مفتی محمد جمیل خان شہید اور مولانا نذیر احمد تونسوی شہیدؒ کے المناک قتل کی خبر مجھے لندن میں ملی۔ مفتی محمد جمیل خانؒ سے ۸ ستمبر کو جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر کے سالانہ جلسہ ختم بخاری شریف میں ملاقات ہوئی تھی، ۱۳ ستمبر کو بیرونی سفر پر روانہ ہوگیا تھا اس لیے یہ آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ پہلی ملاقات جہاں تک یاد پڑتا ہے ۱۹۷۴ء میں ہوئی تھی جب وہ مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ میں طالب علم تھے اور میں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی نیابت کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔
چناب نگر (ربوہ) کے ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے مسلمان طلبہ کے ساتھ قادیانی نوجوانوں کے متشددانہ سلوک اور مسلمان طلبہ کے زخمی ہونے کے ردعمل میں قادیانیوں کے خلاف مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جنہوں نے آگے چل کر باقاعدہ تحریک ختم نبوت کی شکل اختیار کر لی اور منتخب پارلیمنٹ نے اسی تحریک کے نتیجے میں قادیانیوں کو دستوری ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔ گوجرانوالہ میں تحریک ختم نبوت کا ہیڈکوارٹر مرکزی جامع مسجد (شیرانوالہ باغ) تھی اور کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری کی ذمہ داری میرے سپرد تھی۔ اس دوران مختلف دینی مدارس کے جن طلبہ نے تحریک ختم نبوت میں سرگرم کردار ادا کیا ان میں مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ کے طالب علم محمد جمیل خان کا نام نمایاں ہے۔
اس کے بعد ملاقاتوں بلکہ رفاقت کا ایک ایسا تسلسل ہے کہ اسے احاطۂ تحریر میں لانا مشکل نظر آرہا ہے۔ وہ جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم رہنماؤں میں رہے ہیں، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت میں بھرپور کردار ادا کیا ہے، صحافت کے ساتھ تعلق اور قومی اخبارات میں دینی حلقوں کی نمائندگی بھی ہماری قدرِ مشترک رہی ہے اور بیرونی اسفار میں بہت جگہ رفاقت رہی ہے۔ مجھے ان کی جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کا خدمت گزاری کا جذبہ تھا جو سفر میں عروج پر پہنچ جایا کرتا تھا۔ سفر کے انتظامات، ویزے لگوانا، ٹکٹ خریدنا، کنفرم کرانا، سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا، رہائش کے انتظامات اور دیگر امور کے ساتھ ساتھ ذاتی خدمت کے لیے مستعد رہنا ان کے من پسند مشاغل شمار ہوتے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ حج بھی کیا ہے اور جدہ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں انہیں حاجیوں بالخصوص علماء کرام کی خدمت میں ہمہ تن مصروف دیکھا ہے۔ میں ان کے ساتھ ازبکستان کے سفر میں شریک رہا ہوں، تاشقند، سمرقند اور خرتنگ وغیرہ میں انہیں رفقاء سفر کی خدمت اور سہولت کے کاموں میں اس بے تکلفی کے ساتھ مصروف پایا ہے جیسے وہ کسی دوسرے ملک میں نہیں بلکہ کراچی میں ہیں۔ برطانیہ کے مختلف اسفار میں ان کے ساتھ رفاقت رہی ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیراہتمام برمنگھم کی مرکزی جامع مسجد میں منعقد ہونے والی عالمی ختم نبوت کانفرنس کے لیے ان کی شب و روز کی مصروفیات دیکھی ہیں۔
