وفاق المدارس العربیہ عوام کی عدالت میں

   
تاریخ : 
۶ اگست ۲۰۰۷ء

رجب ہمارے ہاں دینی مدارس کے تعلیمی نظام میں سال کا آخری مہینہ ہوتا ہے۔ شوال کے وسط سے شروع ہو کر رجب کے وسط تک عام طور پر تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اس کے بعد امتحانات ہوتے ہیں اور پھر شوال کے وسط تک کے لیے سالانہ تعطیلات ہو جاتی ہیں۔ کچھ عرصے سے ان دنوں میں بخاری شریف کے اختتام کی تقریبات کثرت کے ساتھ ہونے لگی ہیں۔ بخاری شریف درس نظامی کے تعلیمی نصاب میں آخری کتاب ہے جس کی تعلیم مکمل ہونے کے ساتھ ہی طالب علم امتحان میں کامیابی کی صورت میں سند فراغت کے مستحق ہو جاتے ہیں اور انہیں فارغ التحصیل قرار دے کر دستار فضیلت سے نوازا جاتا ہے۔

ان دنوں بخاری شریف کے اختتام کی تقریبات زوروں پر ہیں اور خود مجھے بھی ان کے لیے مختلف شہروں میں جانا پڑتا ہے۔ وہاڑی، فیصل آباد، سرگودھا، جھنگ، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، راولپنڈی اور دیگر بہت سے اضلاع میں اس حوالے سے متعدد تقریبات میں شریک ہو چکا ہوں، مگر اس سال ان تقریبات میں بخاری شریف اور علم حدیث کے روایتی موضوعات سے زیادہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معاملات زیر بحث ہیں۔ ہر جگہ ان کے بارے میں سوالات ہو رہے ہیں، شبہات و اشکالات پیش کیے جا رہے ہیں اور طلبہ و اساتذہ اس سلسلے میں جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی مختلف طبقات کے لوگ حقائق جاننا چاہتے ہیں، پس پردہ عوامل تک رسائی کے خواہش مند ہیں اور نتائج و عواقب کا صحیح طور پر اندازہ کرنا چاہتے ہیں، جو ایک فطری بات ہے اور اس سلسلے میں لوگوں کی صحیح رہنمائی ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

گوجرانوالہ میں ہم نے ۲۵ جولائی کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے المناک سانحہ اور مبینہ طور پر ہزاروں افراد کی شہادتوں کے خلاف شہری سطح پر ہڑتال کی کال دی تھی جو بحمد اللہ کامیاب رہی اور ’’تحفظ مدارس دینیہ رابطہ کمیٹی‘‘ کی کال پر شہر کی تاجر تنظیموں اور عام شہریوں نے بھرپور ہڑتال کی۔ اس سلسلے میں میرا شہر کی کاروباری تنظیموں کے عہدے داروں کے پاس جانا ہوا تو مختلف سوالات کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ کلاتھ مارکیٹ بورڈ کا باقاعدہ اجلاس تو میرے لیے اور میرے ساتھ جانے والے دیگر علماء کرام مولانا مشتاق احمد چیمہ، مولانا سید عبد المالک شاہ، مولانا ایوب صفدر اور بابر رضوان کے لیے باقاعدہ عدالتی کٹہرے کی حیثیت اختیار کر گیا۔ کلاتھ مارکیٹ بورڈ شہر کی اکثر تاجر تنظیموں کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے سربراہ حاجی نذیر احمد اور ان کے رفقاء نے ہڑتال کی کامیابی کے لیے مکمل تعاون کیا بلکہ شکوہ کیا کہ ہم نے ہڑتال کی یہ کال بہت تاخیر سے دی ہے، لیکن بورڈ کے اجلاس میں انہوں نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے بارے میں جس طرح سوالات کیے، اس سے اس مسئلے کے ساتھ ملک کے عام شہریوں کی دلچسپی اور ان کے غم و درد کا اندازہ ہوتا ہے۔

۳۱ جولائی کو جھنگ کے دورے کے آخری روز میں نے علماء اور وکلاء کی الگ الگ کچہریوں کا سامنا کیا۔ علماء کرام کی ایک بڑی تعداد مدرسہ تعلیم القرآن اشرفیہ، مومن پورہ، جھنگ صدر میں جمع تھی جہاں مجھے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے بارے میں دینی جماعتوں اور خاص طور پر وفاق المدارس کے کردار سے متعلق بیسیوں سوالات کے جوابات دینا پڑے۔ جبکہ اس کے فوراً بعد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن جھنگ میں وکلاء حضرات اسی نوعیت کے سوالات کے ساتھ میرا گھیراؤ کیے ہوئے تھے۔ یہ سوالات پورے کے پورے تو اس کالم کے دائرے میں نہیں آ سکتے، البتہ قارئین کی دلچسپی کی خاطر ان میں سے دو تین اہم سوالات کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جن میں زیادہ تر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے کردار کے حوالے سے ہیں۔

