سنی و شیعہ رہنماؤں سے ایک دردمندانہ گزارش

   
۱۲ مارچ ۲۰۰۱ء

شیخ حق نواز کی پھانسی کے بعد جھنگ، ہنگو اور شیخوپورہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے جو المناک واقعات رونما ہوئے ہیں اور بیسیوں بے گناہ شہریوں کی افسوسناک ہلاکت پر منتج ہوئے ہیں انہوں نے اس سوال کی شدت اور سنگینی میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہےکہ آخر اس عمل کو کب اور کہاں بریک لگے گی؟ عید کے دن مجھے اپنے علاقہ کے پولیس افسران کی ایڈوائس پر اپنے تیس سال سے چلے آنے والے معمول کو بدل کر ایک متعین راستے پر پیدل عید گاہ جانے کی بجائے راستہ بدل کر اور سواری پر نماز عید پڑھانے کے لیے جانا پڑا، اور اس سے بڑھ کر ہم اپنی مساجد میں دروازے بند کر کے سنگینوں کے سائے میں نمازیں ادا کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس سے شاید دونوں طرف کے کچھ جذباتی اور انتہا پسند نوجوانوں کے جذبات کو تھوڑی بہت تسکین ملتی ہو یا اس خونی کھیل کو جاری رکھنے کے خواہش مند حلقوں کے مقاصد کچھ آگے بڑھتے ہوں مگر دین، قوم اور ملک کے لیے یہ سب کچھ انتہائی تباہ کن ہے اور اس کی تباہ کاری کی صلاحیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سنی شیعہ مسلح کشمکش میں بیرونی عوامل کی کار فرمائی سے انکار نہیں او رہم اس کی کئی بار ان کالموں میں نشاندہی کر چکے ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ مسئلہ اہل سنت اور اہل تشیع کی محاذ آرائی کا ہے او رخارجی عوامل کے یے بھی آلۂ کار اور ایندھن کا کام بھی ہر دو طرف کے جذباتی نوجوان سرانجام دیتے ہیں۔ اس لیے دیگر عوامل و محرکات سے سردست صرف نظر کرتے ہوئے اہل سنت اور اہل تشیع کے رہنماؤں بالخصوص جذباتی نوجوانوں سے دو گزارشات کرنے کو جی چاہ رہا ہے، خدا کرے کہ کسی دل میں یہ بات اتر جائے اور اس خونی عمل کے کسی جگہ رکنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔

  1. پہلی بات بخاری شریف کی اس روایت کے حوالہ سے ہے جو ’’کتاب الادب‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے منقول ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بڑے بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دے اور برا بھلا کہے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنے ماں باپ کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اس نے دوسرے کے ماں باپ کو گالی دی اور اس نے جواب میں اس کے باپ یا ماں کو گالی دی تو گویا اس نے اپنے ماں باپ کو خود گالی دی۔ یعنی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اپنے ماں باپ کے لیے گالی کا سبب اور واسطہ بننے والا شخص خود ان کو گالی دینے کا مرتکب قرار پائے گا۔ کم و بیش اسی نوعیت کی بات سورہ الانعام کی آیت ۱۰۸ میں قرآن کریم نے بھی ارشاد فرمائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تم دوسروں کے جھوٹے خداؤں کو برا بھلا نہ کہو اس لیے کہ وہ جواب میں تمہارے سچے خدا کو برا بھلا کہیں گے اور اس کا سبب تم خود بنو گے۔

    اس لیے ’’مرغی پہلے یا انڈا‘‘ کی طرح اس بحث میں پڑے بغیر کہ اس باہمی قتل و غارت کا آغاز کس نے کیا تھا، ہم اہل سنت اور اہل تشیع دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے جذباتی اور انتہا پسند نوجوانوں کو اس نکتہ پر غور کی دعوت دینا چاہتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے سنجیدگی اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس بات کا جائزہ لے لیں کہ دونوں طرف کے جو بڑے بڑے بزرگ اور سرکردہ قائدین اس المناک قتل و غارت کی نذر ہو چکے ہیں کہیں وہ سبب اور واسطہ کے درجہ میں خود ہی اپنے بزرگوں کے قاتل تو قرار نہیں پاتے؟ میں تو جتنا اس مسئلہ کی گہرائی میں جاتا ہوں دل و دماغ کے لرزہ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اسی حساب کے تحت یہ گزارش کر رہا ہوں۔

  2. دوسری گزارش جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عملی سنت کے حوالہ سے کرنا چاہتا ہوں۔ عرب قبائل میں انتقام در انتقام کا سلسلہ اسی طرح چلا آرہا تھا جیسے اب سنی اور شیعہ روزانہ انتقامی جذبہ کے تحت اندھا دھند قتل ہو رہے ہیں۔ جناب نبی کریمؐ نے اس سلسلہ کو بریک لگانے کے لیے حجۃ الواداع کے موقع پر اعلان فرمایا کہ گزشتہ قتلوں کے انتقام کا سلسلہ ختم کر کے نئے سرے سے پر امن زندگی کا آغاز کرو اور گزشتہ قتلوں اور ان کے انتقام کو بھول جاؤ۔ آنحضرتؐ نے اس کا صرف زبانی اعلان نہیں کیا بلکہ عملی طور پر بھی اظہار فرمایا کہ اپنے چچا زاد بھائی ربیعہ بن الحارث بن عبد المطلبؓ کے معصوم بیٹے ایاس کا قتل معاف کرنے کا اسی مجلس میں اعلان فرما دیا اور اپنے اعلان پر عملدرآمد کا آغاز گھر سے کر دیا۔ ایاس بنو سعد میں پرورش پا رہا تھا کہ بنو ہذیل نے اسے قتل کر دیا، اس کا انتقام قبائلی روایات کے مطابق بنو عبد المطلب کے ذمہ تھا، متعدد لوگوں کے دلوں میں اسی انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور وہ یقیناً کسی موقع کے انتظار میں ہوں گے کہ جناب نبی اکرمؐ نے بنو عبد الطلب کی طرف سے اس معصوم بچے کا خون معاف کرنے کا اعلان فرما کر نہ صرف یہ کہ انتقام در انتقام کے اس بظاہر ختم نہ ہونے والے سلسلہ کو روک دیا بلکہ باقی لوگوں کے لیے بھی ایک عملی نمونہ پیش کر دیا۔ اور یہ اسی کی برکت تھی کہ پشت در پشت خونریزی کے عادی اور خوگر عرب قبائل کو امن اور باہمی اعتماد کی منزل گم گشتہ مل گئی۔

    آج بھی امن کا راستہ یہی ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے سرکردہ اکابر سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مکروہ عمل کو بریک لگانے کے لیے سنت نبویؐ کی روشنی میں کوئی فارمولا طے کریں اور اس پر اپنے جذباتی نوجوانوں کو پابند کریں یا بصورت دیگر امن کا دشمن بن جانے والوں سے لا تعلقی اور براءت کا اعلان کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ جو فریق بھی اس سمت پہل کرے گا وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کا دامن تھامنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کے لیے امن و سلامتی کا پیغام بر ثابت ہوگا۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کے امن اور قومی وحدت کو سبوتاژ کرنے کے خواہش مند عناصر کو ’’کراس‘‘ کرنے کا حوصلہ درکار ہے، خدا کرے کہ سنی شیعہ قائدین اس حوصلہ کا بروقت اظہار کر سکیں، آمین ثم آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter