انور غازی: ہمارے آج کے مہمان حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، عالمی شہرت رکھتے ہیں، پاکستان میں ہر شخص ان کو جانتا ہے، درس قرآن ڈاٹ کام پر متعدد بیانات بھی ہو چکے ہیں۔ ہم براہ راست حضرت سے مختلف سوالات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں ان شاء اللہ آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
سوال: حضرت! پہلا سوال آپ سے یہ ہے کہ اس وقت نوجوانوں کے ایک بڑی تعداد سیاست کی طرف آنا چاہتی ہے، سیاسی ورکر بننا چاہتی ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ نے ایک طویل عرصہ عملی سیاست میں گزارا، پھر کیا وجہ بنی کہ آپ سیاست سے کنارہ کش ہو گئے؟
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم، سب سے پہلے تو میں درس قرآن ڈاٹ کام کا شکریہ ادا کروں گا کہ مجھے آج کی اس محفل میں گفتگو اور کچھ عرض کرنے کا موقع فراہم کیا۔ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ میں نے عملی سیاست کبھی بھی نہیں چھوڑی، آج بھی نہیں چھوڑی، صرف اس کا مورچہ بدلا ہے۔ میں پچیس سال، تقریباً ربع صدی حضرت مولانا مفتی محمود، حضرت مولانا غلام غوث ہزاوی، نوابزادہ نصر اللہ خان، حضرت مولانا شاہ احمد نورانی اور حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ جماعتی سیاست میں اور اتحادوں کے سیاست میں تقریباً فرنٹ پر رہا ہوں، اب پچھلی صف میں آگیا ہوں لیکن وہی کام کر رہا ہوں جو گزشتہ نصف صدی سے کرتا آ رہا ہوں۔ لیکن یہ ہے کہ ایک ہے عملی سیاست میں انتخاب، الیکشن اور پارٹی وغیرہ، میں اس سے ہٹ کر علمی فکری مورچے پر ہوں اور الحمد للہ میرے کام کے تسلسل میں کسی ایک دن کا وقفہ بھی نہیں ہے۔ ملکی سیاست، تحریک نفاذِ اسلام، تحریکِ ختمِ نبوت، اور اسلام کی تعبیر و تشریح میں امت کے اجماعی موقف کی ترجمانی تسلسل کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہوں۔
اصل میں عملی سیاست صرف پارٹیوں کی مقابلہ بازی، الیکشن اور پارلیمنٹ کو سمجھ لیا گیا ہے۔ جبکہ میں اِس کو بھی عملی سیاست سمجھتا ہوں اور علمی، فکری اور ذہن سازی کے محاذ پر، اور سوال و جواب کے محاذ پر اپنی بات کرتا ہوں۔ الحمد للہ میں ابھی تک سیاست کے میدان میں ہوں اور اپنا کردار ادا کر رہا ہوں۔
سوال: آپ نے مختلف دینی تحریکات میں حصہ لیا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہماری دینی جدوجہد اس وقت کہاں کھڑی ہے، دینی حلقوں کو کس رخ پر کام کرنا چاہیے؟
جواب: دینی جدوجہد مختلف حوالوں سے ہے۔ ایک تو نفاذِ اسلام کے لیے۔ پاکستان بننے سے پہلے ہی یا پاکستان بننے کے بعد نفاذِ اسلام کے لیے جدوجہد کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس کے دو تین الگ الگ فورم ہیں۔ ایک تو علماء کا مشترکہ طور پر اسلام کے سیاسی نظام اور سیاسی تقاضوں کی وضاحت کا مسئلہ ہے۔ قرارداد مقاصد سے لے کر علماء کے بائیس نکات تک اور اس کے بعد مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے۔ الحمد للہ یہ پاکستان کی قومی سیاست کا امتیاز ہے کہ جب بھی قومی سیاست اور قومی جدوجہد کو اجتماعی رہنمائی کی ضرورت پیش آئی ہے تو تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء نے مل بیٹھ کر رہنمائی کی ہے۔ اور یہ پاکستان میں ایک دفعہ نہیں دسیوں دفعہ ہو چکا ہے۔ اور اب بھی فورمز موجود ہیں جو رہنمائی کر رہے ہیں۔
ایک میدان تو یہ ہے کہ امت کا اجماعی موقف کیا ہے؟ اسلام کی تعبیر کیا ہے؟ اسلامی قانون کی تشریح کیا ہے؟ ایک محاذ یہ ہے۔
دوسرا پارلیمانی محاذ ہے۔ پارلیمانی محاذ پر بھی جماعتیں مختلف ادوار میں محنت کرتی رہی ہیں، الگ الگ بھی اور اکٹھے بھی اور ان کے نمائندے منتخب ہوتے رہے ہیں، آج بھی ہیں، اور وہ پارلیمنٹ میں اپنے موقف اور ملک میں دینی جدوجہد کے تقاضوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
تیسرا محاذ تحریکی ہے یعنی سول سوسائٹی، رائے عامہ اور سٹریٹ پاور۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس محاذ پر ہم ڈھیلے پڑ گئے ہیں، یہ جس طور پر ہونی چاہیے میں اس میں کمزوری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں ڈھیلا پن آگیا ہے، جبکہ اس کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے قانون اور دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے پُرامن سیاسی جدوجہد ہماری تحریک آزادی کی بیس بھی تھی، تحریک پاکستان کی بیس بھی تھی، تحریک ختم نبوت کی بیس بھی تھی، اور تحریک نفاذ شریعت کی بیس بھی ہے۔ اس لیے سٹریٹ پاور، سول سوسائٹی اور رائے عامہ کو منظم کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔ باقی دو محاذوں پر تو کام ہو رہا ہے، رہنمائی کے محاذ میں بھی مسلسل کام ہو رہا ہے، کبھی کوئی خلا نہیں رہا اور پارلیمانی محاذ پر بھی ہمارے نمائندے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہر دور میں رہے ہیں اور بات کہتے رہے ہیں، لیکن اصل جو پبلک اور رائے عامہ کی قوت ہے، اس میں میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ پہلے والا ماحول نہیں رہا۔ لہٰذا اس کو منظم کرنے اور اس میں اجتماعیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ میں اس بات پر زور دوں گا کہ سٹریٹ پاور، سول سوسائٹی اور رائے عامہ کو منظم اور متحرک کرنے کے لیے ایک تو ورک کی ضرورت ہے اور دوسرا اجتماعیت کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو اس پہلو پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
سوال: دور حاضر کے فکری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کس نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے؟
جواب: فکری مسائل تو ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں، تابعین کے دور تک تو یہ نہیں تھے، لیکن اس کے بعد اتباع تابعین کے دور سے شروع ہو گئے تھے۔ اور ہر زمانے میں جو نئے فلسفے آئے ہیں انہوں نے شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں، آج بھی وہ تسلسل جاری ہے، اور قیامت تک جاری رہے گا کہ فکری طور پر مسلمانوں کو ان کی بنیادوں سے کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے سب سے ضروری باتیں دو تین ہیں۔
ایک بات تو یہ کہ اپنی نئی نسل اور نئی پود کو دین کی بنیادوں سے وابستہ کرنا، اور بڑی گہرائی کے ساتھ، انہیں قرآن پاک، حدیث و سنت، سیرت رسولؐ، صحابہ کرامؓ اور امت کے اجماعی تعامل سے شعوری واقفیت دی جائے۔ سطحی اور جذباتی واقفیت تو ہوتی ہے کہ ہماری عقیدت بھی ہوتی ہے، جذباتیت بھی ہوتی ہے اور ادب بھی ہوتا ہے۔ لیکن شعوری واقفیت کہ قرآن پاک کا شعوری فہم، حدیث و سنت کا شعوری فہم، اور سیرت و اسوہ کا شعوری فہم فراہم کیا جائے۔ میں ان دنوں اس بات پر زیادہ زور دے رہا ہوں کہ حدیث و سنت کا اپنا دائرہ ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اسوہ کا اپنا دائرہ ہے۔
آج کل میرے خیال میں زیادہ ضرورت حضورؐ کی سیرت و اسوہ کو اجاگر کرنے کی ہے۔ مختلف مسائل کے حوالے سے، معاشرتی مسائل کے حوالے سے، سماج کی ضروریات کے حوالے سے، سیاسی تقاضوں کے حوالے سے، اجتماعی ضروریات کے حوالے سے سیرت و اسوہ کو اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک سو سالہ دور کے تعامل اور ان کے اجماعی عمل کو اجاگر کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ میرے خیال میں قرآن پاک، حدیث و سنت، سیرت و اسوہ رسولؐ اور صحابہ کرامؓ اور خلافت راشدہ کے ساتھ شعوری وابستگی جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی فکری فتنوں کا زور ٹوٹتا چلا جائے گا۔ اپنی بنیادوں سے شعوری وابستگی اور عقیدت اور محبت کے ساتھ ساتھ معلوماتی وابستگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر دور میں اس قسم کی خرابیاں آتی رہی ہیں اور دم توڑتی رہی ہیں، ہمیں اصل محاذ پر کام کرنا چاہیے۔
سوال: حضرت! یہ بتائیے کہ عالمی معاہدات میں علماء و مشائخ کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
جواب: عالمی معاہدات تو حکومتوں کے درمیان ہوتے ہیں، لیکن علماء اور دانشوروں کا یہ کردار ضرور بنتا ہے کہ وہ معاہدات سے واقفیت حاصل کریں اور اس کے مثبت و منفی پہلوؤں سے قوم کو آگاہ کریں، جو خطرات ہوں وہ بھی سمجھیں اور جو مفادات ہوں وہ بھی سمجھیں۔
میں یہ بات آج بھی ایک مجلس میں عرض کر کے آیا ہوں کہ اس وقت دنیا پر حکومت، حکومتوں کی کم ہے، عالمی معاہدات کی زیادہ ہے۔ بین الاقوامی معاہدات یورپی یونین کے ایک بیان کے مطابق ہیومن رائٹس کے حوالے سے اور آج کے جدید فلسفے کے حوالے سے ستائیس کنونشنز ہیں۔ معاہدات کی حکومت اس وقت زیادہ ہے، اس لیے ان معاہدات سے واقف ہونا، ان معاہدات پر بحث و تمحیص کرنا، اس کا قرآن و سنت اور اپنی چودہ سو سالہ تاریخ کے ساتھ موازنہ کرنا، مثبت و منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا، اور رہنمائی کرنا کہ کون سی بات ہمارے لیے قابل قبول ہے اور کون سی بات قابل قبول نہیں، یہ ہماری یونیورسٹیوں کا فرض بھی ہے، ہمارے دینی مدارس کا فرض بھی ہے، علماء اور دانشوروں کا فرض بھی ہے۔ اس طرف ہماری توجہ نہیں ہے، میرے خیال میں اس طرف توجہ دینی چاہیے اور ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
سوال: عالم اسلام کے نوجوان چوالیس فیصد ہیں، کوئی نئی قیادت پیدا نہیں ہو رہی، نوجوانوں کو کیا لائحہ عمل دیں گے؟
جواب: نوجوانوں کے لیے لائحہ عمل قیادت کے حوالے سے یہ ہے کہ قیادت تو حالات پیدا کرتے ہیں، اور تعلیمی نظام اور فکری تربیت کا جو سسٹم ہے اس سے قیادت سامنے آتی ہے۔ ہمارے ہاں مرعوبیت دراصل ہمارا راستہ روک رہی ہے کہ ہم ذہنی طور پر، تہذیبی اور فکری طور پر ابھی تک نو آبادیاتی دور سے نہیں نکل سکے۔ پولیٹیکلی تو سمجھ لیں کہ نو آبادیاتی دور سے ہم نکل گئے ہیں، لیکن ذہن، تہذیب، اور نظام ابھی تک وہی چل رہا ہے۔ ہمیں خود کو ذہنی طور پر اس سے نکالنا ہوگا اور اسلام، اسلام کی تاریخ، اسلام کے اسلاف، اور قرآن و سنت کے ساتھ اپنی وابستگی کو پورے حوصلے اور تدبر کے ساتھ پیش کرنا ہوگا۔
