کراہت کے مختلف دائرے

   
جامعہ اسلامیہ محمدیہ، فیصل آباد
۲۵ اگست ۲۰۲۱ء

(بعد نماز عصر ہفتہ وار درس)

بعد الحمد والصلوٰۃ! آج آپ دوستوں کے سامنے کراہیت اور مکروہ کی اصطلاح کے حوالہ سے چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

ہمارے ہاں حلال و حرام کے ساتھ ایک دائرہ مکروہ کا بھی بیان ہوتا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں جائز و ناجائز اور مکروہ کے بارے میں مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔ کراہیت کا لفظ لغت میں ناپسندیدگی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور جو بات یا چیز کسی حوالہ سے ناپسندیدہ ہو اسے مکروہ کہا جاتا ہے۔ اس کراہت کے مختلف دائرے ہیں:

  1. کراہت شرعیہ: وہ چیز جو شرعاً مکروہ ہو، اسے فقہاء کرام اور مفتیان عظام بیان کرتے ہیں۔
  2. کراہت طبیہ: جس کے بارے میں ڈاکٹر اور حکیم صاحبان بتاتے ہیں کہ فلاں بیماری کی وجہ سے فلاں چیز کا استعمال نا پسندیدہ ہے، اسے پرہیز کہا جاتا ہے جو جائز اور حلال چیزوں سے بھی ضروری ہو جاتی ہے۔
  3. کراہت طبعیہ: جس کا تعلق انسان کے مزاج سے ہوتا ہے اور کسی شخص کو کوئی چیز اپنے طبع و مزاج کے لحاظ سے پسند نہیں ہوتی۔
  4. کراہت عرفیہ: کسی چیز میں کوئی نقصان نہیں ہوتا مگر ایک علاقہ میں اس کا استعمال عام نہ ہو تو اسے بسا اوقات مکروہ سمجھا جاتا ہے۔

شریعتِ اسلامیہ میں ان چاروں پہلوؤں کا تذکرہ اور حوالہ موجود ہے جسے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے:

(۱) کراہتِ شرعیہ کے تو سینکڑوں حوالے قرآن و سنت اور فقہ اسلامی میں مذکور ہیں جن کا ہم عام طور پر تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔

(۲) کراہتِ طبیہ یہ ہے کہ کسی بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر یا حکیم کوئی چیز استعمال کرنے سے منع کر دیں جبکہ بذات خود وہ چیز نقصان دہ نہ ہو۔ مثلاً حلوہ یا کوئی میٹھی چیز بظاہر عام طور پر پسندیدہ ہوتا ہے مگر شوگر کے مریض کو اس سے روک دیا جاتا ہے کہ اس سے بیماری میں اضافے کا خطرہ ہوتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک بار کچھ دن بیمار رہنے کے بعد صحتیاب ہوئے تو ایک مجلس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھجوریں کھانے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوریں ان کے ہاتھ سے لے لیں اور فرمایا کہ تم بیمار رہے ہو ابھی نہ کھاؤ اس سے تمہیں نقصان ہو سکتا ہے۔ چنانچہ علاج کے ساتھ پرہیز کو بھی ضروری سمجھا جاتا ہے اور سنتِ نبیؐ میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔

(۳) کراہتِ طبعیہ کہ ایک چیز حلال ہے اور اس کا بظاہر کوئی نقصان بھی نہیں ہے مگر کسی شخص کو طبعاً وہ پسند نہیں ہے، جیسا کہ ایک حدیث کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں کو پیاز یا لہسن کھا کر مجلس میں آنے سے منع فرما دیا، پوچھا گیا کہ کیا یہ حرام ہے؟ فرمایا حرام نہیں ہے مگر اس کی بو مجھے پسند نہیں ہے اور فرشتوں کو بھی ناگوار محسوس ہوتی ہے جو میری مجلس میں ہر وقت موجود ہوتے ہیں، اس لیے ایسی چیزیں کھا کر فوراً میری مجلس میں نہ آیا کرو۔

یہ طبیعت اور مزاج کی بات ہوتی ہے، بعض مزاج ایسے ہوتے ہیں کہ گٹر کے کنارے پر انہیں چارپائی بچھا دی جائے تو وہ سو جاتے ہیں، جبکہ بعض حضرات میں نفاست اس درجہ میں ہوتی ہے کہ صاف ستھرے کمرے میں مزاج کے خلاف کوئی چیز پڑی ہو تو انہیں رات بھر نیند نہیں آتی۔

(۴) چوتھی کراہیتِ عرفیہ ہے کہ ایک چیز کسی علاقے میں نہیں پائی جاتی تو اس کے استعمال کو عام لوگوں میں پسند نہیں کیا جاتا ہے۔ ایک صحیح روایت میں ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ضب (صحرائی جانور) بھنا ہوا بھیجا گیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ دیکھ رہی تھیں، انہوں نے آواز دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا تو دو کہ یہ کیا چیز تم نے ان کے سامنے رکھی ہے؟ بتایا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سامنے سے ہٹا دیا۔ ساتھیوں نے پوچھا کہ کیا یہ حرام ہے؟ فرمایا کہ میں حرام تو نہیں کہتا مگر چونکہ ہمارے علاقے میں نہیں پایا جاتا اس لیے مجھے پسند نہیں ہے۔ مجلس میں حضرت خالد بن ولیدؓ بھی موجود تھے، انہوں نے یہ سن کر اس بھنے ہوئے جانور کو کھینچ کر اپنے سامنے رکھ لیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر سارا کھا گئے۔ یہ کراہیتِ عرفیہ ہے کہ علاقے میں نہ پائی جانے والی چیز بسا اوقات پسند نہیں کی جاتی۔

میں نے کراہیت کے حوالہ سے چار دائرے بیان کیے ہیں، یہ ہر زمانے میں موجود رہے ہیں، آج بھی پائے جاتے ہیں اور سنت و شریعت میں ان کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان کا درجہ بدرجہ لحاظ رکھنا ضروری ہے اور ان سے ہم سب کو واقف ہونا چاہئے۔

2016ء سے
Flag Counter