روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ اکتوبر ۱۹۹۸ء کے ایک ادارتی شذرہ کے مطابق اقوام متحدہ کی دنیا میں غربت کے بارے میں سالانہ رپورٹ میں دنیا کے امیر ترین ممالک پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ امیر ممالک دنیا میں غربت اور افلاس کو کم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بیسویں صدی کے اختتام پر جس پیمانے پر غربت پائی جاتی ہے وہ انسانیت کے نام پر ایک دھبہ ہے، اس لیے امیر ملکوں کو چاہیے کہ وہ غریب ملکوں کے قرضے معاف کر دیں۔
ہمارے نزدیک دنیا میں غربت کی موجودہ صورتحال کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی یہ سالانہ رپورٹ ان جھوٹے دلاسوں کا ایک حصہ ہے جو کمزور اور غریب ممالک کو تسلی دینے کے لیے اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر سے وقتاً فوقتاً جاری ہوتی رہتی ہیں۔ اور دنیا کی کمزور اور غریب اقوام اور ممالک کے حوالے سے اس قسم کی بیسیوں رپورٹیں اور قراردادیں اقوامِ متحدہ کے شو روم میں ہر وقت سجی رہتی ہیں، ورنہ جہاں تک اصل صورتحال کا تعلق ہے غریب ممالک اور اقوام کی موجودہ غربت خود ان امیر ممالک کی پیدا کردہ ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا سبب وہ غیر متوازن سرمایہ دارانہ عالمی معاشی نظام ہے جو سیاسی بالادستی اور سائنسی و عسکری فوقیت کے سہارے بڑے ممالک نے پوری دنیا پر مسلط کر رکھا ہے۔ اور اس کے ذریعے دنیا بھر کا ظالمانہ استحصال کر کے یہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک اپنی چودھراہٹ اور بالادستی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اس عالمگیر استحصال اور جبر کو جاری رکھنے کے لیے انہیں اسی اقوام متحدہ کی چھتری میسر ہے جس کے عالمی اداروں اور سسٹم نے غریب ممالک اور اقوام کو ہر طرف سے جکڑ کر ان امیر ملکوں کے سامنے ڈال رکھا ہے۔
ورنہ اگر اقوام متحدہ دنیا میں غربت ختم کرنے کے لیے فی الواقع سنجیدہ ہے تو اس کا راستہ یہ ہے کہ یہ عالمی ادارہ امیر ملکوں اور نام نہاد بڑی طاقتوں کی اجارہ داری سے باہر نکلے، اور ان کی ترجیحات اور تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے دنیا کو ظالمانہ استحصالی نظام سے نجات دلانے کے لیے غریب ممالک اور اقوام کی عملی راہنمائی کرے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ موجودہ عالمی مالیاتی نظام کلیتاً ناکام ہو چکا ہے اور اس کے دامن میں انسانی آبادی کی اکثریت کے لیے غربت و افلاس اور فقر و محرومی کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ استحصال اور اجارہ داری سے پاک مالیاتی نظام تلاش کیا جائے، اسے دنیا میں متعارف کرایا جائے، اسے اپنانے میں غریب ملکوں کی مدد کی جائے، اور اس کے لیے امیر ملکوں پر دباؤ ڈالا جائے۔ ورنہ خالی قراردادوں اور رپورٹوں سے اقوام متحدہ کے نمبر شاید بنتے رہیں، مظلوم اور غریب ممالک و اقوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