سب سے زیادہ مار مسلمان قوم نے کھائی، سب سے زیادہ نقصان مسلمان قوم کا ہوا۔ وہ اس لیے کہ انگریز نے اقتدار مسلمان قوم سے چھینا تھا۔ قدرتی طور پر شدید ردعمل مسلمان قوم ہی کی طرف سے ہوا۔ ہندو تو ایک ہزار سال سے مسلمانوں کا محکوم تھا، اگر وہ مسلمانوں کی حکمرانی سے نکل کر انگریز کی حکمرانی میں آگیا تھا تو اس پر اس کا کوئی اثر نہیں تھا۔ محکوموں پر حاکم بدل جانے سے کوئی اثر نہیں پڑتا، البتہ حاکم قومیں غلامی کی ذلت برداشت نہیں کر سکتیں۔ مسلمان ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے۔ انگریز کو ڈر ہے کہ مسلمان بحیثیت قوم کہیں پھر سے مجتمع ہو کر قوت نہ بن جائیں اس لیے مسلمانوں کو تین جگہ پر تقسیم کیا جا رہا ہے۔
دوسری بات یہ ذہن میں رہے کہ پاکستان انگریز کے چنگل سے نکل کر امریکہ کے چنگل میں چلا جائے گا، اس کے فیصلے امریکہ میں ہوا کریں گے۔ پاکستان انگریز اور امریکہ کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی سرحدیں افغانستان کے ذریعے روس سے ملتی ہیں۔ روس میں سوشلسٹوں کی حکمرانی ہے۔ نیز روس بذات خود ایک عالمی طاقت کی شکل میں ابھر رہا ہے۔ کانگریس میں جواہر لال نہرو سمیت کئی لیڈر سوشلسٹ نظریات رکھتے ہیں۔ امریکہ کو خطرہ ہے کہ اگر ہندوستان کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا تو ہندوستان کی سوشلسٹ حکومت روس کے ساتھ مل کر ایک زبردست بلاک بنا لے گی جس کی وجہ سے ایشیا میں امریکہ کا ناطقہ بند ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ ہندوستان اور روس کے درمیان ایک ایسی ریاست قائم کر دی جائے جس کی وجہ سے یہ دونوں ملک آپس میں مل کر کوئی مضبوط محاذ نہ بنا سکیں۔ پاکستان کی ضرورت صرف اتنی سی ہے۔ جب تک پاکستان امریکہ کی یہ ضرورت پوری کرتا رہے گا قائم رہے گا۔ پاکستان کی بقاء کا مدار مادی طور پر صرف امریکہ کی خوشنودی پر ہے۔
میرے خاندان نے تقریباً ڈیڑھ سو سال تک انگریز سے آزادی کی جنگ لڑی ہے مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انگریز ہندوستان کو تقسیم کر کے جا رہا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو میں صرف اتنا کہوں گا کہ امریکہ کی مخالفت میں اتنا نہ جائیں کہ پھر واپسی ممکن نہ ہو سکے۔ امریکہ کی مخالفت کرو گے تو وہ بھی اپنا مطلب نکل جانے کے بعد پاکستان کے ٹکڑے کر دے گا۔ یاد رکھو ! پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ ہے، اگر اس پناہ گاہ کو کچھ ہوا تو برصغیر کے مسلمانوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔‘‘