میرے خیال میں نوجوان ذہن کو اور نوجوان نسل کو جتنا جلدی مرعوبیت سے نکالا جا سکے اور یہ بتایا جا سکے کہ آج کا جدید فلسفہ اسلام کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بات کہی تھی، اقبالؒ نے بھی وہی بات دہرائی۔ میں انہی کی بات دہرانا چاہوں گا۔ شاہ صاحبؒ نے کہا تھا کہ آنے والا دور یہ ہے کہ اسلام اور اس کے قوانین اور ضوابط کو سماجی ضروریات کے حوالے سے پیش کیا جائے اور اس کی برتری ثابت کی جائے۔ اور اقبالؒ نے بھی یہی بات کہی تھی کہ آنے والے دور میں تجدید اور اجتہاد اسی کا چلے گا جو سماجی مسائل، معاشرتی مسائل، اور انسانی سوسائٹی کے مسائل کو سٹڈی کرے گا، قرآن و سنت کی روشنی میں ان کا حل پیش کرے گا اور ان کی افادیت ثابت کرے گا۔
میرے خیال میں اس پہلو پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور نوجوان اہلِ علم کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے اس پہلو پر قرآن پاک، سیرت طیبہ، خلافت راشدہ اور اپنی امت کے فقہاء کے چودہ سو سالہ اجماعی عمل کو سماجی ضروریات کے حوالے سے، سوسائٹی کے مسائل کے حوالے سے، اور آج کی انسانی سوسائٹی کی مشکلات کے حوالے سے پیش کرنے، اور حوصلے کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ میں بالکل یقین کے ساتھ سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنی تعلیمات کو آج کی زبان اور آج کے اسلوب میں اعتماد کے ساتھ پیش کریں تو آج کے فلسفہ میں سکت نہیں ہے کہ وہ اسلام کے فلسفے کے زور اور اس کی قوت کا مقابلہ کر سکے۔ صرف ہمیں تھوڑا سا حوصلے اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔
سوال: ۲۰۲۳ء میں ترکی اپنے سو سالہ معاہدے کے ختم ہونے کے بعد کیا اقدامات اٹھانے جا رہا ہے؟ خلافت عثمانیہ کے احیاء کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ ترکی بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ اور وہ خلافت کا ٹائٹل اختیار کرے یا نہ کرے یہ الگ مسئلہ ہے، لیکن ترکی کا گزشتہ تقریباً چار سو سال امتِ مسلمہ کی قیادت کا جو رول تھا، میں دیکھ رہا ہوں کہ ترکی آہستہ آہستہ ادھر بڑھ رہا ہے، اور اس کو آہستہ آہستہ ہی بڑھنا چاہیے۔ تیزی سے نہیں کرنا چاہیے۔ اس کو بتدریج اعتماد اور تدبر کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ اس کو باہر سے تو چیلنج ہیں ہی، اندر سے بھی بڑے چیلنج پیش آئیں گے، لیکن ترکی نے تین چار سو سال امت مسلمہ کی قیادت کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس کو اپنا ماضی یاد آ رہا ہے اور اچھی بات ہے یاد آ رہا ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ طیب اردغان جس اعتماد اور حوصلے کے ساتھ اور تدبر اور استقامت کے ساتھ بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں ان شاء اللہ العزیز وہ اپنا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ لیکن ضرورت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قوت یا کوئی تحریک آگے بڑھتی ہے تو نعرے لگانے والے بھی ساتھ آ جاتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ وہ زیادہ خرابی پیدا کرتے ہیں۔ میں جناب طیب اردغان سے توقع رکھوں گا کہ وہ عالم اسلام کے اہل دانش سے، جو دین اور دنیا دونوں کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں، استفادہ کا راستہ ہموار کریں گے اور ان کو منظم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے لیے سب سے بڑی قوت نظریاتی، فکری اور علمی قوت ہوگی اور مجھے نظر آ رہا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں۔
سوال: سعودی عرب کی حکومت خود کو قدم بقدم سیکولر بنانے کی طرف جا رہی ہے، جبکہ وہ مرکز اسلام اور مرجع مسلمین ہیں، آپ سعودی عرب اور حرمین شریفین کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
جواب: حرمین شریفین کو ان شاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دیکھیں، ہمیں حقائق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، جس طرح ہم بہت سے معاہدات کے پابند ہیں اسی طرح سعودی حکومت بھی بہت سے معاہدات کی پابند ہے۔ معاہدات موجود ہیں، ریکارڈ پر ہیں تو ہمیں سعودی عرب کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ایک اس حوالے سے کہ وہ حرمین شریفین کے خادم، نگران، محافظ اور ذمہ دار ہیں، اور سعودی حکومت کے استحکام پر حرمین شریفین کے تحفظ کا اسباب کی دنیا میں دارومدار ہے۔ اور دوسرے ہمیں ان کی رہنمائی بھی کرنی چاہیے اور ان کو جو چیلنجز درپیش ہیں ہمیں ان کو حوصلہ دینا چاہیے، اور ان کے ساتھ اہل فکر و دانش کا تعلق ہونا چاہیے تاکہ صحیح مشورہ دیا جا سکے۔ لیکن بہرحال ایک بھنور ہے، سعودی عرب مختلف حوالوں سے اس بھنور میں پھنسا ہوا ہے، اس بھنور میں بنیادی کردار ان معاہدات کا ہے جنہوں نے پورے مڈل ایسٹ اور سعودی عرب کو جکڑ رکھا ہے۔ ان سے نکلنے کی کوئی صورت ہو سکے تو اس میں سعودی عرب کی رہنمائی کرنی چاہیے، اس کو سپورٹ کرنا چاہیے اور اس کا ساتھ بھی دینا چاہیے۔
سوال: آپ کی نظر میں پاکستان کس بڑے بحران کا شکار ہونے جا رہا ہے؟ تین وجہ ہیں، بعض سیاسی پارٹیوں اور فوج کے درمیان جاری سرد جنگ کی وجہ سے؟ یا آئی ایم ایف کے سامنے کشکول گدائی لے جانے کی وجہ سے؟ یا موجودہ حکومت کے سیکولر اقدامات کی وجہ سے؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے بارے میں عالمی استعمار، ورلڈ اسٹیبلشمنٹ اور انٹرنیشنل ماحول کے ہاں ایک بات طے ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام کی سنجیدہ علمی، فکری، سیاسی قیادت ترکی، پاکستان اور مصر … مصر کا تو معاملہ گڑبڑ کیا جا چکا ہے، ترکی حکمت عملی کے ساتھ خود کو بحرانوں سے بچا کر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، اور پاکستان کے بارے میں یہ طے ہے کہ اس کو ہر حالت میں ڈسٹرب رکھنا ہے۔ پاکستان کو ڈسٹرب رکھنے میں اصل بنیادی پالیسی یہ ہے کہ پاکستان میں استحکام نہ ہو۔ اس کو ڈسٹرب رکھنے کے لیے کبھی کوئی لابی آگے جاتی ہے اور کبھی کوئی لابی آگے آ جاتی ہے، جیسے تاش کے پتے کھیلے جاتے ہیں، کبھی کوئی پتہ کھیل لیا جاتا ہے، اور کبھی کوئی پتہ کھیل لیا جاتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں نظریاتی شعور، سیاسی شعور، اور اپنے ماضی کے ساتھ وابستگی کو اجاگر کرنے کی اور مرعوبیت سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ڈسٹرب رکھنے میں ان کا مفاد ہے کہ پاکستان ڈسٹرب رہے گا تو مستقبل میں اپنے رول ادا نہیں کر سکے گا، تو پاکستان کو ڈسٹربیشن سے بچانے کے لیے، استحکام فراہم کرنے کے لیے دینی اور علمی قوتوں کو، جامعات اور دینی مدارس کو آگے بڑھنا چاہیے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
سوال: حضرت! گزشتہ انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے کہ وہ کیا وجوہات ہیں؟
جواب: میں تو اس کو شکست فاش نہیں کہتا۔ جتنی سیٹیں پچھلی دفعہ تھیں اب بھی تقریباً اتنی ہی ہیں، بلکہ جمعیت علماء اسلام جو بڑی مذہبی جماعت ہے اس کی سیٹیں اس دفعہ پچھلی دفعہ سے زیادہ ہیں، صرف یہ کہ ان کے قائد مولانا فضل الرحمٰن الیکشن ہارے ہیں، یہ پہلے بھی ہارے ہیں۔ میرے خیال میں اس کو مسئلہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی ٹینشن لینے کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی جماعتیں اگر ایک سال پہلے، مجھے متحدہ مجلس عمل سے شکایت ہے کہ وہ بہت دیر سے میدان میں آئے ہیں، اگر وہ پلاننگ کرتے، اس کے لیے ہوم ورک کرتے تو زیادہ بہتر پوزیشن حاصل کر سکتے تھے۔ ایم ایم اے اگر متوقع کامیابی حاصل نہیں کر سکی تو اس میں اس کی اپنی ٹائمنگ کا دخل ہے کہ صحیح ٹائمنگ کا انتخاب نہیں کر سکے، ہوم ورک نہیں کر سکے اور پلاننگ نہیں کر سکے۔ میرے خیال میں قوم کی طرف سے کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ اگر یہ بروقت آتے، صحیح پلاننگ اور حکمت عملی کے ساتھ آتے تو ان کو بہتر نتائج ملنے تھے۔ اب بھی میں ان نتائج کو نارمل نتائج سمجھتا ہوں، کوئی ایسی بات نہیں ہے لہٰذا شکست فاش کے لفظ سے مجھے اختلاف ہے۔
سوال: دینی حلقوں کا اتفاق و اتحاد کیسے ممکن ہے کہ یہ آپس میں بالکل مل جائیں؟
جواب: دیکھیں اتحاد تو ممکن نہیں ہے، لیکن اشتراکِ عمل ہمیشہ رہا ہے، آج بھی ہے، کل بھی رہے گا۔ اشتراکِ عمل ہی قابلِ عمل ہوتا ہے، ایک دوسرے مدغم ہونے والی بات تو ممکن نہیں ہے، مسالک کے اعتبار سے بھی، پارٹیوں کے اعتبار سے بھی، اور سیاسی افکار کے اعتبار سے بھی۔ یہ جس طرح ہمیشہ ہر دور میں رہنمائی کے لیے متحد ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے ایک شکایت ہے کہ جب ہم پر دباؤ بڑھتا ہے تو ہم متحد ہوتے ہیں، جب دباؤ کم ہوتا ہے تو ہم بکھر جاتے ہیں۔ ہمیشہ جب بھی کوئی اجتماعی کام ہوتا ہے میں شکایت کرتا ہوں کہ بھئی متحد ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے، متحد رہنا مسئلہ ہے۔ اسلام آباد میں بڑی ای پی سی، سربراہی کانفرنس تھی۔ میں نے وہاں کہا کہ متحد تو ہم کسی وقت بھی ہو سکتے ہیں، کسی بھی مسئلے پر دینی قیادتوں کو کسی تفریق کے بغیر مجتمع کرنے میں ہمیں چوبیس گھنٹے درکار ہوتے ہیں، چوبیس گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگتا، لیکن متحد رہنا، نارمل حالات میں متحد رہنا اور نارمل فیلڈ ورک کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا، اصل ضرورت یہ ہے اور دینی قیادتوں کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔
سوال: دینی مدارس کے نظام اور نصاب پر بحث کا سلسلہ پھر جاری ہے، آپ وفاق المدارس کی نصاب کمیٹی میں بھی ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا دینی مدارس کا موجودہ نصاب دور حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے؟ اگر نہیں تو نصاب میں بہتری کیوں نہیں لائی جا رہی؟
جواب: میں وفاق المدارس کی ایک کمیٹی میں تھا اب نہیں ہوں۔ میں اپنی حیثیت سے بات کروں گا۔ دینی مدارس کے نصاب و نظام کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دینی مدارس کے قیام کے جو اپنے اہداف تھے، اس میں تو وہ کامیاب ہیں۔ دینی مدارس نے ۱۸۵۷ء کے بعد جب یہاں کے تعلیمی نصاب سے قرآن پاک، حدیث و سنت، فقہ اسلامی، عربی اور فارسی کو نکال دیا گیا تھا، اور وہ جو مشترکہ نصاب تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں بھی تھا کہ دونوں تعلیمیں اکٹھی پڑھائی جاتی تھیں۔ درس نظامی دونوں تعلیموں کے مشترکہ نظام کو کہا جاتا ہے، ۱۸۵۷ء تک یہ دونوں اکٹھے ایک تپائی پر ایک صف پر اور ایک کمرے میں پڑھائے جاتے تھے۔ اس کی تقسیم انگریز نے کی ہے، یہ ہمارے کھاتے میں خواہ مخواہ ڈال دیا جاتا ہے۔ انگریزوں نے تفریق کی کہ ۱۸۵۷ء کے بعد جو نصاب ترتیب دیا اس میں سے قرآن پاک، حدیث، عربی اور فارسی نکال دی۔ اور بطور خاص چونکہ عربی ہمارا ذریعہ تعلیم تھا اور ہماری علمی زبان تھی، اس کو نکال دیا۔ آپ کو ایک بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس کے بعد جتنے مدرسے بنے ہیں مدرسوں کا ابتدائی نام مدرسہ عربیہ ہوتا تھا۔ چونکہ عربی ہماری تعلیمی زبان بھی تھی، علمی زبان بھی تھی۔ خیر مدارس نے دو کام کیے:
ایک تو یہ کام کیا کہ جن علوم کو انگریزوں اور برطانوی حکومت نے مشترکہ نصاب سے خارج کر کے یکطرفہ نصاب رائج کیا تھا ان کو بحال رکھا ہے اور الحمد للہ اس میں پوری طرح کامیاب ہیں، بلکہ توقع سے زیادہ کامیاب ہیں کہ آج قرآن پاک، حدیث و سنت، فقہ اسلامی، اسلامی تاریخ وغیرہ علوم موجود ہیں، ان کا نیٹ ورک ہے، جس سے کوئی شہر خالی نہیں ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ ان کی ذمہ داری تھی کہ مسلمانوں میں مسجد اور مکتب کے ادارہ کو رجال کار فراہم ہوتے رہیں۔ یہ مدارس کا بنیادی ٹارگٹ تھا جو کہ حاصل ہو رہا ہے۔ مدارس خطیب، امام، مفتی، مدرس، حافظ اور قاری دے رہے ہیں، اور میں ایک بات لطیفے کے طور پر کہا کرتا ہوں کہ یہ صرف سوسائٹی کی ضروریات پوری نہیں کر رہے، بلکہ ایکسپورٹ بھی کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کے دینی مدارس کے فضلاء، قاری، حافظ، مفتی اور عالم موجود ہیں، آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، آپ کو ملیں گے۔
مدارس کے یہ دو مقاصد تھے کہ دینی علوم محفوظ رہیں، ان کا نیٹ ورک قائم رہے، وہ قائم ہے۔ دوسرا مساجد و مدارس کو رجال کار ملتے رہیں، وہ مل رہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مدارس کا نصاب بھی ٹھیک ہے اور ان کا طریقہ کار بھی۔
ہاں آزادی کے بعد کچھ اور ضروریات ہم سے متعلق ہو گئی تھیں جو اب بھی ہم سے متقاضی ہیں، اس کی وجہ بھی ہم نہیں ہیں۔ مثلاً پاکستان چونکہ اسلام کے لیے بنا ہے، پاکستان کا دستور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی بات کرتا ہے، قرآن و سنت کے نفاذ کی بات کرتا ہے، اور شرعی قوانین پر عمل کی بات کرتا ہے، تو پاکستان میں ان شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے وکلاء، جج صاحبان اور بیوروکریسی قرآن و سنت کے حوالے سے تیار کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست کے تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے جج فراہم کریں جو قرآن و سنت جانتے ہوں، ایسے وکلاء فراہم کریں جو قرآن و سنت کی بات کر سکیں، ایسے بیوروکریٹ فراہم کریں جو خلافت راشدہ اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ملک کا نظام چلا سکیں، ایسے سیاستدان فراہم کریں جو سیاست کے مروج نظام کو بھی سمجھتے ہوں اور اسلام کے تقاضوں کو بھی سمجھتے ہوں۔ یہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے، مگر چونکہ وہ پوری نہیں کر رہے، صرف یہ نہیں کہ ریاستی تعلیمی نظام دستور کے مطابق اس کی جو ذمہ داریاں بنتی ہیں پوری نہیں کر رہا، بلکہ ریاستی تعلیمی نظام اپنی دستوری ذمہ داریاں پوری کرنے سے انکاری ہے۔ اس لیے لوگوں کی توجہ دینی مدارس کی طرف ہوتی ہے کہ وہ یہ پوری کریں۔ یہ ان پر زائد ذمہ داری ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ دینی مدارس کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور عصری علوم جو ان کی ضرورت کے ہیں، عصری تعلیم سے میری مراد یہ ہے کہ آج کی زبان، انگریزی زبان، کمپیوٹر، اور جو فنون اور علوم ان کے اپنے کام میں معاون ہیں، دینی مدارس کو نصاب میں شامل کرنے چاہئیں، لیکن یہ بات کہ دینی مدرسے کو انجنیئرنگ کالج میں بدل دیا جائے، یا میڈیکل کالج میں بدل دیا جائے، یا ٹیکنیکل کالج میں بدل دیا جائے، یہ دینی مدارس کے اہداف کے خلاف ہے، اس کے مشن اور پروگرام کے خلاف ہے، یہ بات درست نہیں ہے۔ ہاں ضروری علوم کو شامل کرنا چاہیے اور جو تقاضے ریاستی ادارے پورے نہیں کر رہے اور اپنی ذمہ داریوں سے گریز کر رہے ہیں۔ اگر دینی مدارس ان معاملات میں بھی کچھ کردار ادا کر سکیں تو انہیں ایڈجسٹ کرنا چاہیے، میں اس کے حق میں ہوں، لیکن یہ بات کہ ریاستی ادارے تو کوئی ذمہ داری قبول نہ کریں اور …
پچھلے دنوں ایک جگہ بات ہوئی۔ مجھ سے کہا گیا کہ جناب آپ مدارس میں ایف اے کروائیں۔ میں نے کہا ہم میٹرک تو کروا رہے ہیں، میٹرک تک بنیادی ضرورت ہے اس سے آگے سپیشلائزیشن ہے کہ اس کے بعد کوئی سائنس کی طرف جاتا ہے، کوئی ٹیکنالوجی کی طرف جاتا ہے، کوئی میڈیکل کی طرف جاتا ہے، اور کوئی دین کی طرف آ جاتا ہے۔ بات زیادہ بڑھی تو میں نے کہا یار بات سنو، انصاف کی بات کرو، ہم تو میٹرک کروا رہے ہیں، ایف اے سے بھی انکار نہیں ہے، لیکن آپ لوگ ریاستی تعلیمی نظام میں، سکول اور کالج میں قرآن پاک ناظرہ پڑھانے کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کر رہے۔ میٹرک تک آپ کو ترجمہ قرآن پاک پڑھانا چاہیے، آپ یہ ذمہ داری قبول نہیں کر رہے۔ آپ کا دستور آپ کو عربی زبان کے تحفظ اور فروغ کی ہدایت کرتا ہے، آپ قبول نہیں کر رہے۔ آپ تو قرآن پاک ناظرہ پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہے اور مجھے کہتے ہیں میں ایف اے بھی پڑھاؤں، کوئی انصاف کی بات کرو۔ دینی مدارس سے جو جائز مطالبات ہیں، میں ان کی حمایت کرتا ہوں، لیکن دینی مدارس کا ایجنڈا تبدیل کرنے کی بات، دینی مدارس کا رخ تبدیل کرنے کی بات، ان کے بنیادی رول کو تبدیل کرنے کی بات ملک کے مفاد کے خلاف ہے، دستور کے تقاضوں کے خلاف بھی ہے اور دینی مدارس کے تقاضوں کے خلاف تو ہے ہی۔
سوال: حضرت! اس وقت اکثر مدارس مالی مسائل کا ہی شکار ہیں، اس مالی بحران سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟
جواب: مالی بحران تو بڑھے گا اس لیے کہ ورلڈ اسٹیبلشمنٹ اور ہماری ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی تمام پالیسیوں کا رخ یہ ہے کہ دینی مدارس کی سوسائٹی سے مالی سپلائی روکی جائے۔ کبھی کھالوں کے حوالے سے، کبھی کسی اور حوالے سے۔ ابھی پنجاب میں جو ایکٹ آیا ہے۔ اس سب سے ان کی کوشش یہ ہے کہ دینی مدارس کو سوسائٹی جو سپورٹ کرتی ہے اس سپورٹ کو روکا جائے۔ اس کے لیے دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈا اور پابندیوں کا ہتھیار بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا یہ مشکلات تو پیدا ہوں گی، لیکن یہ سہولتیں تو ابھی پچیس تیس قبل آئی ہیں، جبکہ دینی مدارس نے اپنی تاریخ اور اپنی ذمہ داریوں کا بیشتر حصہ مسجد کی چٹائی پر محلے سے روٹیاں مانگ کر …جنہوں نے دینی تعلیم کو ایک صدی تک باقی رکھا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ یہ مالی مشکلات ان کے حوصلے میں کوئی کمی ڈال سکیں گی، یہ نہیں ہوگا ان شاء اللہ العزیز۔
سوال: حضرت! آپ اس تجویز کو کیسے دیکھتے ہیں کہ جس طرح اقرأ ٹائپ کے اسکول، اسلامک سکول طلبہ سے فیسیں لیتے ہیں، اب تو ماشاء اللہ خوشحالی کا دور ہے، پاکستان میں اتنی غربت نہیں ہے تو کیا بچوں سے فیسیں لی جا سکتی ہیں؟
جواب: میں اس کے حق میں نہیں ہوں، سکول کی حد تک بات ٹھیک ہے، وہ نیٹ ورک ہمیں مضبوط کرنا چاہیے کہ اقرأ روضۃ الاطفال طرز کا سکول ہو اور سکول میں بنیادی دینی تعلیم ہو، ہمیں اپنے سکول سسٹم قائم کرنے چاہئیں، ہمیں اپنے اسکول اور کالج بنانے چاہئیں جہاں جدید تعلیم دی جائے، اور اپنا دینی تعلیم کا ٹچ دے دیا جائے اور اپنا ماحول فراہم کیا جائے، لیکن دینی مدارس کی ہیئت کو تبدیل کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔
سوال: حضرت! نوجوانوں کے حوالے سے چند سوالات ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، سوشل میڈیا کے اندھے بے دریغ اور بے جا استعمال نے ہماری نئی نسل کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، آپ نئی جنریشن کو کیا نصیحت کریں گے کہ وہ اس فتنے سے بچ سکیں؟
جواب: گزارش یہ ہے کہ آپ اسے روک تو سکتے ہیں، جیسا کہ جب سخت اندھی آتی ہے تو آندھی کو روک نہیں سکتے، جب سیلاب آتا ہے تو اس سیلاب کو آپ روک نہیں سکتے، بلکہ اس سیلاب میں سے خود کو بچاتے ہوئے نکلنا ہوتا ہے۔ نئی نسل کو شعور فراہم کیا جائے، خیر اور شر کا فرق بتایا جائے، اچھے اور برے استعمال کی تمیز سے آگاہ کیا جائے، اور پوری کوشش کی جائے، یہ بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں۔ آپ یہ کہیں کہ وہ استعمال نہ کریں، یہ تو ممکن نہیں ہے، وہ تو سیلاب ہے، طوفان ہے اور آندھی ہے، اس میں سے گزرنا ہی ہے، جس طرح ہم طوفان، آندھی اور سیلاب میں اپنے گھر اور اپنے بچوں کی حفاظت کرتے ہیں، اس فکری سیلاب اور آندھی میں بھی ہمیں اسی طرح فکر کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے اور ان کی رہنمائی کرنی چاہیے۔
سوال: اسی طرح ایک سوال اور ہے کہ اس وقت ویسے تو ہر طبقے میں اشتعال انگیزی اور انتہا پسندی کا رجحان فروغ پا رہا ہے، لیکن نوجوان بہت زیادہ مشتعل ہو جاتے ہیں، جلدی مشتعل ہو جاتے ہیں، انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اس اشتعال انگیزی کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟
جواب: اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں اشتعال انگیزی کی وجہ معلوم کرنی چاہیے۔ جب نوجوانوں کے سامنے وعدے، دعوے اور عزائم آتے ہیں اور نتیجہ نہیں آتا تو ری ایکشن تو ہوگا۔ ملک کے ریاستی ادارے، علمی ادارے، میں کسی کو مستثنی نہیں کرتا، ان کی طرف سے جب ایک نوجوان کے سامنے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ہوگا، یہ ہوگا۔ اور ہوتا کچھ نہیں ہے تو وہ نوجوان کیا کرے گا؟ لازماً ری ایکشن کا شکار ہوگا جب محرومی اور مایوسی آتی ہے تو۔ اس لیے میں نوجوان کو قصور وار نہیں سمجھتا، میں سوسائٹی کو قصور وار سمجھتا ہوں جو بتدریج نوجوانوں کو محرومی اور مایوسی کا شکار بناتے ہیں۔ اس میں ہم بھی شامل ہیں اور سیاسی قیادت بھی شامل ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم نوجوانوں سے وہ بات کریں جو ہم کر سکتے ہیں، ہم وہ باتیں کرتے ہیں جو ہمارے بس میں نہیں اور جب نوجوان نتائج نہیں دیکھتے تو…
اور دوسری بات نوجوانوں سے بھی میں عرض کروں گا کہ اشتعال کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا، ہمیں حوصلہ، تدبر اور برداشت کو فروغ دینا چاہیے، اس کی تلقین کرنے کی ضرورت ہے، سمجھانے کی ضرورت ہے، اور اشتعال اور برداشت کے درمیان جو توازن کا راستہ ہے وہ بتانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں قوم کی رہنمائی کرنی چاہیے، نوجوانوں کو سمجھانا چاہیے۔ بالخصوص میں سمجھ رہا ہوں کہ آج سے تیس سال پہلے ہمارے اپنے ماحول میں جو برداشت تھی وہ کم ہوئی ہے اور اشتعال بڑھا ہے۔ ہمیں اہل دین کو، علماء کرام کو، دینی مدارس کے وفاقوں کو اور دینی قیادتوں کو اس پر خاص توجہ دینی چاہیے کہ ہم مکالمے کا حوصلہ پیدا کریں، گفتگو کا حوصلہ پیدا کریں، برداشت کا حوصلہ پیدا کریں۔ ہماری امت میں علمی اور سیاسی اختلافات چلے آ رہے ہیں، لیکن اس میں برداشت اور حوصلے کو بڑھانا ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں اس میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
سوال: حضرت! اسی حوالے سے ایک اور سوال یہ ہے کہ آج کل بچوں، نوجوانوں کی تعلیم پر تو بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے، لیکن تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے نئی نسل بگاڑ اور اخلاقی بگاڑ کی طرف بڑھ رہی ہے، تربیت کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
جواب: آپ فرماتے ہیں کہ تعلیم کی طرف توجہ دی جاتی ہے تو میں مان لیتا ہوں، ویسے میرے خیال میں تعلیم کی طرف بھی ہماری توجہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں توجہ فیسوں کی طرف ہے، وردی کی طرف ہے اور پروٹوکول کی طرف ہے، دونوں شعبوں میں، دینی تعلیم کے شعبے میں بھی اور عصری تعلیم کے شعبے میں بھی معیار گرتا جا رہا ہے اور تعلیمی ماحول کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ہم دونوں طرف کے لوگ زیادہ نمائش، ڈگریوں اور پروٹوکول پر آ گئے ہیں، ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے اور تعلیمی معیار پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
تعلیمی معیار کے ساتھ ساتھ میں تین قسم کی تربیت کی بات کروں گا۔ تربیت کے مختلف دائرے ہیں: (۱) دینی تربیت یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ، واجبات اور فرائض کے پابند ہوں۔ (۲) اخلاقی تربیت کہ لوگوں کے ساتھ میل جول اور سوسائٹی میں ڈیلنگ کیسے کرنی ہے۔ (۳) اور فکری تربیت کہ آج کے مسائل کو سمجھنا اور اس میں صحیح راستہ اختیار کرنا۔ یہ تین الگ الگ دائرے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو، دینی جماعتوں کو، دینی قیادتوں کو، علمی قیادتوں کو، یونیورسٹیوں کو ان دائروں کی طرف توجہ دینی چاہیے اور یہ ہماری ضرورت ہے۔
سوال: حضرت! ایک سوال حکومت کے حوالے سے ہے۔ موجودہ حکومت نے پورے ملک میں تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہے، اگر ان تجاوزات میں مساجد اور مدارس آ جاتے ہیں تو حکومت کیا کرے؟
جواب: میرا خیال ہے کہ تجاوزات کے خلاف مہم تو ٹھیک ہے، لیکن میں حکمرانوں سے عرض کروں گا کہ اس میں دو باتوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ ہے کہ سیاسی انتقام کے تاثر سے بچنے کی ضرورت ہے۔ بعض مقامات پر شکایات سامنے آئی ہیں کہ تجاوزات کے نام پر یک طرفہ کارروائی ہے۔ اور بعض مقامات پر یہ شکایت آئی ہے کہ مدارس اور مساجد … دیکھیں اگر مساجد اور مدارس ایک عرصے سے کسی ایسی زمین پر حکومت کی اجازت سے، یا حکومت کی اجازت نہ سہی، لیکن ایک مسجد پچاس سال سے چلی آ رہی ہے، جو ایک مشترکہ جگہ پر ہے اور حکومت اس کو قبول کرتی آ رہی ہے، تو اب اس کو مسترد کرنے میں میرے خیال میں شرعی طور پر مشکل ہوگی۔ ہاں جہاں مفادِ عامہ متاثر ہوتا ہے مثلاً روڈ ہے یا کوئی پبلک مفاد کی جگہ ہے، تو وہاں مشورے سے بات کی جا سکتی ہے۔
بہرحال تجاوزات کے خلاف مہم تو درست ہے، لیکن اسے دو باتوں سے بالکل خالی ہونا چاہیے۔ ابھی سے یہ تاثرات شروع ہو گئے ہیں: ایک تاثر یہ کہ سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے، یہ بات نہیں ہونی چاہیے کہ وہ لوگ زیادہ نشانہ بنیں جو سیاسی طور پر مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ اور دوسرے اگر دینی مدارس اور مساجد کے خلاف یہ بات بڑھی جیسا کہ چنیوٹ میں ایک بات پیدا ہوئی تھی، تو تجاوزات کے خلاف مہم خود ناکامی کا شکار ہو جائے گی۔ اس لیے حکومت کو اس کے نتائج بھی دیکھنے چاہئیں اور ان دو تاثرات سے اپنی مہم کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ مہم مساجد اور مدارس کے خلاف کی جا رہی ہے یا سیاسی انتقام کے طور پر کی جا رہی ہے۔
سوال: حضرت! آپ نے کئی حکومتیں بنتے اور ختم ہوتے دیکھی ہیں، پاکستان میں نو منتخب حکومت کو کیا نصیحت کریں گے؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ وہ جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو اپنے وعدوں کا پاس کرنا چاہیے اور بتدریج آگے بڑھنا چاہیے۔ پچھلے دنوں میں نے عمران خان صاحب سے ایک وائس میسج میں کہا تھا کہ سارے مسئلے بیک وقت چھیڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس سے نقصان ہوگا، بتدریج آگے بڑھیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اردگرد تجربہ کار لوگوں کی ٹیم کم ہے اکا دکا تجربہ کار ہیں، تجربہ کار لوگوں سے فائدہ اٹھائیں اور بتدریج آگے بڑھیں، اپنے وعدوں کا پاس رکھیں اور بیلنس رکھیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ بین الاقوامی ماحول کو نظر انداز کر دیں، لیکن بین الاقوامی ماحول کی خاطر اپنے قومی مفادات کو قربان نہ کریں، بلکہ دونوں میں توازن رکھیں۔ میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دوں گا کہ بین الاقوامی معاہدات، بین الاقوامی دباؤ اور ملکی مفادات، قوم کے مفاد، قوم کی وحدت، قومی خود مختاری کے درمیان بڑی حوصلہ مندی کے ساتھ توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ توازن قائم نہ کر سکے تو کسی ایک طرف لڑھک جائیں گے، اسے ویل بیلنس کہتے ہیں دونوں پہیوں میں ہوا برابر رکھنا ہوگی، اگر کسی ایک طرف پہیہ ڈھیلا پڑ گیا تو گاڑی لڑھک جائے گی، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ توازن اور حوصلہ سے آگے بڑھیں۔
سوال: ایک سوال یہ ہے آپ کے والد محترمؒ کی قرآن پاک کے بارے میں بڑی خدمات ہیں، نوجوانوں کو ہمارے اکابر کے بارے میں معلومات نہیں ہیں تو آپ اپنے والد محترم کے بارے میں کچھ واقعات، کچھ تجربات کوئی ایسی چیزیں بتائیں تاکہ نوجوان اس سے کچھ سیکھ سکیں۔
جواب: والد گرامیؒ دو تین باتوں کی بہت تلقین کیا کرتے تھے۔ ایک تو اپنے شاگردوں کو، جہاں بھی ان کا کوئی شاگرد ہوتا، اسے درس قرآن پاک کی سختی سے تلقین کرتے تھے کہ جہاں مسجد میں یا کسی ادارے میں کام کر رہے ہیں تو روزانہ کسی ایک نماز کے بعد قرآن پاک کے درس کا اہتمام کریں، یہ ان کی خاص تلقین ہوا کرتی تھی۔ دوسرے وہ ایک ضرورت کی طرف توجہ دلاتے تھے کہ نئے تعلیم یافتہ مثلاً کالج اور سکول کے نوجوانوں کے لیے ہلکی پھلکی عربی گرامر کے ساتھ قرآن پاک کے ترجمہ کی کلاسیں ہوں۔ وہ اس کی تلقین بھی کرتے تھے، حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے اور شاگردوں سے پوچھتے تھے کہ تم کر رہے ہو یا نہیں؟ جس شاگرد کے بارے میں پتہ چلتا کہ اس نے ترجمہ کلاس شروع کی ہوئی ہے اور کالج، یونیورسٹی کے نوجوانوں اور محلے کے ملازمین کو عربی گرامر کی کلاس پڑھا رہا ہے تو بہت خوش ہوتے تھے۔ اور یہ ان کی خاص تلقین ہوتی تھی، وہ یہ کہا کرتے تھے اگر نوجوانوں کا قرآن پاک کے ساتھ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث کے ساتھ شعوری تعلق قائم کر دو گے تو کوئی انہیں گمراہ نہیں کر سکے گا۔
سوال: حضرت! آخری سوال یہ ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ درس قرآن ڈاٹ کام نے پورے پاکستان کے مذہبی لوگوں کو دینی شخصیات اور علماء کرام کو سب سے پہلے اس پر ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔ آپ درس قرآن ڈاٹ کام کی خدمات کو کس حوالے سے دیکھتے ہیں۔
جواب: میں اسے بہت مفید سمجھتا ہوں کہ اس نے ایک اچھی بنیاد اور ایک اچھا راستہ فراہم کیا ہے اور بڑے تسلسل کے ساتھ۔ ہمارے بڑے اچھے دوست، ساتھی اور بھائی مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ کی محنت اور کارکردگی میرے سامنے ہے۔ پھر شفیق اجمل صاحب ہمارے بھائی اور دوست ہیں، جو بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں۔ میں ان کے لیے دعا گو رہتا ہوں اور وقتاً فوقتاً ہلکا پھلکا شریک بھی ہو جایا کرتا ہوں۔ یہ بڑا اچھا کام ہے، اس کام کو فالو کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی اور اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
انور غازی: حضرت! آپ کا بہت بہت شکریہ۔ ناظرین و سامعین! آج ہمارے ساتھ موجود تھے مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب، حضرت نے حکومت سے لے کر نوجوانوں تک ہر طبقے کے لیے رہنمائی فراہم کی ہے، اور ایسی باتیں کی ہیں کہ اگر ان پر عمل کر لیا جائے کہ ہر طبقے کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔ اسی کے ساتھ ہمیں اجازت دیجئے۔