مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کو اللہ رب العزت نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا، وہ بیک وقت ایک کامیاب سیاستدان ہونے کے ساتھ محدث، فقیہ، خطیب، پارلیمنٹیرین، شب زندہ دار اور عارف باللہ تھے۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ نے یہ امتیاز عطا فرمایا تھا کہ وہ جس مسند پر بھی بیٹھے اپنے معاصرین سے ممتاز نظر آئے۔ انہوں نے مدت العمر جامعہ قاسم العلوم ملتان میں حدیث و فقہ اور منقولات و معقولات کے متنوع علوم کی تدریس کی اور مسند افتاء پر ہزاروں فتاویٰ جاری کیے۔ اور جب لاہور کے مدرسہ قاسم العلوم میں انہوں نے دورۂ تفسیر قرآن کریم کے عنوان سے قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کا درس دیا تو اس میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
ایک دور وہ تھا جب پنجاب میں قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کا نہ عمومی طور پر رواج تھا اور نہ ہی دینی مدارس کے طلبہ کو ترجمہ و تفسیر اہتمام کے ساتھ پڑھایا جاتا تھا۔ ہمارے نصاب تعلیم میں جلالین اور بیضاوی کے کچھ حصے کے سوا تفسیر نام کی کوئی چیز شامل نہیں تھی۔ اس روایت کو توڑتے ہوئے ہمارے جن بزرگوں نے قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کو عوامی درس اور تدریسی نصاب دونوں سطح پر رواج دیا ان میں حضرت مولانا حسین علیؒ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے اسمائے گرامی سرفہرست ہیں۔ یہ بزرگ عام اجتماعات میں قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر الگ طور پر کرتے تھے اور علماء و طلبہ کے لیے ترجمہ و تفسیر کی کلاسوں کا الگ اہتمام کرتے تھے جن سے لاکھوں افراد نے فائدہ اٹھایا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے ۱۹۴۳ء میں گکھڑ کی جامع مسجد میں درسِ قران کریم کا آغاز کیا اور ۱۹۵۲ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے آغاز پر وہاں تدریسی خدمات کا سلسلہ شروع کیا تو طلبہ کے لیے ترجمہ قرآن کریم کی مستقل کلاس شروع کی۔ اس کلاس میں وہ دو سال میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل پڑھاتے تھے۔ مدرسہ میں روزانہ اسباق کا آغاز اس کلاس سے ہوتا تھا، کافیہ کے درجہ سے اوپر کے تمام درجات کے طلبہ کی اس سبق میں شمولیت لازمی ہوتی تھی اور ہمارے طالب علمی کے دور میں غیر حاضری پر جرمانہ بھی ہوتا تھا۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ خدمت بحمد اللہ تعالیٰ میرے سپرد ہے۔
حضرت والد صاحب مدظلہ کے ترجمہ قرآن کریم کے تین الگ الگ حلقے ہوتے تھے۔ روزانہ صبح نماز فجر کے بعد جامع مسجد گکھڑ میں ہفتہ میں تین دن قرآن کریم اور تین دن حدیث نبویؐ کا درس ہوتا تھا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں روزانہ ترجمہ کی مذکورہ کلاس ہوتی تھی اور شام کو روزانہ گکھڑ کے نارمل اسکول میں، جہاں اسکولوں کے اساتذہ کی تربیتی کلاسیں، ایس وی، جے وی، سی ٹی وغیرہ ہوتی تھیں، ان اساتذہ کے لیے درسِ قرآن کریم کا الگ حلقہ ہوتا تھا۔ تینوں کا رنگ الگ الگ تھا اور ہر کلاس میں اسی کے ماحول اور ذوق کے مطابق ترجمہ ہوا کرتا تھا۔ ان تین حلقوں کے ساتھ ایک چوتھے حلقے کا اضافہ اس وقت ہوا جب ۱۹۷۶ء میں بھٹو حکومت کے صوبائی وزیر اوقاف نے، جو گوجرانوالہ سے ہی تعلق رکھتے تھے، مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کو سرکاری تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جس پر شہر کے علماء نے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی سرپرستی میں اس آرڈر کو مسترد کرتے ہوئے مزاحمتی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس مزاحمتی تحریک میں سینکڑوں علمائے کرام اور کارکن گرفتار ہوئے جن میں راقم الحروف اور میرے دو چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس خان قارن اور مولانا عبد الحق خان بشیر بھی شامل تھے، ہم اس موقع پر کئی ماہ تک گوجرانوالہ کی ڈسٹرکٹ جیل میں رہے۔ اس موقع پر ضرورت محسوس ہوئی کہ شعبان اور رمضان المبارک کی تعطیلات کے دوران مدرسہ خالی نہ رہنے دیا جائے تاکہ حکومت کو اس پر قبضہ کرنے میں آسانی نہ ہو۔ اس ضرورت کے تحت تعطیلات کے دوران مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورۂ تفسیر قرآن کریم کا اعلان کر دیا گیا اور پھر دو عشروں تک حضرت والد محترم مدظلہ نے شعبان اور رمضان المبارک کی تعطیلات کے دوران ہزاروں علمائے کرام اور طلبہ کو قران کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھائی۔
مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور، جو شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کا قائم کردہ مدرسہ ہے اور جہاں حضرت لاہوریؒ نے ایک مدت تک عوامی اور علمی دونوں حلقوں میں قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کا سلسلہ جاری رکھا، ان کے بعد ان کے جانشین اور ہمارے شیخ و مربی حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ نے آخر عمر تک یہ تسلسل جاری رکھا۔ جبکہ ان کے وصال کے بعد ایک درویش صفت عالم دین حضرت مولانا حمید الرحمان عباسی مدظلہ خاموشی کے ساتھ خدمت قرآن کریم کا یہ سلسلہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ جس سال مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ نے سالانہ تعطیلات کے دوران دورۂ تفسیر قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا اسی سال مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور میں حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کی فرمائش پر حضرت مفتی محمودؒ نے دورۂ تفسیر پڑھایا۔ دونوں جگہ سینکڑوں علماء و طلبہ شریک درس تھے اور دونوں بزرگوں نے اپنے اپنے رنگ میں علماء و طلبہ کو قرانی علوم و معارف سے فیض یاب کیا۔ میری چھٹیاں تو اس سال ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ میں گزریں اس لیے میں دونوں میں سے کسی دورے کا رنگ اس سال نہ دیکھ سکا اور شرکاء سے پوچھ کر اندازہ کیا کہ ان کا ماحول اور رنگ کیا تھا۔
حضرت والد صاحب مدظلہ اس کے بعد ربع صدی تک مسلسل پڑھاتے رہے اور ان کا دورۂ تفسیر پورے کا پورا سی ڈی میں محفوظ ہوگیا ہے جو ناظم مدرسہ نصرۃ العلوم فاروق گنج گوجرانوالہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے ایک ہی سال پڑھایا اور اس کے بعد ان کی مصروفیات نے انہیں موقع نہیں دیا کہ وہ اس تسلسل کو باقی رکھ سکیں۔ اس لیے یہ خواہش رہی کہ وہ بھی کسی طرح محفوظ ہو کر علماء و طلبہ کے پاس پہنچ جائے تو اس سے استفادۂ عام کی کوئی صورت نکل آئے۔ جمعیۃ پبلکیشنز لاہور کی طرف سے شائع کردہ ان افادات کا مجموعہ ’’تفسیر محمود‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں میرے سامنے ہے۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے استاذ حضرت مولانا محمد یوسف خان اور حضرت مولانا صدر الشہیدؒ آف بنوں کے فرزند مولانا حفیظ الرحمان نے اس سال حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ان دروس کو تحریری صورت میں ضبط کیا تھا۔ جبکہ حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی، مولانا عبد الرحمان، پروفیسر امجد علی شاکر اور حافظ محمد ریاض درانی نے اسے مرتب کتاب کی شکل دی ہے۔ تین جلدوں میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل ہے البتہ تفسیری حواشی تمام آیات پر نہیں ہیں مگر جن مقامات پر حضرت مفتی صاحب نے قرآنی علوم و احکام کی تشریح کی ہے وہ ان کے خصوصی ذوق کی آئینہ دار ہے۔ حضرت مفتی صاحب کا امتیازی ذوق عصر حاضر کے مسائل کو سامنے رکھ کر ان پر آیات و احادیث کا انطباق تھا اور آیاتِ قرآنی سے دورِ حاضر کے مسائل کے بارے میں استدلال و استنباط تھا جو جابجا جھلکتا ہے اور اس ذوق کے حاملین کی تسکین کا سامان فراہم کرتا ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے تفسیری ذوق کا اندازہ ان افادات کے تفصیلی مطالعہ سے ہی پورے طور پر ہو سکتا ہے البتہ بطور نمونہ اس کی چند جھلکیاں قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔
شمسی اور قمری سال میں قمری تقویم کی ترجیح کی وجہ بیان کرتے ہوئے مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’قمری ماہ میں واضح علامت چاند کی ہے کہ ایک دیہاتی اور پہاڑی کی چوٹی پر رہنے والا، جنگل اور بیابان میں رہنے والا، صحراؤں کے دامن میں رہنے والا یہ معلوم کر لے کہ آج چاند کی کیا تاریخ ہے۔ اور اس علامت میں ماہ و سال کو عالم فضا میں رکھا گیا کہ کرہ ارض پر کوئی شخص اس قدرتی کیلنڈر سے شاکی نہ رہے اور ہر آدمی اتنا دیکھ کر تاریخ معلوم کر سکے۔ جبکہ بارہ ماہ پر مشتمل شمسی سال کی تقسیم جعلی (مصنوعی) ہے۔ دراصل شمس اپنی ایک دائرہ کی حرکت ایک سال میں مکمل کرتا ہے اور قمر ہر ماہ دائرہ پورا کرتا ہے۔ مثلاً شمس اگر آج حمل میں ہے تو دوبارہ پورے سال کے بعد برج حمل میں آئے گا۔ اس کو لوگوں نے بارہ پر تقسیم کر دیا ہے۔ لیکن قمر ہر ماہ کو حرکتِ ذاتی سے براہ راست ثابت کرتا ہے اور ایک ماہ کی قمری حرکت بالکل واضح ہے۔ اب دیکھیے کہ حرکت شمس ایک دائرہ میں ۳۶۵ دن ۶ گھنٹے ہوتی ہے، اب ۳۶۵ دنوں کو تو ۳۱، ۳۰، ۲۸ میں تقسیم کر دیا ہے لیکن چھ گھنٹے ہر سال باقی رہ جاتے ہیں، چار سال بعد چوبیس گھنٹے بچ گئے لہٰذا انہوں نے کہا کہ چار سال بعد فروری کا مہینہ ۲۸ دن کی بجائے ۲۹ دن کا ہوگا اور اس میں بچت شامل ہوگی۔ یہ تو بالکل جعلی (مصنوعی) ہے۔ اسلام ہمیشہ اس بات کی تائید کرتا ہے جس کا تعلق عوام سے ہو کیونکہ قرآن کریم کا تعلق عوام سے ہے اسی وجہ سے قرآن کریم نے قمری مہینہ کو ترجیح دی ہے۔‘‘
ارتداد کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ:
’’بخاری کی حدیث میں ہے ’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘ کہ جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے اس کو قتل کر دو۔ آج کل کے مرتدین نے اس میں کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس کا دل کا عقیدہ تبدیل ہوگیا تو تم اسے اسلام پر کیسے رکھ سکتے ہو؟ ہمارے موجودہ آئین میں اور اس سے پہلے آئین میں ارتداد کا حق دیا گیا ہے چنانچہ ان کے نزدیک ایک مسلمان کفر کر سکتا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک ارتداد بنیادی حق ہے لیکن ہم نے حکمت کے ساتھ اسے بدل دیا۔ ہم نے کہا کہ تمہارا مقصد یہ ہے کہ تم ہر مذہب کو آزادی دینا چاہتے ہو، تو یوں نہ کرو کہ ہر شہری کو اختیار ہے کہ جو چاہے مذہب اختیار کرے بلکہ ہر شہری کو حق ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے، بدلنے والی بات نہ کرو۔‘‘
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہمارا عقیدہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ اس کے منکرین چودہ سو سال سے موجود تھے لیکن آج سائنس کے (چاند پر جانے کے) اس کارنامہ کی وجہ سے ہم جیت گئے۔ ہم نے کہا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ ہیں لیکن آج تک ایک طبقہ انکار کر رہا تھا وہ بھی آج شرمندہ ہے۔ آج ہم جیت گئے، اسلام جیت گیا، ہمیں خوشی ہونی چاہیے نہ کہ الٹا ہم کہیں کہ اسلام پر ضرب لگی ہے۔ یہاں شکست اسلام کی نہیں اس یونانی حکمت کی ہے جس یونانی حکمت کو ایک طبقہ اسلام سمجھ بیٹھا تھا حالانکہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔‘‘
الغرض حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے اس نوعیت کے تفسیری افادات آج کے ماحول اور تناظر کے حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کام کو تکمیل تک پہنچانے والے تمام احباب کو جزائے خیر سے نوازیں اور حضرت مفتی صاحب کے ان تفسیری افادات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے استفادہ کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