انسانی حقوق سیکرٹریٹ اور علمی اداروں کی ذمہ داری

   
تاریخ : 
ستمبر ۲۰۱۵ء

روزنامہ انصاف لاہور میں ۱۸ اگست ۲۰۱۵ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق:

’’وزیر اعظم نواز شریف نے انسانی حقوق سیکرٹریٹ بنانے کی منظوری دے دی ہے جو انسانی حقوق سے متعلق عالمی معاہدوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا، وزارت قانون نے نظام انصاف کو مؤثر بنانے اور انسانی حقوق کے حوالہ سے اصلاحات پر مبنی سمری وزیر اعظم کو بھجوائی تھی جس کی روشنی میں وزیر اعظم نے انسانی حقوق سیکرٹریٹ بنانے کی منظوری دے دی ہے۔‘‘

انسانی حقوق کے مغربی تصور اور اس کے حوالہ سے بین الاقوامی معاہدات کے بارے میں ہم ایک عرصہ سے مسلسل لکھتے آرہے ہیں۔ جس کا مقصد دینی و علمی اداروں کو اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی منشور اور اس سے متعلقہ بین الاقوامی معاہدات جس طرح انسانی معاشرے میں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ، اور موجودہ عالمی نظام کے دباؤ کے باعث مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب و ادیان پر اثر انداز ہو رہے ہیں، اسے نظر انداز کرتے چلے جانا اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد میں نہیں ہے اور اہل علم و دانش کو اس سلسلہ میں اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔

۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کیا جانے والا ’’انسانی حقوق کا چارٹر‘‘ اس وقت دنیا بھر میں عالمی سطح پر عملاً مشترکہ دستور و قانون کا درجہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اور اس کے حوالہ سے اب تک ہونے والے دو درجن سے زائد بین الاقوامی معاہدات عالمی نظام و قوانین کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے مطابق دنیا بھر میں اقوام و ممالک کے باہمی معاملات طے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے بارے میں پالیسیاں تشکیل پاتی ہیں۔ اور اس کا عملی نتیجہ یہ ہے کہ طاقت و قوت کے حامل ملک بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک ان معاہدات اور قوانین کو جس طرح چاہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لیتے ہیں مگر غریب و محکوم ممالک و اقوام بے بسی کے ساتھ ان معاہدات کے یکطرفہ اطلاق کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، جبکہ ان کا سب سے بڑا ہدف مسلم معاشرے اور اسلام کے معاشرتی احکام و قوانین ہیں جنہیں بڑی آسانی کے ساتھ انسانی حقوق کے منافی قرار دے کر ہر سطح پر مسترد کیا جا رہا ہے حتیٰ کہ خود مسلم ممالک اور معاشروں میں بھی وہ اجنبی ہوتے جا رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے چارٹر اور معاہدات کی رو سے کون سے اسلامی احکام و قوانین کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جا رہا ہے اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرما لیجئے:

  • عورت اور مرد کی مساوات کے نام پر وہ تمام شرعی احکام و قوانین امتیازی قوانین قرار پائے ہیں جن میں عورتوں اور مردوں کے احکام و مسائل میں فرق کیا جاتا ہے۔ اور پورے دباؤ کے ساتھ مسلم حکومتوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایسے تمام قوانین ختم کر کے دستور و قانون اور معاشرتی زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں اور عورتوں کے درمیان مکمل مساوات کا اہتمام کریں۔ مثلاً (۱) مرد اور عورت دونوں کا طلاق کا حق مساوی طور پر تسلیم کریں، (۲) وراثت میں دونوں کا حصہ برابر کریں، (۳) مرد کا گھر کے سربراہ ہونے کا درجہ ختم کر کے دونوں کو برابر کے پارٹنر تسلیم کریں، (۴) مرد اور عورت میں امتیاز کرنے والی ہر روایت کو قانوناً ختم کریں، (۵) مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی ہم جنس پرستی کا قانونی حق دیں اور ان کی اس قسم کی باہمی شادیوں کو قانونی تحفظ فراہم کریں، وغیرہ وغیرہ۔
  • عدالتی نظام میں ہر وہ سزا ختم کر دی جائے جس میں مجرم پر جسمانی تشدد ہوتا ہے، یا وہ سزا اس کے لیے تذلیل اور ذہنی اذیت کا باعث بنتی ہے۔ قتل، کسی جسمانی عضو کا کاٹنا، سر عام سزا دینا، کوڑے مارنا اور رجم کرنا، اس قسم کی سزائیں سمجھی جاتی ہیں اور اسی وجہ سے انہیں غیر انسانی سزائیں کہا جاتا ہے، چنانچہ پاکستان میں اسی بنیاد پر حدود آرڈیننس کا اسمبلی کے ذریعے تیاپانچہ کر دیا گیا ہے۔
  • سیاسی طور پر عورتوں کو ہر سطح پر اور ہر ادارے میں مساوی نمائندگی دی جائے اور قومی زندگی کا کوئی منصب یا شعبہ ان کے لیے ممنوع نہ رکھا جائے، اسی طرح غیر مسلموں کے لیے بھی برابر کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔
  • معاشرتی زندگی اور قومی نظام میں مذہب کے عمل دخل کو کم سے کم کیا جائے اور ریاست و حکومت کا مذہب اور مذہبی اقدار و روایات کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہ رہنے دیا جائے۔
  • آزادئ رائے کو اس درجہ میں قانونی تحفظ فراہم کیا جائے کہ اس میں مذہب اور مذہبی شخصیات کی اہانت حتیٰ کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین و تمسخر کو بھی جرم و سزا کے دائرے سے خارج کر دیا جائے، نعوذ باللہ من ذٰلک۔
  • آزادئ مذہب کو ہر سطح پر یقینی بنایا جائے اور تبدیلیٔ مذہب کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تمام غیر مسلم اقلیتوں اور شہریوں کو ہر حوالہ سے مسلمان اکثریت کے برابر حقوق کی ضمانت دی جائے، حتیٰ کہ صدر اور وزیر اعظم سمیت کوئی منصب بھی ان کی دسترس سے باہر نہ رہے اور مذہبی فرق و امتیاز کے تمام قوانین ختم کر دیے جائیں۔
  • پاکستان کے حوالہ سے بالخصوص یہ مطالبہ ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا دستوری و قانونی فیصلہ واپس لیا جائے اور قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرتے ہوئے انہیں وہی حقوق دیے جائیں جو یہاں کے مسلمان باشندوں کو حاصل ہیں۔
  • قتل کی سزا کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے اور کسی جرم میں بھی کسی مجرم کو قتل کی سزا نہ دی جائے، وغیرہ ذٰلک۔

