کئی سالوں سے راقم کا معمول یہ ہے کہ جون، جولائی اور اگست کے دو تین ماہ لندن میں گزرتے ہیں جس دوران مختلف دینی کانفرنسوں میں شرکت کے علاوہ جامعہ الہدٰی نوٹنگھم کی تعلیمی مشاورت، ورلڈ اسلامک فورم کے سالانہ اجلاس اور ابوبکرؓ اسلامک سنٹر ساؤتھ آل لندن کے مشاورتی معاملات میں مصروفیت رہتی ہے۔ اس سال اہلیہ کا پروگرام بھی بن گیا اور وہ ستمبر کے دوسرے ہفتے لندن پہنچ گئیں اس لیے اس دفعہ ایک ماہ زیادہ صرف ہوگیا اور ہم دونوں واپسی پر حجاز مقدس حاضری دیتے ہوئے یکم اکتوبر کو گوجرانوالہ واپس آگئے۔
حرمین شریفین میں الحمد للہ تعالیٰ پہلے بھی کئی بار حاضری کی سعادت حاصل ہو چکی ہے مگر اس بار ایک نیا خوشگوار تجربہ ہوا۔ جدہ ایئرپورٹ پر امیگریشن اور کسٹم کے عملہ کی سست روی اس روٹ پر سفر کرنے والوں کے لیے ایک معروف بات ہے اور عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے بلکہ کئی بار عملی تجربہ ہوا ہے کہ جہاز سے اترنے کے بعد امیگریشن، سامان کے حصول، اور کسٹم چیکنگ کے مراحل سے گزرنے میں کم و بیش اڑھائی گھنٹے گزر ہی جاتے ہیں۔ چنانچہ ۲۷ ستمبر کو صبح پانچ بجے جدہ ایئرپورٹ پر لندن سے آنے والی سعودیہ ایئرلائن کی فلائیٹ سے اترے تو اندازہ تھا کہ ایئرپورٹ سے باہر نکلنے میں سات سوا سات ہو جائیں گے۔ لیکن مذکورہ بالا تینوں مراحل سے گزر کر فارغ ہوئے تو ابھی چھ بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ امیگریشن کاؤنٹر پر نہ لمبی قطار لگی، نہ سامان کے حصول کے لیے زیادہ انتظار کرنا پڑا، اور نہ کسٹم والوں نے سامان کھول کر دیکھا، بس ایک مشین سے سے سامان گزارا اور باہر جانے کی اجازت دے دی۔ یہ سارا معاملہ اس قدر خلاف توقع تھا کہ ہمارے ایک عزیز جو جدہ میں رہتے ہیں انہوں نے ہمیں لینے آنا تھا لیکن وہ ایئرپورٹ پر موجود نہیں تھے۔ کچھ دیر انتظار کے بعد انہیں فون کیا تو وہ گھر میں ملے اور حیران ہو کر پوچھا کہ ہم اتنی جلدی ایئرپورٹ سے باہر کیسے آگئے ہیں؟ ان کا خیال بھی یہی تھا کہ ہمیں سات سوا سات بجے تک فراغت ملے گی اور وہ اس کے مطابق ایئرپورٹ پر آنے کی تیاری کر رہے تھے۔
جدہ ایئرپورٹ کے سسٹم میں اس خوشگوار تبدیلی کے بارے میں ایک خیال ذہن میں یہ آیا کہ مغربی ممالک کی کمپنیوں اور فوجوں کے جزیرہ عرب میں مسلسل موجودگی کے بہت سے منفی اور نقصان دہ پہلوؤں کے ساتھ ساتھ یہ ایک جزوی افادی پہلو بھی ہو سکتا ہے کہ کسی بھی شعبہ کے نظام کو منظم اور آسان طریقہ سے چلانے کا تجربہ بھی کم از کم ان سے حاصل ہو جائے ۔ مگر دو روز بعد جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جانے کا موقع آیا تو یہ خوش گمانی ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ ہم مسجد حرام کے باب الفتح کے سامنے ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے، ظہر کی نماز کے بعد مدینہ منورہ جانے کے ارادے سے وہاں سے نکلے اور باب العمرہ کی طرف بڑھے جہاں بسوں کا اسٹاپ ہے۔ مگر ابھی درمیان میں پہنچے تھے کہ ایک بس ہمارے قریب آ کھڑی ہوئی اور ’’مدینہ مدینہ‘‘ کی آواز سے ڈرائیور نے ہمیں متوجہ کیا۔ ہم نے سوچا کہ یہ تیار بس ہے جو اڈے سے روانہ ہو چکی ہے اس لیے اسی پر بیٹھتے ہیں تاکہ کچھ وقت اور بچے گا۔ مگر بس میں بیٹھنے کے بعد تھوڑی دیر میں اندازہ ہوگیا کہ یہ وہی ہمارے ہاں کی لاہور سے گوجرانوالہ جانے والی دو نمبر طرز کی بس ہے جس میں چند سواریاں بیٹھی ہیں اور ڈرائیور بس کو بھرنے کے لیے ادھر ادھر گھما رہا ہے۔ کچھ دیر کے بعد چند سواریوں نے تنگ آکر اترنا چاہا تو ڈرائیور نے بس کا دروازہ لاک کر دیا اور یوں ہم محبوس ہو کر رہ گئے۔ ہم بس میں تقریباً سوا دو بجے سوار ہوئے تھے جبکہ ایک مسافر کا کہنا تھا کہ وہ ایک بجے سے بس پر بیٹھا ہے۔ بس بھرنے کے بعد جب ڈرائیور نے مدینہ کا رخ کیا اور ہم مکہ مکرمہ کی حدود سے باہر نکلے تو گھڑی ساڑھے تین بجا رہی تھی۔ اس طرح عشاء سے قبل مدینہ منورہ پہنچنے اور مسجد نبویؐ میں رات کو حاضری کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔
حرمین شریفین کی حاضری کے علاوہ حسب معمول کچھ علماء کرام اور اہل دانش سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں عالم اسلام اور خلیج عرب کے بہت سے مسائل زیر بحث آئے۔ بالخصوص سعودی عرب کے علمائے کرام اور دانشوروں کی اس جدوجہد کے بارے میں بعض دوستوں سے حالات معلوم کرنا چاہے جو سعودی عرب کے داخلی نظام کی اصلاح اور خلیج عرب سے امریکہ اور اس کے حواریوں کی افواج کی واپسی کے سلسلہ میں کچھ عرصہ سے مسلسل جاری ہے۔ اس سلسلہ میں بعض احباب کا خیال ہے کہ سعودی عرب کا شاہی خاندان آل سعود اگر اقتدار سے محروم ہو جاتا ہے تو کوئی اور سیاسی قوت اس درجہ کی نہیں جو موجودہ سعودی عرب کو متحد رکھ سکے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ ملک تقسیم ہو جائے گا اور تیل سے مالا مال علاقوں پر مغربی اقوام کے مستقل تسلط کے علاوہ حجاز مقدس ایک الگ ریاست کی شکل میں سامنے آسکتا ہے جس کے پاس اپنے وسائل نہیں ہوں گے اور وہ ویٹی کن سٹی طرز کی ایک مذہبی اسٹیٹ بن کر رہ جائے گا۔ ان حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب کے موجودہ سسٹم میں تبدیلی سے حرمین شریفین میں عبادات اور حجاج کرام کی خدمت کا موجودہ نظام بھی متاثر ہوگا اور پھر پون صدی پہلے والا وہ دور واپس آسکتا ہے جب حجاج کرام حج و عمرہ کے مناسک اس قدر امن اور اطمینان کے ساتھ ادا نہیں کر پاتے تھے۔ اور اگر حرمین شریفین کے نظم کی وحدت ختم ہوگئی تو فرقہ وارانہ اور فقہی جھگڑے دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں مسلمانوں کو ایک نئے ذہنی انتشار اور بے سکونی سے دوچار کر دیں گے۔
راقم الحروف نے ان دوستوں سے عرض کیا کہ ان کے یہ خدشات بجا ہیں اور ان کا کوئی حل تلاش کرنے کی ضرورت موجود ہے مگر محض ان خدشات کی بنیاد پر
- خلیج عرب میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی مسلح افواج کی موجودگی،
- عرب ممالک کے تیل کے چشموں پر مغربی کمپنیوں کے تسلط،
- عربوں کے سرمائے اور دولت کی مغربی ممالک کی طرف بے تحاشا منتقلی،
- حکومت کی تشکیل اور آزادانہ رائے کے سلسلہ میں عرب عوام کے جائز حقوق کی مسلسل پامالی،
- اور شخصی و خاندانی بادشاہتوں پر مذہب کا لیبل چسپاں کر کے ان کے تحفظ کی کوششوں
کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے کہ اسلام ان میں سے کسی بات کا روادار نہیں ہے بلکہ کلمہ طیبہ والے پرچم کے سائے میں ان امور کی انجام دہی خود اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حالات کا صحیح طور پر ادراک کیا جائے اور سعودی عرب کے ڈاکٹر سفر الحواری، الشیخ سلمان العودہ، اور الشیخ اسامہ بن لادن جیسے ان علمائے کرام کی جدوجہد کی حمایت کی جائے جو سعودی عرب کے موجودہ ڈھانچے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے اسلامی تشخص کا دفاع کرتے ہوئے اس کے داخلی نظام کو مکمل طور پر اسلامی قوانین کے سانچے میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ عوام کے جائز شہری و شرعی حقوق کی بحالی اور خلیج سے امریکہ اور اس کے حواریوں کی مسلح افواج کی واپسی کے لیے کلمہ حق بلند کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہی لوگ ہیں جو سعودی عرب کے داخلی نظام کی اصلاح کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا خدشات کا توڑ تلاش کر سکتے ہیں۔ ورنہ اگر معاملات ان کے ہاتھ سے بھی نکل گئے اور نظام کی تبدیلی اور اصلاح کی جدوجہد کی باگ دوڑ سیکولر لابیوں اور بین الاقوامی اداروں کے ہاتھ میں چلی گئی تو بات بہت آگے اور بہت ہی آگے تک جا سکتی ہے جس سے بچنے کے لیے ہر حلقے کو مقدور بھر کوشش ضرور کرنی چاہیے۔