لوڈشیڈنگ کے عذاب سے تنگ عوام بار بار سڑکوں پر آکر اپنے غصے اور جذبات کا اظہار کر رہے ہیں مگر منصوبہ سازوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کو پتھر کے دور میں واپس لے جانے کی جو دھمکی دی گئی تھی، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کے ہاتھوں اس پر عمل کرایا جا رہا ہے۔ لوڈشیڈنگ تو غریب عوام کے لیے اس شدید گرمی اور تپش میں عذاب بنی ہوئی ہے لیکن اس کے ردعمل میں جگہ جگہ ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے بھی مستقل پریشانی کی صورت اختیار کر لی ہے اور قومی املاک کے نقصان کے علاوہ سڑکوں کے بلاک ہوجانے پر رکی ہوئی ٹریفک سے پیدا ہونے والے مسائل نے اضطراب اور بے چینی کا ایک اور ماحول پیدا کر دیا ہے۔
لیکن اس سلسلہ میں اپنے تاثرات و مشاہدات کا ذکر کرنے سے پہلے ایک چھوٹی سی خوشی کی خبر قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں شرکت کے لیے فیصل آباد جاتے ہوئے کھرڑیانوالہ میں ایک دوست کے ہاں چائے کے لیے رکا تو یہ سن کر خوش کن حیرت ہوئی کہ اس قصبہ میں لوڈشیڈنگ بالکل نہیں ہوتی اور وہاں ایک محدود سے علاقے کے لوگ لوڈشیڈنگ کی ’’لذت‘‘ تک سے ناآشنا ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ کھرڑیانوالا اور گردونواح کے کچھ دیہات میں بجلی اردگرد کی بڑی فیکٹریاں فراہم کرتی ہیں اور ان کا بجلی کا اپنا نظام ہے جن میں بطور خاص ستارہ فیکٹری کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ معلوم کر کے دہری خوشی ہوئی، ایک تو اس لیے کہ ہمارے ملک میں کوئی خطہ تو ایسا ہے جہاں کے باشندے لوڈشیڈنگ کے عذاب سے محفوظ ہیں اور دوسری اس بات پر کہ پاکستان میں ایسے صنعتکار بھی پائے جاتے ہیں جو اپنے مزدوروں اور ان کے ساتھ پڑوسیوں کو بھی ضروری سہولتیں فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کچھ غریب عوام کے لیے آسانیاں مہیا کر رہے ہیں۔ خدا کرے کہ ملک کے باقی علاقوں کے صنعتکار بھی ان کی پیروی کریں اور اپنے اردگرد کے جن عوام کو وہ زندگی کی جو سہولت بھی فراہم کر سکتے ہوں اس کے لیے عملی پیش رفت کریں۔
مجھے ۱۶ جون کو پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھوربن مری جانا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک لطیفہ تو یہ ہوا کہ دورانِ سفر کراچی سے ایک دوست کا فون آیا کہ مبارک ہو پاکستان شریعت کونسل اتنی ترقی یافتہ ہوگئی ہے کہ بھوربن کے پی سی ہوٹل میں سالانہ اجلاس منعقد کر رہی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مبارکباد کا شکریہ مگر ہم اپنا اجلاس پی سی ہوٹل میں نہیں بلکہ اس کے سامنے واقع مدرسہ تعلیم القرآن میں کر رہے ہیں جہاں بہت سی دینی جماعتوں کے اجتماعات موسم گرما میں منعقد ہوتے ہیں۔ اس موقع پر مجھے محترم عطاء الحق قاسمی کا ایک کالم یاد آگیا اور میں نے بہت سے دوستوں کو اس دوست کی مبارکباد کے حوالے سے اس کالم کا اقتباس سنایا جس میں قاسمی صاحب نے ’’سفید پوشی‘‘ کی تعریف اس طرح کی ہے کہ ماسی برکتے کے تندور سے روٹی کھا کر پی سی کے سامنے ٹہلتے ہوئے دانتوں میں خلال کرنے والے کو سفید پوش کہا جاتا ہے۔ ہم بھی وہی سفید پوش ہیں، سال میں ایک آدھ بار اجلاس کے بہانے وہاں جمع ہوتے ہیں، اس مدرسہ کی مسجد میں ہمارا اجلاس ہوتا ہے اور اس کے قریب کسی عوامی ہوٹل میں دو تین کمرے کرائے پر لے کر ایک دو روز وہاں گزار لیتے ہیں۔
مدرسہ تعلیم القرآن بھوربن مری کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد ۱۹۵۰ء میں جالندھر سے ایک بزرگ ہجرت کر کے اس خطہ میں آکر آباد ہوئے جنہیں حافظ غلام محمد جالندھریؒ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مدنی مسجد اور مدنی مدرسہ تعلیم القرآن کی بنیاد رکھی اور قرآن کریم حفظ و ناظرہ کی کلاس کا آغاز کر دیا۔ برصغیر کے معروف روحانی پیشوا حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ حضرت حافظ غلام محمد جالندھریؒ نے اس مسجد و مدرسہ کو پورے علاقہ میں قرآن کریم کی تعلیم اور دینی حمیت و غیرت و فروغ کا ایسا مرکز بنایا کہ مری اور اردگرد کے علاقے کا شاید ہی کوئی گاؤں ایسا ہو جہاں حافظ صاحب مرحوم کا کوئی نہ کوئی شاگرد کسی نہ کسی انداز میں دینی خدمات سرانجام نہ دے رہا ہو۔ یہ مسجد دینی تحریکوں کا مرکز بھی چلی آرہی ہے اور ملک کے بڑے بڑے علمائے کرام وقتاً فوقتاً یہاں تشریف لا چکے ہیں۔ حافظ صاحب مرحوم تو کچھ عرصہ بعد ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے جہاں وہ سالہا سال تک مسجد نبویؐ کے صف اول کے نمازی رہے ہیں اور اب وہیں جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ بھوربن میں ان کی مسند ان کے فرزند مولانا قاری محمد طیب نے سنبھالی، ان کا بھی گزشتہ سال انتقال ہوگیا ہے اور اب تیسری نسل دین کی دعوت و تعلیم کے کام کو سنبھالے ہوئے ہے، اللہ تعالیٰ ترقیات و قبولیت سے نوازیں، آمین۔
میں صبح آٹھ بجے گوجرانوالہ کے جنرل بس اسٹینڈ سے راولپنڈی کے سواں کیمپ اڈے جانے والی ویگن پر سوار ہوا، خیال تھا کہ ظہر تک مری پہنچ جاؤں گا لیکن گجرات کا بائی پاس عبور کیا تو جلیانی کے قریب روڈ بلاک تھا اور گاڑیوں کی لمبی قطاروں کے آگے سڑک پر اٹھتے ہوئے دھوئیں سے اندازہ ہوگیا کہ بپھرے ہوئے نوجوانوں کا کوئی ہجوم اپنے غصے کا اظہار کر رہا ہے۔ ہمارے ساتھ ویگن میں سوار ایک صاحب نے کہا کہ اس شدید گرمی میں گھر میں پنکھا بھی نہ چل رہا ہو تو لوگ سڑکوں پر ہی آئیں گے اور جب وہ گبھرا کر سڑکوں کا رخ کریں گے تو یہی کچھ کریں گے جو وہ کر رہے ہیں۔ سڑک پر دونوں طرف گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں اور اوپر سے تیز دھوپ نے لوگوں کو بے حال کر دیا۔ کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ تک تو میں نے انتظار کیا لیکن جب ٹریفک کھلنے کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو لالہ موسیٰ کے قریب گلیانہ قصبہ میں رہنے والے اپنے ایک شاگرد مولانا حافظ محمد عمر عثمانی کو فون کیا جو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فضلا میں سے ہیں جبکہ گلیانہ میرا سسرالی گاؤں بھی ہے۔ حافظ محمد عمر عثمانی صورتحال معلوم کر کے موٹرسائیکل پر وہاں آگئے، انہیں آتے ہوئے آدھ گھنٹہ لگ گیا۔ چنانچہ دو گھنٹے کے لگ بھگ جی ٹی روڈ پر کھڑے رہنے کے بعد ان کے ساتھ وہاں سے نکلا۔ ہم آگے گئے تو کلیوال کے پاس دو اور مقامات پر ٹائر جلا کر راستہ روکا گیا تھا اور ایک جگہ موٹر سائیکل والوں کو بھی روکا جا رہا تھا۔ ہمیں وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھ کر ایک پرجوش نوجوان لمبی ڈانگ لہراتے ہوئے ہماری طرف بڑھا مگر قریب آکر شاید سفید ڈاڑھی دیکھ کر اس نے ہاتھ روک لیا او رہم وہاں سے بعافیت نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ حافظ محمد عمر عثمانی مجھے کھاریاں تک موٹر سائیکل پر لے گئے جہاں سے راولپنڈی جانے والی ویگن پر سوار ہو کر میں اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔ اور جب عصر کے لگ بھگ اجلاس کے مقام تک پہنچا تو میرا برا حال تھا اور دیکھنے والے بھی میری حالت پر ترس کھا رہے تھے۔
واپسی کا سفر اس سے زیادہ دلچسپ ثابت ہوا۔ اگلے روز ۱۷ جون کو اجلاس سے فارغ ہو کر مولانا قاری جمیل الرحمان اختر کے ہمراہ ان کی گاڑی پر ایبٹ آباد روانہ ہوا۔ جب ہم مری سے نتھیا گلی کے راستے ایبٹ آباد پہنچے تو وہاں بھی مین روڈ لوڈشیڈنگ کے خلاف ہنگامہ کی وجہ سے بلاک تھی اور وہاں سے شہر کی طرف جانے والی گاڑیاں واپس ہو رہی تھیں۔ چنانچہ ہم نے بھی گاڑی کا رخ موڑا اور متبادل راستہ اختیار کر کے میر عالم ٹاؤن پہنچے جہاں ہمیں مولانا قاضی ارشد الحسینی کے مدرسے میں قیام کرنا تھا۔ ۱۹ جون کو مجھے واپس گوجرانوالہ آنا تھا، ڈائیوو پر ایبٹ آباد سے راولپنڈی پہنچا اور وہاں سے تین بجے گوجرانوالہ کے لیے روانہ ہونے والی ڈائیوو کوچ پر سیٹ بک کرا کے مولانا رمضان علوی کے ہمراہ کچھ دوستوں سے ملنے چلا گیا۔ پونے تین بجے ڈائیوو کے ٹرمینل پر واپس آئے تو وہاں کوئی ایک گاڑی بھی موجود نہیں تھی۔ پتہ چلا کہ موٹر وے انٹرچینج کے قریب لوڈشیڈنگ کے خلاف ہنگامے کی وجہ سے ٹریفک بلاک ہے اور کوئی گاڑی ٹرمینل تک نہیں پہنچ پا رہی۔
اتفاقاً ڈائیوو ٹرمینل پر مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ کے بیٹے مولانا محمد عثمان شیخوپوری سے ملاقات ہوگئی جو وہاں سفر کے سلسلہ میں آئے ہوئے تھے اور میری طرح غیر معینہ مدت کے انتظار میں تھے۔ مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ ہمارے بہت اچھے ساتھیوں میں سے تھے جنہیں گزشتہ دنوں کراچی میں شہید کر دیا گیا ہے۔ وہ سانگلہ ہل کے علاقہ کے رہنے والے تھے اور دونوں ٹانگوں سے معذور تھے۔ انہوں نے مختلف دینی مدارس میں تعلیم حاصل کی اور جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد کراچی کو اپنی تعلیمی اور دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ جامعہ بنوریہ اور جامعۃ الرشید میں کچھ عرصہ تک تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان کا ذوق قرآن کریم کے درس کا تھا اور انہوں نے گلشن معمار میں مسجد توابین تعمیر کر کے اسے دعوتِ قرآن کے حوالے سے اپنی سرگرمیوں کا مستقل مرکز بنا لیا۔ انہوں نے انٹرنیٹ پر درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا اور پوری دنیا میں اپنا ایک بڑا حلقہ بنا لیا۔ وہ مثبت انداز اور دھیمے لہجے میں قرآن کریم کے مضامین بیان کرتے تھے اور معاشرے میں دینی اقدار و روایات کے فروغ کی بات کرتے تھے۔ گروہی اور مسلکی تنازعات سے کوسوں دور رہتے تھے اور نوجوانوں کو دین کی بنیادی باتوں کی طرف لانے کے مشن پر گامزن تھے۔ مولانا شیخوپوری شہیدؒ دونوں ٹانگوں سے معذور ہونے کے باوجود نہ صرف ملک بھر کے دینی اجتماعات میں شریک ہوتے تھے بلکہ اپنا کاروبار بھی کرتے تھے جو بین الاقوامی سطح کا کاروبار تھا۔ وہ شہد کا بیوپار کرتے تھے اور مختلف ممالک میں ان کی مصنوعات پورے اعتماد کے ساتھ فروخت ہوتی ہیں۔ ان کے بیٹے عثمان شیخوپوری نے بتایا کہ وہ کراچی چیمبر آف کامرس کے باقاعدہ ممبر تھے اور ان کی فرم رجسٹرڈ کمپنی کے طور پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے اپنے لیے مخصوص گاڑی بنوا رکھی تھی جسے وہ خود ڈرائیو کرتے تھے۔ میں نے بھی ایک موقع پر ان کے ساتھ اس گاڑی میں مختصر سفر کیا ہے اور انہوں نے مجھے خود بتایا کہ وہ اس گاڑی پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے کراچی سے مری تک کا سفر کر چکے ہیں۔ مجھے ان کی ہمت پر رشک آتا تھا اور دعوت دین کے حوالے سے ان کا سادہ اور مثبت انداز مجھے بہت پسند تھا۔ مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ کی شہادت کو کئی ہفتے گزر گئے ہیں مگر سچی بات ہے کہ میں ابھی تک نہیں سمجھ پایا کہ انہیں آخر کس لیے ٹارگٹ کلنگ کا نشانا بنایا گیا؟ وہ تو کسی کے خلاف کچھ نہیں کہتے تھے اور مثبت لہجے میں دینی تعلیمات کے فروغ کے لیے کوشاں تھے۔ ایک ماہ قبل میں کراچی میں تعزیت کے لیے ان کے گھر حاضری دے چکا ہوں، اب راولپنڈی کے ڈائیوو ٹرمینل میں ان کے بیٹے مولانا محمد عثمان شیخوپوری سے دوبارہ اچانک ملاقات ہوگئی اور کیس کے ساتھ ساتھ گھر کے حال احوال کے بارے میں بھی ان سے بات چیت ہوئی۔
تھوڑی دیر بعد گاڑیوں کی آمد و رفت کے ساتھ ٹرمینل کی رونق بحال ہوئی تو کچھ وقفہ کے بعد سیالکوٹ جانے والی کوچ بھی آگئی جس پر میں نے گوجرانوالہ کے لیے سفر کرنا تھا۔ چنانچہ اپنے مقررہ وقت سے دو گھنٹے لیٹ پانچ بجے کے لگ بھگ یہ کوچ سیالکوٹ کے لیے روانہ ہوئی مگر ٹرمینل سے نکلتے ہی چند منٹ کے بعد وہ جی ٹی روڈ کی دوسری جانب ڈائیوو کی ورکشاپ میں گھس گئی جہاں ایک مکینک نے اس کا ٹی وی چیک کیا اور کوچ کو غسل بھی دیا گیا۔ ڈائیوو ہمارے آج کے دور میں ایک آرام دہ ذریعۂ سفر ہے اس لیے جہاں موقع ملتا ہے میں اسے ترجیح دیتا ہوں۔ مگر ۱۵ جون کے اس سفر کے دوران چند باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں جن کا ذکر کر رہا ہوں، شاید ڈائیوو سروس کا کوئی ذمہ دار میری اس الجھن کو دور کر سکے اور مسافروں کا کچھ فائدہ ہو جائے۔
- میں نے سوا ایک بجے کے لگ بھگ ٹرمینل سے خود ٹکٹ خریدا، کاؤنٹر پر مجھے بتایا گیا کہ آخری صف کی اونچی سیٹوں میں ایک سیٹ خالی ہے، میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ خیر ہے ہم ویسے بھی اسٹیج کے لوگ ہیں، وہیں جگہ مل جائے۔ چنانچہ مجھے ۴۱ نمبر سیٹ دی گئی، لیکن جب کوچ ٹرمینل سے سیالکوٹ روانہ ہونے کے لیے تیار ہوئی تو آگے کی سیٹوں میں کم از کم ایک تہائی سیٹیں خالی تھیں۔
- میں نے دیکھا کہ ورکشاپ میں کم و بیش چودہ پندرہ گاڑیاں کھڑی تھیں جس سے مجھے احساس ہوا کہ آخر یہ سب تو ناقابل استعمال نہیں ہوں گی، اگر سیالکوٹ سے کوچ بروقت نہیں آئی تھی تو ان میں سے کوئی گاڑی وقت پر بھجوائی جا سکتی تھی۔ یہاں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ شاید قواعد و ضوابط کے خلاف ہوتا مگر پھر یہ سوال ہوگا کہ کیا قواعد و ضوابط مرتب کرتے وقت مسافروں کی سہولت کا خیال نہیں رکھا جا سکتا؟ ڈائیوو پبلک ٹرانسپورٹ ہمارے ملک کی مہنگی ترین سواری ہے جسے ذریعۂ سفر بنانے والوں کے ذہن میں سہولت اور آرام کے ساتھ وقت کی بچت اور پابندی بھی ہوتی ہے۔ اگر ایک گاڑی وقت پر نہیں آئی تو اس سے دوسری گاڑی کا وقت متاثر نہیں ہونا چاہیے اور ایسا کوئی متبادل بندوبست ضرور موجود رہنا چاہیے کہ گاڑی کو وقت مقررہ پر روانہ کیا جا سکے۔
- تیسری بات جو ابھی تک میرے ذہن کے دروازے پر دستک دے رہی ہے کہ ٹرمینل سے منزل کی طرف روانہ ہوجانے کے بعد بس کی چیکنگ اور دھلائی کے لیے ورکشاپ کا رخ کرنے کی کیا تک ہے؟ اور جو کوچ پہلے ہی دو گھنٹے لیٹ ہے اسے مزید پندرہ بیس منٹ لیٹ کرنے کا کیا جواز ہے؟ آخری پیر ودھائی کی بس سروس اور ڈائیوو ٹرمینل کی بس سروس میں کوئی فرق تو باقی رہنا چاہیے۔ یہ کوچ ٹرمینل سے روانہ ہونے سے قبل کم و بیش نصف گھنٹہ وہاں کھڑی رہی ہے، چیکنگ وغیرہ کے کام وہاں ہونے چاہیے تھے۔
سفر کے احوال تو کچھ نہ کچھ عرض کر دیے ہیں مگر مقصدِ سفر یعنی پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بارے میں کچھ نہیں لکھ سکا، یہ آئندہ کسی نشست میں سہی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