یہ ان تقاضوں کی ایک سرسری فہرست ہے جو اقوام متحدہ کے مختلف فورموں کی طرف سے باقاعدہ طور پر سامنے آتے رہتے ہیں اور کم و بیش تمام مسلم ممالک اس حوالہ سے اقوام متحدہ، عالمی اداروں، مغربی حکومتوں اور میڈیا کے مسلسل دباؤ کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ہماری حکومتوں نے اب تک اس سلسلہ میں اس طرز کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے کہ کسی معاہدہ کی کسی شق سے اختلاف نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی عالم اسلام کی طرف سے انسانی حقوق کے چارٹر اور اس قسم کے بین الاقوامی معاہدات پر نظر ثانی کا کوئی تقاضہ سامنے آیا ہے۔ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے، جب وہ مسلم ممالک کی سربراہی تنظیم او آئی سی کے چیئرمین تھے، اس قسم کا مطالبہ کیا تھا مگر خود عالم اسلام کی طرف سے اس مطالبہ کو مطلوبہ تائید حاصل نہیں ہوئی تھی۔

اس سلسلہ میں ایک مثال سے ہماری حکومتوں کے طرز عمل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قتل کی سزا کو ختم کرنے کے مطالبہ پر پاکستان میں قتل کے قانون کو ختم کرنے کی بجائے اس پر عملدرآمد کو روک دیا گیا تھا جو ابھی تک تعطل کا شکار ہے، اور دہشت گردی کے جرم میں حالیہ دور میں موت کی سزا پانے والے چند افراد کے علاوہ جیلوں کی کال کوٹھڑیوں میں موت کی سزا کا فیصلہ عدالتی طور پر صادر ہو جانے کے باوجود ہزاروں قیدی مسلسل انتظار میں ہیں۔ اسی طرح ہمارے حکمرانوں نے عورت کو طلاق دینے کے مطالبہ پر نکاح کے فارم میں تفویض طلاق کا خانہ شامل کر کے مغرب کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی مگر مغرب اس سے مطمئن نہیں ہے اور اس کے سخت دباؤ کے باعث اب ’’خلع‘‘ کو عورت کا ’’مساوی حق طلاق‘‘ قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے۔

اس پس منظر میں حکومت پاکستان کا انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے ’’انسانی حقوق سیکرٹریٹ‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ یقیناً لمحۂ فکریہ ہے جس پر کم از کم ملک کے علمی اور دینی اداروں کو ضرور توجہ دینی چاہیے۔ ہماری ایک عرصہ سے تجویز ہے کہ دینی مدارس میں انسانی حقوق کی اسلامی تعلیمات اور انسانی حقوق کے مغربی تصورات نیز اس حوالہ سے بین الاقوامی معاہدات اور ان کے معاشرتی اثرات سے علماء کرام کو آگاہ کرنے کے لیے نصاب تعلیم میں انسانی حقوق کے مضمون کا اضافہ ضروری ہے۔ جبکہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کے طلبہ کے لیے ہم نے کئی سالوں سے اس کا جزوی طور پر اہتمام بحمد اللہ تعالیٰ کر رکھا ہے مگر کیا ہمارے بڑے دینی ادارے اور علمی شخصیات بھی اس کی ضرورت و اہمیت کا کسی درجہ میں کوئی احساس رکھتی ہیں؟

   
2016ء سے
Flag Counter