انہیں اسٹیج پر آنے کا شوق نہیں تھا بلکہ کانفرنس کی خبریں اور رپورٹ اخبارات میں بروقت شائع کرانا ان کی سرگرمیوں کا مرکزی ہدف ہوتا تھا۔ ختم نبوت کانفرنس برمنگھم کی ہو یا چناب نگر کی، ایسے مواقع پر ان کا صحافتی ذوق انتہا کو چھونے لگتا تھا۔ ایک بڑے اخبار سے ان کا بطور سب ایڈیٹر تعلق تھا، کانفرنس کے موقع پر خصوصی اشاعت کا اہتمام کرنا، مضامین فراہم کرنا، خبریں مہیا کرنا اور کانفرنس کی رپورٹنگ کا خود ذاتی طور پر اہتمام کرنا ان کا مشن تھا اور ان کی موجودگی میں ہم ایسے بہت سے کاموں سے بے نیاز ہو جایا کرتے تھے۔
خدمت کے حوالے سے مفتی جمیل احمد خان شہیدؒ کے ذوق کا یہ پہلو بطور خاص قابل ذکر ہے کہ بزرگ علماء کرام تک رسائی حاصل کرنا اور ان کی خدمت کے لیے بہت سے کام اپنے کھاتے میں ڈال لینا ان کا مشغلہ تھا۔ انہیں جن بزرگوں کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا ہے ان میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا مفتی ولی حسنؒ، حضرت مولانا مفتی احمد الرحمانؒ اور حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ انہی میں میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ بھی ہیں جو ترانوے برس کی عمر میں چند سالوں سے مسلسل صاحب فراش ہیں۔ ہمارے چھوٹے بھائی قاری ساجد خان اور قاری راشد خان ان کی خدمت میں رہتے ہیں، مجھے اپنی نالائقی اور مختلف النوع پیہم مصروفیات کی وجہ سے ان کی خدمت میں رہنے کا موقع نہیں ملتا مگر مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ اور ان کے رفقاء حاجی محمد لقمان میر، ڈاکٹر فضل الرحمان اور مولانا محمد نواز بلوچ نے بیماری اور معذوری کے ایام میں ان کی خدمت کے کاموں کو جس طرح سنبھالا اس پر ان حضرات کے لیے بے ساختہ دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کی دینی خدمت کا ایک وسیع میدان ’’اقراء روضۃ الاطفال‘‘ کا وہ وسیع نیٹ ورک ہے جس کے تحت کراچی سے گلگت تک مختلف علاقوں میں ایسے مدارس کا جال بچھا دیا گیا ہے جس میں کھاتے پیتے اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے بچے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اسکول کی ضروری تعلیم بھی پاتے ہیں۔ قرآن کریم حفظ کرنے یا دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں کچھ عرصہ تک تو یہی عمومی تاثر رہا ہے کہ غریب گھرانوں کے بچے ہی یہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور عام طور پر معذور بچوں یا ایسے گھرانوں کے بچوں کو ان مدارس میں بھیجا جاتا ہے جو اپنے بچوں کی کفالت نہیں کر پاتے۔ ویسے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ گوجرانوالہ میں ایک دیہاتی خاتون دو بچوں کو لے کر میرے پاس آئی، وہ اتنے چھوٹے تھے کہ انہیں سنبھالنا خود ایک مسئلہ تھا، میں نے بچے واپس کر دیے۔ دو روز کے بعد وہ خاتون ہمارے ایک دوست کو سفارشی بنا کر لے آئی اور کہا کہ خدا کے لیے ان بچوں کو رکھ لیں، میرا خاوند بیمار ہے اور کمانے کے قابل نہیں ہے، میں لوگوں کے گھروں میں کام کر کے گزارا کرتی ہوں، مجھ سے یہ بچے نہیں سنبھالے جاتے اس لیے انہیں مدرسے میں رکھ لیں۔ ہم نے ترس کھا کر ان بچوں کو رکھ لیا اور خدا کی قدرت کہ ان میں سے ایک بچے نے صرف گیارہ ماہ میں قرآن کریم مکمل حفظ کر لیا اور اگلے سال رمضان المبارک کے دوران نفلوں میں مجھ سے بطور سامع قرآن کریم سنا۔
بحمد اللہ تعالیٰ اب دینی مدارس میں یہ صورتحال نہیں ہے، اب ان مدارس میں کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے گھرانوں کے بچے بھی قرآن کریم حفظ کرتے اور دینی علم کی تعلیم پاتے ہیں۔ بلکہ ایسے مدارس میں جو حفظ قرآن کریم اور دیگر دینی علوم کے ساتھ ساتھ سکول کی تعلیم دیتے ہیں اور تعلیم و انتظام کا معیار دوسرے اسکولوں اور کالجوں کی طرح عمدہ رکھتے ہیں، ان میں داخلے کے لیے امیدواروں کی لمبی لمبی ویٹنگ لسٹیں ہوتی ہیں اور باقاعدہ سفارشیں کرائی جاتی ہیں۔ گوجرانوالہ میں اقراء روضۃ الاطفال کی شاخوں میں داخلے کے لیے مجھ سے کئی معزز شہری مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کے نام سفارشی رقعے لکھواتے رہے۔
صورتحال میں اس خوشگوار تبدیلی کے اسباب میں میرے نزدیک سب سے زیادہ کریڈٹ تبلیغی جماعت کو جاتا ہے جو معاشرے کے مختلف طبقات میں دین کی دعوت اور دینی اقدار کی طرف مسلمانوں کی واپسی کے لیے متحرک ہے اور مسجد کے ساتھ عام مسلمان کو جوڑنے کے کام میں مصروف ہے۔ اس کے بعد اس تبدیلی کے اسباب میں ’’اقراء روضۃ الاطفال‘‘ کا بھی بڑا کردار ہے جس نے سوسائٹی کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں اور کھاتے پیتے خاندانوں میں یہ ذوق پیدا کیا کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول اور کالج کی تعلیم دلانے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم حفظ کرائیں، دینی تعلیم سے بھی بہرہ ور کریں۔ اور پھر ان کے معیار کے مطابق انتظامات بھی کیے تاکہ انہیں اپنے بچوں کو ان مدارس میں بھیجنے میں معاشرتی طور پر کوئی عار یا حجاب محسوس نہ ہو۔ مجھے یاد ہے کہ اب سے ربع صدی قبل جب ہم مالدار یا افسر طبقے کے کسی دوست کو ترغیب دیتے کہ وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلائیں تو عام طور پر ان کا جواب یہ ہوتا تھا کہ ہم اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلانے کے خواہش مند تو ہیں لیکن ایک تو ہم انہیں چندے اور زکوٰۃ کے مال سے پڑھانا نہیں چاہتے اور دوسرے صرف دینی تعلیم نہیں بلکہ عصری تعلیم سے بھی بہرہ ور کرنا چاہتے ہیں۔ اقراء روضۃ الاطفال نے ان دونوں تقاضوں کو کافی حد تک پورا کر دیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے طبقاتی معاشرے کی بالائی سطح کو دینی تعلیم کی طرف متوجہ کرنے میں اقراء روضۃ الاطفال کا بہت اہم کردار ہے اور اس کا کریڈٹ سب سے زیادہ مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کو جاتا ہے۔ خاص طور پر کراچی میں تو اقراء روضۃ الاطفال کے اس کردار کو ایک اور حوالے سے بھی دیکھتا ہوں کہ پاکستان کا یہ سب سے بڑا شہر جو معاشی حوالے سے ملک کا اعصابی مرکز ہے، ایک عرصے سے بین الاقوامی سازشوں کی زد میں ہے اور اسے کئی بار لسانی اور نسلی عصبیتوں کا نشانہ بنا کر سازشوں کے فریم ورک میں فٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس زہر کا اصل تریاق دینی تعلیم اور دینی ماحول ہے جسے فراہم کرنے میں کراچی کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے دینی مدارس کے وسیع جال کے ساتھ ساتھ اقراء روضۃ الاطفال کا بھی بڑا حصہ ہے اور قومی وحدت کے تحفظ میں مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کی اس محنت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مفتی محمد جمیل خان کی شہادت کے بعد سے مسلسل اس سوچ میں ہوں کہ ان کی تعزیت کس سے کروں؟ وہ کسی ایک خاندان، ادارے یا حلقے کا فرد نہیں تھا، اس کا معاملہ سب سے یکساں تھا اور سب کی خوشیوں اور دکھ درد میں ایسے شریک ہوتا تھا جیسے خود اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں میں خوشیاں بانٹ رہا ہے یا ان کے غم کا بوجھ ہلکا کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اور مولانا نذیر احمد تونسوی شہید کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور سب پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