جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم

   
۱۹ اگست ۱۹۸۸ء

سترہ اگست کی شام کو ریڈیو پاکستان کی اس المناک خبر نے پوری قوم کو سکتہ کی کیفیت سے دوچار کر دیا کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق بہاولپور کے قریب فضائی حادثہ میں دیگر کئی فوجی افسران کے ہمراہ جاں بحق ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق متعدد اعلیٰ فوجی افسران کے ساتھ بہاولپور ڈویژن میں فوجی مشقیں دیکھنے کے بعد بہاولپور سے بذریعہ طیارہ اسلام آباد واپس جا رہے تھے کہ پرواز کے چند منٹ بعد ان کا طیارہ دھماکہ کے ساتھ پھٹ کر زمین سے جا ٹکرایا اور بدقسمت طیارے کے مسافروں میں سے ایک فرد بھی نہ بچ سکا۔ اس المناک حادثہ میں جاں بحق ہونے والوں میں صدر کے ہمراہ اعلیٰ فوجی حکام کے علاوہ پاکستان میں امریکی سفیر مسٹر آرنلڈ رافیل اور ان کے فوجی اتاشی بھی شامل ہیں۔

صدر جنرل محمد ضیاء الحق ۱۹۷۷ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد برسراقتدار آئے اور انہوں نے نفاذِ اسلام کو اپنی حکومت کا سب سے بڑا مقصد قرار دے کر اس کے لیے وقتاً فوقتاً متعدد اقدامات کیے۔ ان کے اقدامات کی سست روی اور پالیسی ترجیحات سے ملک کے دیگر دینی حلقوں کی طرح ہمیں بھی اختلاف رہا لیکن یہ بات تمام حلقوں میں یکساں مسلم رہی کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور شریف النفس انسان ہیں۔

صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے افغانستان میں روسی جارحیت سے پیدا شدہ صورتحال کا جس استقلال کے ساتھ سامنا کیا اور افغان مجاہدین کی جس طرح سیاسی اور اخلاقی پشت پناہی کی اس نے افغانستان کی آزادی کے لیے جنگ لڑنے والے مجاہدین کو حوصلہ بخشا۔ ان کی سیاسی پالیسیوں اور افکار سے ملک کے بیشتر سیاسی حلقوں کو اختلاف رہا مگر پاکستان کے ساتھ ان کی محبت اور ملکی سالمیت و وحدت کے تحفظ کے لیے ان کی مخلصانہ کوششیں شک و شبہ سے بالاتر ہیں۔

صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے ساتھ ایک درجن سے زائد اعلیٰ ترین فوجی افسروں کا جاں بحق ہونا بھی ایک بہت بڑا قومی المیہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے۔ طیارہ کا حادثہ کیوں پیش آیا؟ اس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اور اس خدشہ کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ بدقسمت طیارہ تخریب کاری کا نشانہ بنا اور کسی سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت یہ ہولناک خونی ڈرامہ کھیلا گیا۔ سینٹ آف پاکستان میں سینئر وفاقی وزیر جناب محمد اسلم خٹک کی اس تقریر نے ان خدشات کو اور زیادہ اجاگر کر دیا ہے کہ کچھ عرصہ سے اس قسم کی سازشوں کی اطلاعات مل رہی تھیں اور انہوں نے صدر مرحوم کو خبردار کر دیا تھا۔ صحیح صورتحال تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گی تاہم اس سلسلہ یمں بہت زیادہ محتاط ہونے اور قومی وحدت و یکجہتی کو برقرار رکھتے ہوئے حادثہ کے حقیقی اسباب کو جلد از جلد بے نقاب کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی المناک موت کے بعد یہ بات قومی اور بین الاقوامی حلقوں کے لیے اطمینان کا باعث بنی ہے کہ آئینی عمل کا تسلسل قائم ہے، سینٹ کے چیئرمین جناب غلام اسحاق خان نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا ہے اور مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتوں کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ۱۶ نومبر کو پروگرام کے مطابق عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اور یہ بات مزید اطمینان کا باعث بنی ہے کہ صدر غلام اسحاق خان کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے شرکت کر کے آئینی عمل کے تسلسل کے ساتھ اپنی موافقت اور ہم آہنگی کا اظہار کیا ہے۔ اور اس طرح وہ تمام خدشات و خطرات سردست ٹل گئے ہیں جو صدر ضیاء کی المناک موت کی خبر سنتے ہی محب وطن اور باشعور شہریوں کے لیے ذہنی پریشانی اور قلبی اضطراب کا باعث بن گئے تھے۔

ہم آئینی عمل کے تسلسل اور عام انتخابات کے پروگرام کے مطابق انعقاد کے اعلان کی حمایت کرتے ہوئے قائم مقام صدر جناب غلام اسحاق خان اور ان کے رفقاء کو یقین دلاتے ہیں کہ قومی وحدت و سالمیت کے تحفظ، آئینی عمل کی بالادستی، اسلامی نظام کے مؤثر نفاذ اور جمہوری عمل کی طرف یقینی پیش رفت کے اقدامات میں انہیں ہماری حمایت اور تعاون حاصل رہے گا۔

ہم دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت صدر محمد ضیاء الحق اور دیگر مرحومین کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں، ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر فرمائیں اور وطن عزیز پاکستان کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھتے ہوئے ایک صحیح اور مکمل اسلامی ریاست کی منزل کی طرف مؤثر پیش رفت کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter