جرمن وزیرخارجہ کے اعلان کا خیرمقدم

   
۱۹ فروری ۲۰۰۳ء

روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی ۱۵ فروری ۲۰۰۳ء کی رپورٹ کے مطابق وفاقی جمہوریہ جرمنی کے وزیر خارجہ مسٹر جواگن چوروبوچ نے گزشتہ روز جرمنی میں پاکستانی سفارت خانہ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام اور مغرب کے درمیان ڈائیلاگ کے لیے جرمنی اور پاکستان مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ تقریب پاکستان اور جرمنی کے سفارتی تعلقات کی پچاسویں سالگرہ کے حوالے سے منعقد ہوئی اور اس سے جرمن وزیر خارجہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں استحکام پیدا کرنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی جرمنی اور پاکستان ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔

جہاں تک ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے درمیان ڈائیلاگ کی بات ہے یہ کافی عرصہ سے مختلف حلقوں کی طرف سے سامنے آرہی ہے۔ اور جوں جوں مسلمانوں اور اہل مغرب کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے بعض سنجیدہ حلقے اس بات پر زیادہ زور دے رہے ہیں کہ اسلام اور مغرب کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کیلئے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے اور باہمی گفت و شنید اور مکالمہ ناگزیر ہو گیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو سمجھے میں مدد ملے اور ہو سکتا ہے اس سے کشیدگی کے اسباب میں کوئی کمی واقع ہو جائے۔

اہل اسلام نے ڈائیلاگ اور مکالمہ کی ضرورت اور اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا اور یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں یہودی قبائل کے ساتھ جو ’’میثاق‘‘ ہوا تھا وہ ڈائیلاگ اور مکالمہ ہی کی ایک صورت تھی۔ اور بقائے باہمی کے اس منشور کی بنیاد پر جناب نبی اکرمؐ نے مسلمانوں اور یہودیوں کو اس بات پر کا موقع فراہم کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کے موقف و مزاج سے آگاہ ہوں، لیکن یہودیوں کی روایتی سازشی ذہنیت و مزاج کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ پھر عیسائیوں کے ساتھ بھی جناب نبی اکرمؐ نے مذاکرہ و مکالمہ کا آغاز کیا۔ نجران سے مسیحی علماء کا وفد آیا جسے آنحضرتؐ نے مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا اور ان کے ساتھ کئی روز تک گفتگو ہوتی رہی۔ اس موقع پر قرآن کریم سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۶۴ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضورؐ سے اہل کتاب کو یہ دعوت بھی دلوائی کہ آؤ ہم سب ان اقدار و تعلیمات پر جمع ہو جائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں اور قرآن کریم، تورات، اور انجیل ان پر متفق ہیں۔ لیکن مسیحی علماء نے اس دعوت کو قبول نہ کیا۔

اس لیے جرمنی کے وزیر خارجہ کی طرف سے اسلام اور مغرب کے درمیان ڈائیلاگ کی بات ہمارے لیے نئی نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اس سے کوئی حجاب و انکار ہے لیکن اس موقع پر ہم اس مذاکرہ و مکالمہ اور ڈائیلاگ کے ناگزیر تقاضوں کے حوالے سے دو تین گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

  1. سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت اسلام اور مغرب کے درمیان کشمکش کی جو فضا موجود ہے اور جس کی سنگینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس کے اسباب کیا ہیں، اور کیا صرف مذہبی تعلیمات کی وجہ سے یہ تصادم رونما ہوا ہے؟ ہمارے خیال میں اصل صورتحال یہ نہیں ہے اور بنیادی طور پر اس نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اصل قصہ یہ ہے کہ مغرب نے مذہب کو ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ قرار دے کر کباڑ خانے میں پھینک دیا ہے اور مغرب کے پورے نظام، فکر و فلسفہ اور معاشرت کی بنیاد لا مذہبیت پر بلکہ مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی پر ہے۔ جبکہ اہل اسلام اپنے مذہب کو ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی مذہب کے معاشرتی اور اجتماعی کردار سے دستبرداری کو قبول کر رہے ہیں۔ مغرب اپنی قوت، پروپیگنڈے اور طعن و تشنیع کے ہتھکنڈوں کے ذریعہ مسلمانوں کو اس بات پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اہل اسلام نے اس کے اس دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا ہے۔
    یہی صورتحال مسیحی مذہبی حلقوں میں بھی ہے۔ مسیحی مذہبی حلقوں میں ایسے علماء اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد دنیا کے ہر خطے میں حتیٰ کے مغرب بلکہ امریکہ میں بھی موجود ہے جو معاشرتی زندگی اور سوسائٹی کے اجتماعی مسائل سے مذہب کی لاتعلقی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر رہے اور دبے لفظوں میں اس کا وقتاً فوقتاً اظہار بھی کرتے رہتے ہیں لیکن سخت دباؤ کی وجہ سے کھلم کھلا اس کا اعلان نہیں کر پا رہے۔ اس لیے مغرب کی طرف سے دنیا پر لامذہبیت مسلط کرنے کی یہ مہم صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ مسیحیت اور مسیحی مذہبی حلقوں کے خلاف بھی ہے۔ لہٰذا اسے مغرب اور اسلام کی کشمکش قرار دینا اصولاً درست نہیں ہے۔ یہ درحقیقت مذہب اور لامذہبیت کی کشمکش ہے اور اس میں جس طرح مسلمانوں کے دینی حلقے مغرب کی مہم کا ہدف ہیں اسی طرح مسیحیت کے وہ مذہبی حلقے بھی اس کی زد میں ہیں جو مذہب کے معاشرتی کردار پر اب بھی یقین رکھتے ہیں اور سیکولر فلسفہ و نظام کو انہوں نے ابھی تک ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔
    ہمارا خیال ہے کہ مغرب کی لامذہبیت کے ساتھ ڈائیلاگ میں مسلم اور مسیحی علماء ایک مشترکہ فریق اور فطری حلیف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اگر سنجیدگی کے ساتھ محنت کی جائے تو لا مذہبیت کے ساتھ مکالمہ اور ڈائیلاگ کے لیے مسلم اور مسیحی علماء کا مشترکہ گروپ تشکیل پا سکتا ہے۔ مگر ہماری مجبوری یہ ہے کہ جن مراکز اور اداروں کے پاس اس کام کے وسائل موجود ہیں ان کے نزدیک اس کام کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور جو لوگ اس کام کی سوچ اور صلاحیت رکھتے ہیں وہ وسائل و اسباب سے تہی دامن ہیں۔
  2. دوسری بات اس سلسلہ میں قابل توجہ یہ ہے کہ مغرب کس بنیاد پر اہل اسلام سے مکالمہ چاہتا ہے؟ مغرب کی اب تک یہ کوشش رہی ہے کہ دنیا بھر کے اہل اسلام، اسلام کی بنیادی تعلیمات ، اور قرآن و سنت کی تصریحات سے دستبردار ہو کر دین کی نئی تعبیر و تشریح کے نام پر وہ ’’درآمدی اسلام‘‘ قبول کر لیں جو مستشرقین اور ان کے تربیت یافتہ مسلم دانشوروں کے ذریعہ گزشتہ دو صدیوں سے مسلم معاشرہ میں پھیلایا جا رہا ہے، اور جسے حال ہی میں امریکی قیادت کی طرف سے ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کے نام پر مغرب کے لیے قابل قبول قرار دینے کا عندیہ ظاہر کیا گیا ہے۔ حالانکہ دو صدیوں کی مسلسل محنت کے باوجود دنیا کے کسی بھی خطہ کے عام مسلمان اس درآمدی اور موڈریٹ اسلام کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی غالب اکثریت اسی اسلام پر ڈٹی ہوئی ہے جو قرآن کریم اور سنت نبویؐ کے ساتھ ساتھ جمہور علماء امت کی چودہ سو سالہ اجتماعی تعبیر کی صورت میں موجود ہے۔
    ہماری گزارش یہ ہے کہ مغرب اس ناکام کوشش میں اپنا مزید وقت ضائع نہ کرے بلکہ کھلے دل سے یہ تسلیم کر لے کہ مسلمانوں کو قرآن و سنت کی تصریحات اور اسلام کی چودہ سو سالہ اجتماعی تعبیر سے دستبرداری پر آمادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ معروضی حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے اسلام کے وجود کو تسلیم کر لے اور اس بات پر مکالمہ اور ڈائیلاگ کا آغاز کرے کہ اس اسلام اور اس کو ماننے والے مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں بقائے باہمی کا کون سا فارمولا قابل عمل ہو سکتا ہے اور اس کے لیے نئے بین الاقوامی معاہدہ کے حدود و ضوابط کیا ہونے چاہئیں۔
  3. تیسری گزارش یہ ہے کہ مغرب اسلام کے ساتھ مکالمہ اور ڈائیلاگ کن لوگوں کے ذریعہ کرنا چاہتا ہے؟ اگر مغرب یہ خیال کرتا ہے کہ اس وقت مسلمان ملکوں کے دارالحکومت میں جو لوگ اقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں ان کے ساتھ گفتگو کر کے وہ اسے ’’اسلام اور مغرب کے درمیان ڈائیلاگ‘‘ کے طور پر پیش کر سکتا ہے تو یہ مغربی حکمرانوں کی خام خیالی ہے۔ کیونکہ مسلمان ممالک کے دارالحکومتوں میں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان لوگ نہ مسلمانوں کے نمائندے ہیں اور نہ ہی اسلام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہے۔ یہ مغرب کے نمائندے ہیں، مغرب کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں، اور مسلم معاشرہ میں اسلام کی بجائے مغربی فکر و فلسفہ کی ترجمانی کی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی گفت و شنید اور ڈائیلاگ کا اہتمام کر کے مغرب اگر کسی نتیجہ اعلان کر بھی دے گا تو اسے عالم اسلام کے دینی حلقوں اور قرآن و سنت پر بے لچک یقین رکھنے والی دنیا کی غالب مسلم اکثریت کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں ہوگی۔ اور ایسے ڈائیلاگ کے ڈرامے کے باوجود کشمکش و کشیدگی کی صورتحال جوں کی توں رہے گی اور مکر و فریب کے اس نئے جال سے بھی مغرب کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر مغرب کے دانشور اسلام کے ساتھ مکالمہ میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اسلام کے حقیقی نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرنا ہوگی۔ اسلام کے حقیقی نمائندے اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ مساجد و مدارس میں بیٹھے ہیں اور اسلام کے حوالہ سے ملت اسلامیہ انہی کی بات سنتی اور مانتی ہے۔

اس کے ساتھ ایک اور حقیقت کا اظہار بھی شاید نا مناسب نہ ہو کہ اپنے تاریخی پس منظر کے حوالے سے ہمارے نزدیک جرمنی دوسرے یورپی ممالک سے مختلف حیثیت رکھتا ہے۔ جرمنی ان استعماری یورپی ممالک کی دوڑ میں شریک نہیں تھا جنہوں نے اکثر مسلم ممالک کو گزشتہ دو صدیوں کے درمیان نو آبادی بنائے رکھا ہے۔ یورپ میں خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کی مہم میں بھی جرمنی کا وہ حصہ نہیں ہے جو برطانیہ، فرانس اور اٹلی وغیرہ کا رہا ہے بلکہ پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ اور جرمنی آپس میں حلیف تھے۔ جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور پروفیسر برکت اللہ بھوپالیؒ جیسے راہنماؤں کو جرمنی کا تعاون حاصل رہا ہے۔ جس کی تفصیلات خود جرمنی کی وزارت خارجہ کے ایک افسر پروفیسر اولف شمل کی کتاب ’’اعلان برلن‘‘ میں شائع ہو چکی ہیں۔ خلافت عثمانیہ اور عالم اسلام کے دیگر کئی ممالک کی طرح جرمنی بھی یورپی استعماری قوتوں کا کشتہ ستم رہا ہے اور ’’جہاد افغانستان‘‘ میں مسلم مجاہدین کی قربانیوں کے نتیجے میں جرمنی کو اتحاد نصیب ہوا ہے۔ اس لیے اگر اسلام اور مغرب کے درمیان ڈائیلاگ کی بات جرمنی کی طرف سے آئی ہے تو ہم دینی کارکنوں کے لیے زیادہ خوشی کی بات ہے لیکن یہ مکالمہ صحیح رخ پر ہونا چاہیے اور صحیح لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter