عورتوں کی وراثت پر ایک صدی قبل کی قانون سازی

   
۲۰ و ۲۱ مارچ ۲۰۲۴ء

گزشتہ کالم میں نوے برس قبل صوبہ سرحد اسمبلی میں قانون سازی کا ذکر کیا تھا۔ جمعیت علماء ہند کے صدر حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’کفایت المفتی‘‘ میں اس کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ فرمایا ہے جس کا آج کے علمی و قانونی ماحول میں دوبارہ سامنے آنے کو بوجوہ ضروری سمجھتے ہوئے اس کالم میں پیش کیا جا رہا ہے:

(کفایت المفتی، جلد 3، جمہوریت اور سیاسی تنظیموں کا بیان)

شریعت بل کمیٹی میں ایک تقریر کا خاکہ:

سوال (896):

أفضل العلماء حضرت صدر جمعیۃ علمائے ہند دام فیضکم !

السلام علیکم۔ حسبِ فیصلہ سلیکٹ کمیٹی دربارۂ شریعت بل خاکسار را دعوت داده۔

مضمونِ دعوت نامہ حسب ذیل نوشتہ شده:

”سلیکٹ کمیٹی صوبہ سرحد کا ایک جلسہ جو کہ شریعت بل پر زیر صدارت آنریبل سر جاج کنگھم ممبر ایگزیکٹو کونسل ہوا، اس میں طے پایا کہ لجسلیٹو کونسل کے آرڈر سے جو اختیارات کمیٹی کو تفویض ہوئے ہیں، اس کی رو سے چند ماہرین نمائندگان سے جن کو اس بل میں خاص مہارت ہو، کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں افادہ حاصل کیا جائے ، اس لئے آپ ان چند ماہرین میں سے ہیں“ الخ۔

از آں صاحب مشوره طلب کرده شود چرا کہ آن صاحب رایدِ طولانی است درین میدان در آں جا رو بروئے اجلاس چہ قسم بیان دادن خوب است، چراکہ پیش ایں قسم کمیٹی گاہے بیان نہ دادم۔ لہذا آن صاحب را عرض کرده شود کہ از خیالات مفیده خود بنده را اطلاع بخشید۔

(ترجمہ: آنجناب سے مشورہ طلب کیا جاتا ہے کہ اس اجلاس میں کس طرح بیان دینا مناسب ہے، کیونکہ آنجناب کو اس فن میں مہارت تامہ حاصل ہے۔ بندہ نے اس قسم کی کمیٹی میں اس سے پہلے کبھی بیان نہیں کیا ہے، لہٰذا آنجناب کی خدمت اقدس میں عرض ہے کہ اپنے خیالات مفیدہ سے بندہ کو آگاہ کر دیں۔)

المستفتی نمبر 507،
مولا ناشاکر اللہ، صدر جمعیۃ علمائے صوبہ سرحد
28 ربیع الاول 1354ھ، یکم جولائی 1935ء

جواب:

مولانا المحترم! اس کمیٹی کے سامنے آپ شہادت میں یہ بیان دیں کہ قرآن مجید کی رو سے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ خدا کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرے، ورنہ وہ مسلمان نہیں۔ اس کے لئے آیت فلا وربك لايؤمنون حتی يحكموك اور آیت ألم تر إلى الذين يزعمون أنہم أمنوا۔ إلی قولہ۔ يريدون أن يتحاكموا إلی الطاغوت الخ اور دیگر آیات پیش کریں۔

پھر یہ بتائیں کہ جو رواج شریعت اسلامیہ کے صریح خلاف ہو، اس کو بمقابلہ شریعت کے اختیار کرنا مسلمان کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کا یہ مطالبہ بالکل صحیح ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اسلامی احکام کے موافق وراثت ، نکاح ، طلاق وغیرہ معاملات میں مقدمات میں فیصل کئے جائیں اور چونکہ حکومت برطانیہ کا وعدہ اور اس کی حکومت کا اصول بھی یہی ہے کہ وہ کسی مذہب میں دست اندازی نہ کرے گی، بلکہ رعایا کے ہر طبقہ کو اس کے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد رکھے گی ، اس لئے حکومت ہند کو اس میں ایک منٹ کے لئے تامل نہ کرنا چاہیے کہ وہ مجوزہ بل پاس کر دے۔

پس خلاصہ یہ ہے کہ اس کو بسط دے کہ آپ بیان کریں۔ امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوگا، مولوی عبد القیوم اور دیگر واقفین سے سلام فرما دیں۔

محمد کفایت اللہ

جزوی شریعت بل کے خلاف درخواست دائر کرنے والے کا حکم:

سوال (897):

ہمارے شہر کی بعض خواتین نے شریعت بل مجوزہ کے بارے میں یہ درخواست تحریر کر کے کونسل کی طرف بھیج دی ہے۔

اگر گورنمنٹ عالیہ کی منشا ہم مسلمانانِ سرحد کو شریعت دینے کی ہے، تو ہم استدعا کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی روحانی و دنیاوی زندگی کا جہاں تک تعلق ہے، وہ تمام قرآن پاک و احادیث نبوی کے عین مطابق ہو، یعنی اقامتِ دین، تجدید و اصلاح و تعزیر و حدود و صیغۂ محاصل و صیغۂ عدالت غرضیکہ کیا عبادات، کیا عقائد، کیا اخلاق، کیا عشر و زکوٰۃ، کیا دیوان، کیا دفتر بیت المال، ہر ایک چیز اسلامی صورت پر ہو۔ قتل کے بدلے قتل ، آنکھ کے بدلے آنکھ، زنا میں سنگساری ، مرتد کے لئے قتل، مرتدہ کے لئے عمر قید و جائیداد سے محرومی۔ اگر یہ تمام باتیں عطا کی جاویں، تو ہم لوگ گورنمنٹ عالیہ کے شکر گزار ہوں گے۔

اگر شریعت بل کے نام سے بعض مسلمان اراکینِ مجلس واضعِ قوانین و آئین بعض سیاسی مصلحتوں کو ملحوظ رکھ کر اس کا نفاذ چاہتے ہیں تو ہم کو معاف رکھیں، کیونکہ ہمارے مذہب پاک کی تذلیل ہوگی۔ موجودہ قانون رواج کے ماتحت اس وقت بھی اگر کوئی مسلمان شرع محمدی پر اناث کو حصہ دے تو کوئی قانونی ممانعت نہیں۔ اگر تمام شرع شریف جیسا کہ اوپر عرض کر چکے ہیں ، گورنمنٹ عالیہ عطا نہیں کرتی تو پھر ہمارا قانون رواج ہے، مسلم شخصی قانون ہرگز نہیں۔ بالفرض اگر مجوزہ شریعت بل کونسل میں کثرت رائے سے بھی منظور ہو جائے تو ہم کو اس سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ فقط

اور زبانی شریعت بل کے یہ نقائص بیان کرتے ہیں۔ چونکہ موجودہ شریعت بل ذکور کو جائیداد دینے کا پابند کرتا ہے اور اناث کو اسی حالت میں چھوڑتا ہے اور ان کے لئے تعزیرات ہند ہے، اس لئے اس کے بد نتائج سے ہم تمام خائف ہیں۔ بالفرض اگر کسی گھرانے کی بیوہ یا بالغہ ناکتخدا () کسی سے ملوث ہو جائے اور پھر اس کے ساتھ اغوا کر کے شادی کر لے، تو شریعت بل اس کو حصہ دے گا ، حالانکہ فطرت انسانی و افغانی اس سے بغاوت کرتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ زنا کار کے لئے سنگساری ہو۔ کیا مرد کیا عورت، ہر دو پر یہ حکم جاری ہو ۔ تمت کلا مہم۔

گزارش ہے کہ ایسے لوگوں کے حق میں جو حکم شرعاً وارد ہوتا ہو تحریر فرما کر اطمینان بخشیں ، زیادہ حد ادب۔

المستفتی نمبر 696
قاضی محمد جان ( ضلع ڈیرہ اسماعیل خان)
10 ربیع الاول 1355ھ، یکم جون 1936ء

جواب:

مسلمان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کرے اور شریعت کے سامنے گردن جھکا دے اور اپنے اختیار اور ارادہ سے کسی ایک ادنیٰ سے ادنیٰ حکم میں سرتابی نہ کرے۔

تنفیذِ احکام شریعت اسلامی سلطنت کے فرائض میں سے ہے اور سلطنت ہی اس پر قادر ہو سکتی ہے، اگرچہ مسلم مخلص کے لئے کسی منفذ کی حاجت نہ ہونا چاہیے۔ اس کی سعادت اسی میں ہے کہ بغیر کسی جبر و قوت کے خود ہی تسلیم و انقیاد کا راستہ اختیار کرے۔

ظاہر ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی بدقسمتی سے ان پر ایک حکومتِ غیر مسلمہ مسلط ہے اور اسے تنفیذ ِاحکام شریعت سے مطلقاً کوئی غرض نہیں ، لیکن اس کا وعدہ یہ ہے کہ وہ رعایا کے کسی فرقہ کے مذہب میں مداخلت نہیں کرے گی اور افرادِ عایا میں سے ہر فرد کو اپنے اپنے مذہب کے موافق عمل کرنے سے نہیں روکے گی۔ اس لئے مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے مذہب کے موافق عمل کرنے کی کوشش کریں ۔ جن مسائل میں کہ حکومت مانع نہ ہو اس میں تو کوئی عذر باقی نہیں رہتا اور جن احکام میں حکومت مانع آئے ان میں اس وقت تک وہ مجبور و معذور ہوں گے، جب تک کہ حکومت کو رفع ممانعت پر آمادہ نہ کر لیں اور اس کی سعی ان پر لازم ہوگی ۔

پس بحالتِ موجودہ اگر حکومت مسلطہ سیاسیات اور فوجداری مقدمات میں مسلمانوں کو یہ آزادی نہیں دیتی کہ وہ اسلامی احکام کے مطابق عمل کریں ، تو اس میں تو ایک درجہ تک مسلمان معذور ہو سکتے ہیں۔ لیکن جن مقدمات میں وہ مسلمانوں کو مذہب کے موافق عمل کرنے میں آزادی دیتی ہے، یا دے سکتی ہے ان میں مسلمانوں کے لئے کوئی عذر نہیں کہ وہ اسلامی احکام سے سرتابی کر کے مشرکانہ اور کفر یہ رسوم و رواج کے پابند رہیں۔ اگر ایسا کریں گے تو گویا اپنے ارادہ و اختیار سے وہ آسمانی اور الٰہی شریعت کو چھوڑ کر طاغوت و شیطان کے متبع ہوں گے اور اس صورت میں ان پر کفر کے احکام جاری ہوں گے۔

یہ درخواست یقیناً اسلامی احکام کے ماتحت موجبِ کفر ہے اور اگر ایک مسئلے میں بھی حکومت مسلطہ مسلمانوں کو اسلامی شریعت کے مطابق عمل کرنے کا موقع بہم پہنچاتی ہو یا پہنچانے کو تیار ہو اور مسلمان اپنے ارادہ و اختیار سے اس سے سرتابی کریں تو وہ یقیناً دائرہ اسلام سے خارج ہو کر حزب الشیطان میں داخل ہو جائیں گے اور یہ کفر بھی کفرِ عناد و جحود ہو گا۔ أعاذنا اللہ منہ

یہ عذر کہ تمام احکام میں شریعت ملے تو لیں گے، ورنہ نہیں، مہمل ہے اور نا قابل اعتبار ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جن احکام میں مسلمان مجبوری کی وجہ سے شریعت پر عمل نہیں کر سکتے ، ان کی وجہ سے وہ ان احکام کو بھی چھوڑ بیٹھیں جن پر عمل کرنے میں وہ قانوناً آزاد ہیں اور یہ صریح جہالت ہے۔ کیا اس وجہ سے کہ ہندوستانی مسلمان سیاسی اور فوجداری معاملات میں مجبور ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کو چھوڑ سکتے ہیں؟ اور یہ عذر کر سکتے ہیں کہ جب ہم کو ساری شریعت نہیں ملی ، تو ہم جزوی شریعت بھی اختیار نہیں کرتے؟

الحاصل یہ درخواست شریعت سے بھاگنے اور رواج پر قائم رہنے کا ایک حیلہ ہے اور حیلہ بھی ایسا جس کا بطلان آفتاب سے زیادہ روشن ہے۔ اس کے مرتکب فاسق تو یقیناً ہیں اور ان کے اسلام میں بھی خطرہ شدید لاحق ہے۔ ان کو فوراً اس سے تو بہ کرنی چاہیے، اور خدا اور رسول کے دین کے سامنے سر اطاعت جھکا دینا چاہیے۔

محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ

مکتوب متعلقہ جواب مذکورہ:

از قاضی محمد جان صاحب، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان

سوال (898):

جناب عالی کی خدمت میں بصد عجز و نیاز کے عرض پرداز ہوں کہ جناب کے فتویٰ مذکور الصدر کے مضمون میں ہم کو قصور فہمی و کم علمی سے کچھ شبہ ہے۔ وہ یہ کہ ابتدائے کلام میں درخواست کو موجب کفر تحریر کیا ہے اور انتہا میں فسق و خطرہ شدید یعنی عدم کفر ، اب بصورت مذکورہ ایک حکم کفر یا فسق کو معین کرنا محال ہوا، لہٰذا بارثانی تکلیف دے کر تشفی چاہتے ہیں، یہاں کے علماء درخواست بالا پر مختلف ہیں۔

فریق اول علماء بھی شریعت بل کو باعث تذلیلِ مذہب کہتے ہیں، اس لئے مضمون درخواست کو جو کہ مبنی ردِ شریعت بل پر ہے، صحیح جانتے ہیں اور اہل درخواست کو مصیب و مثاب کہتے ہیں اور فریق دوم علماء مضمونِ درخواست کو ر دِ شریعت جزوی کہتے ہیں اور درخواست کنندگان کو جو قصداً اس فعل کے مرتکب ہیں اور اب تک مضمون بالا پر مصر ہیں، کافر کہتے ہیں۔

اہل درخواست پر شرعاً حکم کفر یا فسق عائد ہو سکتا ہے یا نہیں؟

علماء فریق اول جو کہ منکرین شریعت بل کو صحیح و مثاب کہتے ہیں، شرعاً کس درجہ کے مجرم ہیں؟

علمائے معاونِ شریعت بل جو کہ فریق دوم ہیں، حکم لگاتے ہیں کہ علماء فریق اول کے پیچھے اقتدائے نماز خمسہ و نماز جنازہ ہرگز جائز نہیں، یہ حکم شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب:

درخواست کا مضمون اور درخواست دہندوں کا یہ فعل تو بے شک کافرانہ ہے، لیکن افراد اور اشخاص کی شخصی تکفیر کرنے میں احتیاط لازم ہے، کیونکہ شخصی طور پر کوئی ایسی تاویل جو کفر سے بچالے، ممکن ہے۔

یہ ان کی غلطی ہے اور ان کی رائے نا قابلِ قبول ہے۔

یہ حکم لگانا کہ درخواست دہندگان اور علمائے فریق اول سب مرتد ہو گئے اور ان کی امامت نا جائز ہے، تشدد ہے اور خلاف احتیاط ہے۔

کسی عمل کو عموماً کفر کا عمل بتانا اور بات ہے اور اس کے مرتکب کو شخصی طور پر کافر قرار دینا اور بات ہے۔ شخصی طور پر احتمال تاویل قائم ہو کر کفر سے بچا سکتا ہے اور احوط یہی ہے کہ تکفیر نہ کی جائے۔

محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ

ایک گروہ کا شریعت بل کی مخالفت کرنا:

(الجمعیۃ مورخہ 20 فروری 1935ء)

سوال (899):

شریعت بل جو صوبہ سرحد کے کونسل میں بہت سے مشکلات کے مدارج طے کرتا ہوا اب برائے رائے عامہ مشتہر ہو چکا ہے، ایک گروہ مسلمانوں کا اس شریعت بل سے انکار کرتا ہے۔ دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ یہ مکمل شریعت نہیں ، دوسرے یہ کہ غیر مذہب سے شریعت کو مانگا ہے۔ آپ اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔

جواب:

شریعت بل کا مسودہ اگرچہ ضرورت سے بہت کم ہے، لیکن اس کو بطور توطیہ و تمہید کے پیش کر کے منظور کرانے کی سعی کرنا ناجائز نہیں ہے، اس کی منظوری کے بعد بقیہ ضروریات کی تحصیل کے لئے کوشش کرنے کا راستہ نکل آئے گا۔

محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ
   
2016ء سے
Flag Counter