حضرت مولانا سید انور حسین نفیس الحسینیؒ

   
مارچ ۲۰۰۸ء

حضرت سید نفیس شاہ صاحبؒ بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق رائے پور کی عظیم خانقاہ سے تھا اور وہ اپنی منفرد طرز کے باعث علمی و دینی حلقوں میں ایک امتیازی پہچان رکھتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر ضلع سیالکوٹ کے ایک خوشنویس خاندان کے چشم و چراغ تھے، اس فن میں انہوں نے ایسی پیش قدمی کی کہ ان کا شمار عالم اسلام کے ممتاز خطاطوں میں ہوا اور ان کی اجتہادی صلاحیتوں نے اس فن کو حسن و نزاکت کی نئی جہتوں سے متعارف کرایا۔ جبکہ دینی حلقوں میں وہ ایک حق پرست صوفی اور دینی تحریکات کے سرپرست اور مربی کے طور پر متعارف تھے اور انہوں نے زندگی بھر دینی جماعتوں اور تحریکوں کے راہ نماؤں اور کارکنوں میں شفقتیں بانٹیں۔

میری ان سے نیازمندی اس دور سے تھی جب وہ میکلوڈ روڈ لاہور پر ہفت روزہ چٹان کے دفتر میں بیٹھا کرتے تھے اور ان کی سرپرستی میں جمعیۃ طلبہ اسلام کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔ مجھے اس جمعیۃ طلبہ اسلام کے ابتدائی ارکان میں سے ہونے کا شرف حاصل ہے اور میں نے بھی اپنی نوجوانی کا کچھ عرصہ طلبہ کی اس تنظیم کو پروان چڑھانے میں صرف کیا ہے۔ جب یہ جماعت تشکیل پا رہی تھی تو ہمارے دو بزرگوں نے اس کی سب سے زیادہ سرپرستی کی، ایک حضرت مولانا محمد اجمل خان صاحب قدس اللہ سرہ العزیز اور دوسرے سید نفیس شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ۔ دینی مدارس اور کالجوں کے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے والی اس طلبہ تنظیم نے ایک زمانے میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں اپنا حلقۂ اثر قائم کر لیا تھا اور کالجوں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کی سطح پر بڑی تنظیموں میں اپنا شمار کرا لیا تھا لیکن اسے کسی کی نظر بد کھا گئی۔ اپنے دور عروج میں یہ طلبہ تنظیم دو حصوں میں بٹ گئی، ایک حصے پر نظریاتی اور فکری رنگ نے ایسا غلبہ پایا کہ وہ سوسائٹی کے عملی مسائل اور معروضی ماحول سے لا تعلق ہو کر رہ گیا، اور دوسرے حصے کو معروضی حالات کی بھول بھلیوں نے گم کر دیا۔ بہرحال اس کا آغاز جن لوگوں کی سرپرستی میں ہوا تھا ان میں حضرت نفیس شاہ صاحبؒ سرفہرست ہیں اور مجھے اس دور میں بھی ان کی شفقتوں اور دعاؤں کا شرف حاصل رہا ہے۔

حضرت شاہ صاحبؒ کا تعلق حضرت امام زید بن علیؒ کے عظیم خانوادہ سے بتایا جاتا ہے اور وہ اسی نسبت سے زیدی بھی کہلاتے تھے۔ انہیں امت کے جن بزرگوں سے عشق کی حد تک محبت و عقیدت تھی ان میں حضرت امام زیدؒ کا نام سر فہرست ہے۔ اس فہرست میں تین اور بزرگوں کے نام بھی ہیں جن میں سے ایک حضرت خواجہ گیسو درازؒ، دوسرے امیر المؤمنین سید احمد شہیدؒ اور تیسرے ان کے اپنے شیخ و مربی حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ ہیں۔ حضرت رائے پوریؒ کی نظر التفات نے ہی انہیں انور سے نفیس اور زیدی سے الحسینی میں تبدیل کیا تھا۔ ان کا اصل نام انور حسین تھا اور حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کے دست اقدس پر بیعت ہونے سے قبل وہ سید انور زیدی کہلاتے تھے مگر ان کے قریبی حلقوں کی روایت کے مطابق حضرت رائے پوریؒ نے ان کی طبعی نزاکت و نفاست کو دیکھ کر انہیں نفیس کے نام سے پکارا اور پھر وہ نفیس الحسینی بن گئے۔

حضرت امام زید بن علیؒ سے انہیں بطور خاص عقیدت تھی، کچھ عرصہ قبل انہوں نے امام زیدؒ پر مصر کے نامور محقق الاستاز ابو زہرہ کی تصنیف کو پاکستان میں شائع کرنے کا اہتمام کیا اور خانقاہ سید احمد شہیدؒ میں ایک حاضری کے موقع پر یہ گراں قدر کتاب انہوں نے مجھے اپنے دستخطوں کے ساتھ مرحمت فرمائی۔ جبکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ زندگی کے آخری ایام میں وہ حضرت امام زیدؒ کے مناقب و فضائل پر ایک علمی کتاب کی اشاعت کے لیے کوشاں تھے۔ حضرت سید احمد شہیدؒ کے ساتھ ان کی عقیدت و محبت کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے لاہور میں اپنی قائم کردہ خانقاہ کو بھی ”خانقاہ سید احمد شہید“ کے نام سے موسوم کر دیا۔ وہ تحریک مجاہدین کے حالات و واقعات کے حافظ تھے، ان کی مجلس میں اس تحریک کا کسی بھی حوالہ سے تذکرہ ہوتا تو وہ معلومات کے انبار لگا دیتے ۔

میں حضرت شاہ صاحبؒ کو دو تین حوالوں سے انسائیکلو پیڈیا کہا کرتا تھا۔ ایک تحریک آزادی کی جد و جہد، دوسرا تحریک مجاہدین کے حالات و واقعات اور تیسرا تصوف اور صوفیاءکرامؒ کے حالات اور ان کا ذوق و محنت۔ ان میں سے کسی حوالے سے معلومات درکار ہوتیں تو ا س بات کا ان کی مجلس میں تذکرہ کر دیا جاتا، پھر کسی لائبریری میں جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی تھی۔ ایک دفعہ مجھے سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک کے ہمارے صوفیائے کرام کے ساتھ تعلق کے بارے میں معلومات درکار تھیں، حضرت شاہ صاحبؒ ان دنوں لندن گئے ہوئے تھے، میں بھی وہیں تھا۔ میں نے ایک مجلس میں ان کے سامنے قصداً یہ ذکر چھیڑ دیا اور انہوں نے بابا گورونانک کی زندگی اور ہمارے صوفیاءکرام بالخصوص حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے ساتھ ان کے تعلق کی پوری تاریخ بیان کر دی اور کسی لائبریری کا رخ کیے بغیر میرا مقصد پورا ہو گیا۔

کتاب کے ساتھ انہیں عشق تھا اور نادر و نایاب کتب کے بارے میں نہ صرف یہ کہ ان سے معلومات مل جایا کرتی تھیں بلکہ بہت سی نایاب کتابوں کی ان کے ہاں زیارت بھی نصیب ہو جاتی تھی۔ ایک بار جب وہ لندن میں واقع انڈیا آفس لائبریری میں تشریف لے گئے تو میں اور ورلڈ اسلامک فورم کے چیئر مین مولانا محمد عیسیٰ منصوری بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس لائبریری میں برصغیر کے کتاب اور ریکارڈ سے تعلق رکھنے والے وہ نوادرات محفوظ ہیں جنہیں برصغیر پر استعماری تسلط کے بعد برطانوی حکمران وہاں (لندن) لے گئے تھے۔ ان میں وہ ”مصحف عثمانی“ بھی ہے جو حضرت عثمان بن عفانؓ کا تحریر کردہ قرآن کریم ہے اور بہت سے مغل بادشاہوں کے پاس رہا ہے ، مجھے بھی اس کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ میں اس سے قبل بھی انڈیا آفس لائبریری جا چکا تھا لیکن جو لطف حضرت شاہ صاحبؒ کی معیت میں اس لائبریری کو دیکھنے میں ملا اس کی تازگی کئی برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک دل و دماغ میں موجود ہے۔

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان میں کم و بیش پچیس برس تک مجھے ایک متحرک کردار کی حیثیت حاصل رہی ہے، اس دوران بہت سی تحریکات میں کام کرنے کا موقع ملا، ان تحریکات میں بزرگوں سے رابطہ اور ان سے راہ نمائی اور تعاون حاصل کرنا بھی میرے فرائض کا حصہ رہا ہے۔ وہ تحریک قومی مسائل کے حوالے سے ہو، کسی دینی معاملہ میں ہو یا مسلکی تحفظات کا کوئی مسئلہ درپیش ہو، حضرت شاہ صاحبؒ نے کبھی کسی تحریک کی سرپرستی سے گریز نہیں کیا اور وہ ان بزرگوں میں سے تھے جن کے پاس ہم پورے اعتماد کے ساتھ حاضر ہوتے تھے کہ تائید و حمایت بھی ملے گی، حوصلہ افزائی اور شفقت سے بھی بہرہ ور ہوں گے اور تعاون و سرپرستی سے بھی محروم نہیں رہیں گے۔

تحریک ختم نبوت کا تو وہ باقاعدہ حصہ تھے اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر تھے۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے بعد حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم اور حضرت سید نفیس شاہ صاحبؒ ہی دو ایسے بزرگ تھے جن کی سرپرستی اور دعاؤں کے سہارے یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ یہ دونوں بزرگ خطاب نہیں فرماتے تھے اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے جلسوں میں گھنٹوں خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہتے تھے۔ بعض دوستوں کو احراری خطیبوں کی جماعت کی اس ”خاموش قیادت“ پر تعجب بھی ہوتا تھا لیکن اس ”خاموشی“ کے پیچھے توجہات اور دعاؤں کا جو طویل سلسلہ ہوتا تھا وہی اہل نظر کے نزدیک اس تحریک کی اصل قوت تھی۔ حضرت شاہ صاحبؒ رخصت ہو گئے ہیں اور حضرت خواجہ صاحب دامت برکاتہم بھی چراغ سحری ہیں۔

حضرت سید نفیس شاہ صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کا ایک خصوصی ذوق جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و نعت بھی تھا۔ ان کا نعتیہ کلام نہ صرف عوامی جلسوں میں مختلف با ذوق نعت خوانوں کی زبان پر عام مسلمانوں میں محبت رسولؐ کے ذوق کی مسلسل آبیاری کا ذریعہ بن رہا ہے بلکہ اصحابِ فن اور اصحاب ذوق کے لیے بھی تسکین قلم و نظر کا سرمایہ ہے۔مجھے گزشتہ روز برادرم مولانا عبد الحق خان بشیر سلمہ امیر پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے ہمراہ خانقاہ سید احمد شہید میں احباب سے تعزیت اور حضرت شاہ صاحبؒ کی قبر پر حاضری کا موقع ملا تو وہاں ایک دوست نے حضرت شاہ صاحبؒ کی تحریر کردہ ایک نعت کی فوٹو کاپی دی جو انہوں نے طالب علمی کے دور میں جبکہ وہ گورنمنٹ کالج لائل پور (فیصل آباد) میں فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے، سید انور زیدی کے نام سے تحریری کی اور کالج کے جریدہ ”روشنی“ نے اگست ۱۹۷۴ءکے شمارے میں شائع کی۔یہ نعت ۱۹۴۹ء کے دوران لکھی گئی جبکہ اس وقت حضرت شاہ صاحبؒ کی عمر غالباً سولہ سترہ برس تھی۔یہ نعت ملاحظہ فرمائیے اور دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ حضرت شاہ صاحبؒ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور جملہ لواحقین و متوسلین کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

سلام اے شمعِ روشن، چشم عبد اللہ کی بینائی
زمانہ تجھ پہ قربان ہے، فرشتے تیرے شیدائی
ترانہ جھوم کے حوروں نے تیری حمد کا گایا
تری سیرت ہے لاثانی، ہے تیری شان یکتائی
تری آمد سے رونق آگئی گلزار ہستی میں
عنا دل چہچہا اٹھے، بہار آئی، بہار آئی
تھما ابرِ تشدد اور میرِ ضوفشاں نکلا
درخشاں ہو گیا عالم، اذانوں کی صدا آئی
ہوئے نخوت کے جھنڈے سرنگوں، غیرت بھی شرمائی
ہوئے باطل ترے دم سے خیالاتِ من ولائی
ہوئے بیدار غافل اور پھاڑا کفر کا دامن
بتوں کو توڑ ڈالا، شادمانی ہر طرف چھائی
ترے در سے کوئی سائل تہی دامن نہیں لوٹا
ترے رحمت کے آنچل کی ہے لامحدود پہنائی
سلام اس پر جو انور کی امیدوں کا سہارا ہے
سلام اس پر دل مسلم کے غم کا جو مداوا ہے
(سید انور زیدی)
   
2016ء سے
Flag Counter