ایک دوست نے سوال کیا کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے بارے میں زیادہ تر سوالات وفاق المدارس سے متعلق کیوں ہو رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے بارے میں وفاق المدارس کا قصور صرف اتنا ہے کہ اس سلسلے میں اب تک جو کچھ تھوڑا بہت کیا ہے، وہ وفاق نے ہی کیا ہے۔ باقی کوئی دینی یا سیاسی تنظیم آگے نہیں ہوئی اور اگر کسی نے کچھ کیا بھی ہے تو رسمی طور پر کیا ہے۔ اس طرح معاملات میں دخیل ہو کر معاملات کو نمٹانے کی کوشش وفاق المدارس کے سوا کسی نے نہیں کی جس کی وجہ سے وہ ہر جانب سے طعن و اعتراض کا ہدف بن گیا ہے۔ اگر وہ بھی باقی جماعتوں اور تنظیموں کی طرح خاموش تماشائی بنا رہتا اور کوئی عملی کردار ادا نہ کرتا تو دوسری جماعتوں کی طرح وہ بھی طعن و اعتراض کا نشانہ بننے سے بچ جاتا۔ ظاہر بات ہے کہ جو عملاً کام کرے گا، وہ کہیں نہ کہیں غلطی بھی کرے گا اور جس نے عملی طور پر کچھ نہیں کرنا، اس کو کون کسی غلطی کا مرتکب قرار دے سکتا ہے؟

ایک صاحب کا سوال تھا کہ وفاق المدارس نے جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا الحاق ختم کر کے انہیں تنہا کیوں کر دیا جس کی وجہ سے معاملات یہاں تک جا پہنچے؟ ان صاحب کا خیال تھا کہ اگر وفاق المدارس ان دونوں مدارس کا الحاق ختم نہ کرتا تو ملک بھر کے تمام مدارس اور ان کے طلبہ کی قوت ان کے ساتھ سمجھی جاتی اور حکومت کو اس انتہائی اقدام کی جرات نہ ہوتی۔ میں نے گزارش کی کہ ایسا کرنا وفاق المدارس کے لیے دو وجہ سے ضروری ہو گیا تھا۔

  1. ایک وجہ یہ کہ نفاذ اسلام اور دیگر دینی مقاصد کے لیے مولانا عبد العزیز اور مولانا عبد الرشید نے جو طریق کار اختیار کیا تھا، مثلاً سرکاری فورسز کے ساتھ مسلح تصادم کی صورت اختیار کرنا، سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرنا، مبینہ قحبہ خانے مساج پارلروں پر چھاپے مار کر لوگوں کو گرفتار کرنا، اور متوازی نظام قائم کرنے کی کوشش کرنا وغیرہ، وہ وفاق المدارس کے نزدیک درست نہیں تھا۔ وفاق المدارس خود سے الحاق رکھنے والے کسی بھی مدرسے کی اس قسم کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول نہیں کر سکتا اور نہ ہی ملک کے دیگر ہزاروں مدارس کو اس ذمہ داری میں شریک کر سکتا ہے۔ اس لیے اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا کہ وہ یا تو ان اقدامات کی ذمہ داری قبول کرے یا پھر ان مدارس کا الحاق ختم کر کے خود کو اور ملک کے دوسرے ہزاروں مدارس کو ایسے طرز عمل سے بری الذمہ قرار دے۔

    جھنگ کے ایک عالم دین نے جو ہمارے پرانے ساتھی ہیں، بہت ناراضی کے لہجے میں مجھ سے پوچھا کہ آپ اس طریق کار کو بار بار غلط کیوں کہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ چونکہ میں غلط سمجھتا ہوں، اس لیے اسے غلط کہنا بھی اپنی ذمہ داری تصور کرتا ہوں۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ جس مسجد میں خطیب ہیں، کیا اسے مورچہ بنا کر آپ جھنگ شہر میں اس قسم کی کارروائیاں کرنے کے لیے تیار ہیں؟ انہوں نے فوراً جواب دیا کہ نہیں، تو میں نے عرض کیا کہ جس کام کے لیے آپ خود تیار نہیں ہیں، اسے دوسروں کے لیے جائز قرار دینے پر آپ کو کیوں اصرار ہے، اور پھر جو کام جھنگ کے لیے آپ درست نہیں سمجھتے، اسے اسلام آباد کے لیے جائز اور ضروری کیوں قرار دے رہے ہیں؟

  2. دوسری وجہ جامعہ فریدیہ اور جامعہ حفصہ کا الحاق ختم کرنے کی یہ ہے کہ وفاق المدارس کی اعلیٰ قیادت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خود اسلام آباد پہنچی تھی۔ بڑے بڑے علماء کرام نے مولانا عبد العزیز اور غازی عبد الرشید کو اس طرز عمل سے روکنے کی مسلسل کوشش کی تھی اور جب سمجھانے بجھانے کے تمام ممکنہ ذریعے اختیار کرنے باوجود کامیابی نہیں ہوئی تو پھر آخری چارۂ کار کے طور پر ان مدارس کے الحاق کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا جس کی ذمہ داری وفاق کی قیادت پر بہرحال عائد نہیں ہوتی۔

    اس ضمن میں ایک سوال یہ سامنے آیا کہ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا الحاق ختم کرنے سے ان دو بڑے مدرسوں کے کم و بیش دس ہزار طلبہ کا تعلیمی مستقبل مخدوش ہو گیا ہے اور ان کا یہ تعلیمی سال ضائع ہو رہا ہے۔ میں نے گزارش کی کہ وفاق المدارس کی طرف سے واضح اعلان کر دیا گیا ہے کہ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کے طلبہ اور طالبات وفاق المدارس سے ملحق کسی بھی مدرسے کی طرف سے سالانہ امتحان میں شریک ہو سکتے ہیں، ان کے ساتھ خصوصی رعایت کا معاملہ کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے سابق مشیر حافظ طاہر محمود اشرفی کا بھی ایک تند و تیز بیان آیا ہے جس میں انہوں نے وفاق المدارس کی قیادت پر الزام لگایا ہے کہ وہ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کے دس ہزار طلبہ اور طالبات کے مستقبل سے کھیل رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر اس طرح کا تند و تیز بیان دے کر حافظ محمود اشرفی اس کے سوا کوئی خدمت سرانجام نہیں دے سکے کہ وفاق المدارس کی قیادت کو مطعون کرنے اور وفاق المدارس کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی حالیہ کوششوں کی اصل سمت کی انہوں نے نشاندہی کر دی ہے کہ ایسی کوششیں کس طرف سے منظم کی جا رہی ہیں۔

وفاق المدارس کے بارے میں ایک بڑا اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ لال مسجد کا المناک سانحہ رونما ہو جانے کے بعد اس نے ملک میں تحریک کی کال کیوں نہیں دی؟ میں نے عرض کیا کہ یہ وفاق المدارس کا کام نہیں ہے۔ وفاق المدارس نہ تو کوئی سیاسی جماعت ہے اور نہ ہی تحریکی فورم ہے۔ اس حوالے سے اس کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ بڑے دینی مدرسوں کے خلاف حکومت کے وحشیانہ آپریشن کی مذمت کرے اور اس سانحہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں واضح موقف اختیار کر کے اس کے لیے قوم کی علمی و فکری رہنمائی کرے، اور میرے خیال میں وفاق نے اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اس نے متعلقہ مسائل پر دوٹوک موقف اختیار کیا ہے اور تمام میسر ذرائع سے وہ اس سلسلے میں علماء کرام، دینی مدارس اور رائے عامہ کی مسلسل رہنمائی کر رہا ہے۔ عوامی جلسے، جلوس اور احتجاجی تحریک نہ اس کے دائرہ کار میں شامل ہے اور نہ ہی اسے ایسا کرنا چاہیے۔ یہ کام دینی و سیاسی جماعتوں کا ہے اور انہی کا حق ہے کہ وہ اس کا اہتمام کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کر رہیں تو اس کا نزلہ وفاق المدارس پر نہیں کرنا چاہیے۔

ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں ۱۹۷۶ء کے دوران میں بھٹو حکومت نے مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کو سیاسی انتقام کے طور پر سرکاری تحویل میں لینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تو اس وقت وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ تھے جو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی تھے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی اور وفاق المدارس کے سربراہ کی حیثیت سے لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے دینی مدارس کا کنونشن طلب کر کے ہماری تحریک کو سپورٹ کیا تھا، لیکن ہم نے اس سے زیادہ اس تحریک کے لیے وفاق المدارس کو زحمت نہیں دی تھی۔ ہم نے گوجرانوالہ میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور راہنماؤں پر مشتمل ’’عوامی مجلس تحفظ مساجد و مدارس‘‘ تشکیل دے کر احتجاجی تحریک منظم کی تھی۔ نوید انور ایڈووکیٹ مرحوم اس تحریک کے سربراہ تھے۔ ان کی قیادت میں ہم نے کم و بیش چار ماہ تک گوجرانوالہ کی سڑکوں اور بازاروں میں اودھم مچائے رکھا تھا، سینکڑوں افراد گرفتار ہوئے تھے، خود میں بھی ساڑھے تین ماہ تک جیل میں رہا تھا۔ ہمارے ساتھ مولانا عبد المالک شاہ، ڈاکٹر غلام محمد مرحوم، علامہ محمد احمد لدھیانوی، صوفی رستم علی قادری اور دیگر حضرات شامل تھے جبکہ حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور دیگر بزرگ علماء کرام ہماری سرپرستی کر رہے تھے۔ اس تحریک میں بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے علماء کرام بھی ہمارے ساتھ سرگرم تھے، حتیٰ کہ شیعہ رہنما خواجہ عبد الوارث بھی گرفتار ہوئے تھے، مگر ہم نے اس سارے ہنگامے میں وفاق المدارس کی قیادت کو سیاسی و اخلاقی سپورٹ اور لاہور کے ایک کنونشن کے سوا زحمت نہیں دی تھی اور ہماری کم و بیش چار پانچ ماہ کی اس تگ و دو کے بعد بھٹو حکومت مدرسہ نصرۃ العلوم اور مسجد نور کو سرکاری تحویل میں لینے کا نوٹیفکیشن واپس لینے پر مجبور ہو گئی تھی۔

اب بھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحہ کے بعد گوجرانوالہ کے علماء کرام نے مجھ سے رابطہ کیا اور احتجاجی مظاہروں اور ہڑتال کے سلسلے میں بات کی تو میں نے عرض کیا کہ میں اس سلسلے میں کسی تحریک کے لیے وفاق المدارس کا فورم استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہوں، چنانچہ ہم نے ’’تحفظ مدارس دینیہ رابطہ کمیٹی‘‘ قائم کر کے اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور تاجر تنظیموں کو شامل کیا اور ۲۵ جولائی کی ہڑتال اور پرجوش عوامی مظاہرے کو منظم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس لیے کسی عوامی تحریک اور احتجاجی مہم کے بارے میں میرا دوٹوک موقف یہ ہے کہ اس کے لیے وفاق المدارس کا فورم کسی صورت میں استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دینی و سیاسی جماعتوں کا کام ہے اور انہی کو کرنا چاہیے۔ اگر خدا نخواستہ وہ کسی وجہ سے ایسا نہیں کر پا رہیں تو اس کے لیے تحفظ مدارس دینیہ کے عنوان سے کوئی الگ مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک اور دلچسپ سوال کا تذکرہ بھی شاید نامناسب نہ ہو۔ ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ جب سے آپ وفاق المدارس العربیہ کی مجلس عاملہ کے رکن بنے ہیں، بے عمل اور غیر فعال ہو گئے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ نہیں، میں وفاق المدارس العربیہ کے حوالے سے بے عمل اور غیر فعال نہیں ہوا، بلکہ ۱۹۹۰ء میں جب میں نے جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے منصب سے استعفٰی دیا تھا، اسی وقت میں نے واضح طور پر اعلان کر دیا تھا کہ زندگی بھر جمعیت کا رکن رہوں گا، مگر عملی سیاست میں غیر متحرک اور غیر فعال رہوں گا، البتہ علمی، فکری اور نظریاتی محاذ پر اپنی استطاعت کے مطابق مسلسل کام کرتا رہوں گا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے نزدیک عملی سیاست سے کہیں زیادہ فکری اور نظریاتی محنت کی ضرورت ہے اور میں خود کو اس کے لیے زیادہ موزوں سمجھتا ہوں، اس لیے میری بے عملی کو وفاق المدارس سے منسوب نہ کیا جائے اور دعا کی جائے کہ میں اپنے اس پروگرام پر آخری دم تک عمل جاری رکھ سکوں۔ (آمین)

   
2016ء سے
Flag Counter