انٹرنیشنل کرائسس گروپ کا پاکستان میں شرعی قوانین ختم کرنے کا مطالبہ

   
جنوری ۲۰۱۲ء

روزنامہ جنگ لاہور میں ۲۰ دسمبر ۲۰۱۱ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیے!

’’اسلام آباد (طاہر خلیل) پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے ایک اور حربہ کے طور پر برسلز میں قائم مغربی ترجمان انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے وفاقی شرعی عدالت کو ختم اور اسلامی نظریاتی کونسل کے اختیارات محدود کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ آئی سی جی نے ’’پاکستان میں اسلامی پارٹیاں‘‘ کے عنوان سے رپورٹ جاری کر دی ہے۔ تازہ رپورٹ میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن)، جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق)، مرکزی جمعیت اہلحدیث، جمعیت علمائے پاکستان، سنی تحریک، اسلامی تحریک پاکستان (کالعدم تحریک نفاذ فقہ جعفریہ)، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (موسوی گروپ)، مجلس وحدت المسلمین سمیت دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے کردار و کارکردگی اور سر گرمیوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹس جاری کی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ۲۵ مذہبی پارٹیاں سرگرم عمل ہیں مگر انتخابات میں انہیں کبھی عوامی پذیرائی نہیں مل سکی تاہم آمرانہ ادوار میں یہ جماعتیں خوب پروان چڑھیں۔ رپورٹ کے مطابق سابق آمرانہ دور میں ۲۰۰۲ء کے دوران دو صوبوں میں ایم ایم اے اقتدار میں ہونے کے باوجود اچھی حکمرانی قائم نہ کر سکی جس کی وجہ سے ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں اسے ۲۰۰۲ء کے شرح تناسب کی طرح پذیرائی نہ مل سکی، تاہم آئی سی جی نے اعتراف کیا کہ جے یو آئی (فضل الرحمن) اور جماعت اسلامی آج بھی عوامی مقبولیت کی حامل مذہبی جماعتیں ہیں اور عمران خان کی تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف مؤثر مہم چلا رکھی ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کو ختم کر دیا جائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی غیر جانبداری کے لیے یقینی اقدامات کیے جائیں، مدارس اصلاحات کا کام تیز کیا جائے اور تمام مدارس کو شفاف طریقے سے رجسٹرڈ کیا جائے، طلبہ یونیئنز پر پابندی ختم کی جائے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کا مطالبہ ہے کہ ناموس رسالت، قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے اور حدود آرڈیننس ختم کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں کے قومی مکالمے کا اہتمام کیا جائے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ آئی سی جی کی رپورٹ کا مقصد پاکستانی معاشرے کو تقسیم کرنا اور دباؤ بڑھانے کا حربہ ہو سکتا ہے۔‘‘

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کا یہ مطالبہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ مغرب کی لابیاں اور ادارے ایک عرصہ سے پاکستان کے اسلامی تشخص اور ملک میں نافذ بعض اسلامی قوانین کو ختم کرانے کے لیے مطالبات کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب تک یہ مطالبات باضابطہ طور پر یورپین پارلیمنٹ، بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن، امریکی حکومت اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے بیسیوں مرتبہ سامنے آچکے ہیں اور اب اس فہرست میں انٹرنیشنل کرائسس گروپ کا نام بھی شامل ہو گیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں میں وطن عزیز میں اسلامی قوانین کے نفاذ اور ان پر عملدرآمد کے بارے میں تذبذب اور گومگو کی جو کیفیت پائی جاتی ہے اس کی ایک وجہ یہ بین الاقوامی دباؤ بھی ہے جو اسلامی قوانین کے نفاذ کے حوالہ سے انہیں خوفزدہ رکھے ہوئے ہے یا اس سلسلہ میں ان کا بظاہر معقول بہانہ بنا ہوا ہے، جس کی آڑ میں وہ خود اسلامی قوانین کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں۔

ہماری ہمیشہ یہ گزارش چلی آرہی ہے کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کا جذبہ رکھنے والی جماعتوں اور حلقوں کو یہ مسئلہ سنجیدگی کے ساتھ اپنے عملی ایجنڈے میں شامل کرنا چاہیے کہ اس بین الاقوامی دباؤ کے اسباب و عوامل کا پوری طرح ادراک کرتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے علمی، فکری، سیاسی اور عملی طور پر کیا رویہ اور حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس کے بغیر ہم اس مسئلہ کا کوئی صحیح حل تلاش نہیں کر پائیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter