سنی شیعہ کشمکش ۔ خواہشات اور حقائق

   
۱۵ اپریل ۲۰۱۵ء

اس عالم رنگ و بو میں خواہشات کا دائرہ الگ ہوتا ہے جبکہ میسر و موجود کا دائرہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ میں جو کچھ چاہ رہا ہوں وہی ہو رہا ہو یا اس کا ہو جانا دائرہ امکان میں بھی ہو۔ اس لیے جو چاہ رہا ہوں اس کے لیے کوشش ضرور کرنی چاہیے لیکن مجھے نمٹنا اسی سے ہے جو موجود و میسر ہے۔ کیونکہ اپنی چاہت کے لیے سعی و محنت کرتے ہوئے موجود و میسر کو نظر انداز کر دینا اور اس سے آنکھیں بند کر لینا عقل و دانش کا تقاضہ نہیں سمجھا جاتا۔

مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے بارے میں ہم نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ علاقائی تناظر اور معروضی حقائق کو نظر انداز کر کے کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ غیر منطقی ہوگا۔ مگر ہماری قومی قیادت کی ’’سیاسی فراست‘‘ کی داد دیجئے کہ ہم نے قومی سطح پر ایک اچھی خواہش کا اظہار کیا کہ عالم اسلام میں سنّی شیعہ کشمکش کو فروغ حاصل نہیں ہونا چاہیے، اس کے لیے ہم نے ایک حکمت عملی سوچ لی کہ یمن اور مشرق وسطیٰ میں جاری کشمکش کو سنّی شیعہ کشمکش کا عنوان نہیں دینا چاہیے۔ یہ دونوں بہت اچھی خواہشیں ہیں، خود ہماری خواہش بھی یہی ہے، ہم نے ہمیشہ سنّی شیعہ اختلافات کو کشمکش اور تصادم کا رنگ دینے کی مخالفت کی ہے۔ اور ہماری یہ خواہش اب بھی بدستور اسی درجہ میں قائم ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ہم نے یہ بھی تصور کر لیا کہ مشرق وسطیٰ میں ایسا نہیں ہو رہا اور اس تصور پر قومی پالیسی کی بنیاد کھڑی کر کے یہ طے کر لیا کہ یمن کا مسئلہ اس کی اور سعودی عرب کی کشمکش ہے اور ہمیں اس سے الگ تھلگ رہنا چاہیے۔

یہ خواہش بہت اچھی ہے کہ مشرق وسطیٰ کی کشمکش کو سنّی شیعہ تصادم کا رنگ اختیار نہیں کرنا چاہیے لیکن ’’اختیار نہیں کرنا چاہیے‘‘ کو ’’موجود نہیں ہے‘‘ میں تبدیل کر دینا زمینی حقائق اور معروضی صورت حال سے مطابق نہیں رکھتا جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور وہ ہر سطح پر ہونی چاہیے۔ بلکہ ہم تو اس سلسلہ میں سنجیدہ سنّی اور شیعہ راہ نماؤں کے درمیان مکالمہ کو بھی مناسب خیال کرتے ہیں، کیونکہ ایرانی انقلاب کے بعد مشرق وسطیٰ میں حتیٰ کہ ہمارے ہاں پاکستان میں بھی سنّی شیعہ کشمکش نے جو نیا رنگ اختیار کیا تھا اور جس پر گزشتہ چار عشروں سے مسلسل سفر جاری ہے، اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا اور اس پر بحث و مکالمہ اب انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔ مثلاً عراق ایران جنگ کے اسباب اور اس میں مختلف فریقوں کا کردار مستقل بحث کا متقاضی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں عراق کی تین حصوں میں تقسیم کا جو فارمولا عالمی حلقوں میں ایک عرصہ سے گردش کر رہا ہے اس میں سنّی اور شیعہ تقسیم کو کھرچ ڈالنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ اسی طرح شام میں حافظ الاسد اور بشار الاسد کے ہاتھوں گزشتہ نصف صدی سے ریاستی جبر کا نشانہ بننے والے مذہبی طبقے اپنے سنّی ہونے پر پردہ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ جبکہ عراق میں نوری مالکی اور شام میں بشار الاسد کے جبر کا شکار ہونے والے سنیوں کا ’’داعش‘‘ کے نام پر متحد ہو جانا بھی ایک زمینی حقیقت ہے جس کا سب مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ایجنڈے کو ہائی جیک کن لوگوں نے کر لیا ہے اور ان کی متحدہ قوت کو کیش کرانے میں کون لوگ مصروف ہیں، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ داعش کے نام سے یکجا ہونے والے تمام عسکری گروپ ’’سنّی‘‘ ہیں اور ان کے یکجا ہونے کا باعث بھی ان کا سنّی ہونا ہی ہے۔

پھر یمن میں زیدیوں اور دیگر آبادی کی باہمی کشمکش اگرچہ صدیوں پرانی ہے لیکن اسے نیا رنگ دے کر پالش کرنے اور مسلح و متحرک طاقت کی شکل دینے کی کہانی پرانی نہیں ہے۔ اور اس میں گزشتہ دو عشروں کے دوران جس جس کا جو کردار رہا ہے وہ بھی کوئی مخفی راز نہیں ہے۔ اسی طرح بحرین، کویت اور لبنان کے معاملات کو بھی حقیقت پسندانہ طور پر دیکھا جائے تو مذکورہ بالا مجموعی پس منظر سے انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔

ہماری گزارش کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے۔ ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے عالمی استعماری قوتوں اور اسرائیل کی خواہشات اور کوششوں کا دخل سب سے زیادہ ہے۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ’’ہو رہا ہے‘‘ کی بد قسمتی کو ’’نہیں ہونا چاہیے‘‘ کی اچھی خواہش کے پردے میں چھپایا نہیں جا سکتا۔

مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا ایک منظر تو یہ ہے جو ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے۔ جبکہ دوسرا منظر یہ ہے کہ دو واضح کیمپ تشکیل پا چکے ہیں اور دونوں نے ہمیں بحیثیت ملک و قوم اپنے ساتھ شامل ہونے کی باقاعدہ دعوت دی ہے۔ سعودی عرب کی فرمائش اور اس کے ساتھ عرب لیگ کا تقاضہ ہمارے سامنے ہے، جبکہ ایران کے وزیر خارجہ نے خود تشریف لا کر ہمیں ’’سعودی مخالف اتحاد‘‘ میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ ان دو کیمپوں کے درمیان غیر جانبدار رہنا موجودہ حالات میں زیادہ دیر تک قابل عمل دکھائی نہیں دے رہا۔ کیونکہ دونوں میں سے کوئی بھی ہمیں صدر بش کے لہجے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ اگر ہمارے ساتھ نہیں تو پھر ہمارے مخالف ہیں۔ بلکہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کے بیان میں یہ بات قدرے تلخ لہجے میں موجود بھی ہے۔ ہم نے گزشتہ کالم میں یہی بات عرض کی تھی کہ یہ مسئلہ صرف یمن کا نہیں مشرق وسطیٰ کا ہے اور اسے یمن اور سعودی عرب کا قضیہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ہمیں مشرق وسطیٰ کی مجموعی صورت حال اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر اپنا مستقبل کا ایجنڈا طے کرنا ہوگا۔

کسی شخص کو کینسر ہو جائے تو اس کے اسباب کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے اور اسے بے حوصلہ ہونے سے بچانے کے لیے اسے اس کے مرض سے آگاہ نہ کرنا بھی بسا اوقات حکمت عملی کا تقاضہ بن جاتا ہے، لیکن علاج تو بہرحال کینسر کا ہی ہوتا ہے اور موجود و میسر حالات و اسباب کے دائرہ میں ہوتا ہے۔ سنّی شیعہ کشمکش اور تصادم کو ہم عالم اسلام کے اجتماعی وجود کے لیے کینسر سے کم نہیں سمجھتے، لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ کینسر نہ صرف موجود ہے بلکہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور اسے ’’لا علاج‘‘ قرار دے کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا حکمت و دانش کا تقاضہ نہیں ہے جبکہ اس کے علاج کے لیے اپنی تمام تر دانش و حکمت اور اسباب و وسائل کو استعمال میں لے آنا ہی وقت کا سب سے اہم تقاضہ ہے۔ مگر اس کے لیے اولین ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری قومی قیادت بالخصوص قومی سیاست میں اہل دین کی نمائندگی کرنے والی دینی قیادت ’’کنفیوژن‘‘ کے ماحول سے باہر نکلے اور حالات و ضروریات کا پوری طرح ادراک کرتے ہوئے قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے عزم و ہمت سے کام لے۔ خدا کرے کہ ایسا ہوجائے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter